۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ پیغمبر خدا کریم ترین وجواد ترین خلق بود دائمًا، ودرماہ رمضان سخاوت وبخشش اوبر مردم وایثار وے از ہمہ اوقات زیادہ بودے وصدقات وخیرات بر ہمہ لیالی وایام مضاعف گشتے، وبہ ذِکر ونماز وتلاوت واعتکاف جمیع ساعات روز وشب را مستغرق داشتے وایں ماہ عظیم رابہ عباداتِ گوناگوں مخصوص […]
پیغمبر خدا کریم ترین وجواد ترین خلق بود دائمًا، ودرماہ رمضان سخاوت وبخشش اوبر مردم وایثار وے از ہمہ اوقات زیادہ بودے وصدقات وخیرات بر ہمہ لیالی وایام مضاعف گشتے، وبہ ذِکر ونماز وتلاوت واعتکاف جمیع ساعات روز وشب را مستغرق داشتے وایں ماہ عظیم رابہ عباداتِ گوناگوں مخصوص گردانیدے۔ (سفر السعادہ، فیروزآبادی) رسول اللہﷺکے جودوکرم کا دریا تو ہمیشہ ہی بہتارہتاتھا، لیکن ماہ رمضان میں حضور کی سخاوت وفیاضی، اور خدمتِ خلق کی توکوئی حد ہی نہیں رہتی تھی۔ اور صدقات وخیرات کا نمبر ہرزمامہ سے کہیں زائد بڑھ جاتاتھا، اور ذکرِ الٰہی اور نمازِ نوافل، اور تلاوتِ قرآن اور اعتکاف، بس دن رات کی یہی مشغولیت تھی اور یہی شب وروز کا معمول۔ اس سارے ماہ مبارک کو آپﷺ طرح طرح کی عبادتوں ہی کے لئے مخصوص رکھتے۔ رسول کریمﷺ کے رمضان کا حال آپ نے سْن لیا؟ ”میں نے اپنے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کو متعدد رمضانوں میں دیکھاہے کہ باوجود ضعف وپیرانہ سالی کے، مغرب کے بعد، نوافل میں چوتھائی پارہ پڑھنا یا سنانا، اور اس کے بعد، آدھ گھنٹہ، کھانا وغیرہ ضروریات کے بعد، ہندوستان کے قیام میں دوسوادو گھنٹے تراویح میں خرچ ہوتے تھے، اور مدینہ پاک کے قیام میں تقریبًا تین گھنٹے میں عشا وتراویح سے فراغت ہوتی، اس کے بعد دوتین گھنٹے آرام فرمانے کے بعد تہجد میں تلاوت فرماتے، اور صبح سے نصف گھنٹہ قبل سحر تناول فرماتے۔ اس کے بعد صبح کی نماز تک کبھی حفظ تلاوت، کبھی اوراد ووظائف۔ اسفار یعنی چاندنی میں صبح کی نماز پڑھ کر اشراق تک مراقب رہتے، اور اشراق کے بعد تقریبًا ایک گھنٹہ آرام فرماتے۔ اس کے بعد سے تقریبًا ۱۲بجے اور گرمیوں میں ایک بجے تک، بذل المجہود شرح سنن آبی داوٗد) تحریر فرماتے۔ اور ڈاک وغیرہ ملاحظہ فرماکر جواب لکھاتے۔ اس کے بعد ظہر کی نماز تک آرام فرماتے۔ ظہر سے عصر تک تلاوت فرماتے۔ عصر سے مغر ب تک تسبیح میں مشغول رہتے، اور حاضرین سے بات چیت بھی فرماتے……حضرت مولانا شیخ الہند تراویح کے بعد سے صبح کی نماز تک نوافل میں مشغول رہتے تھے، اور یکے بعد دیگرے متفرق حفاظ سے کلام مجید سنتے تھے۔ اور حضرت مولانا شاہ عبد الرحیمؒ رائپوری کے ہاں تو رمضان المبارک کا مہینہ دن ورات تلاوت ہی کا ہوتاتھا کہ اس میں ڈاک بھی بند اورملاقات بھی ذرا گوارا نہ تھی…فخر کی بات نہیں، تحدیث بالنعمہ کے طور پر لکھتاہوں، اپنی نااہلیت سے خود اگرچہ کچھ نہیں کرسکتا، مگر اپنے گھرانے کی عورتوں کو دیکھ کر خوش ہوتاہوں کہ اکثروں کو اس کا اہتمام رہتاہے، کہ دوسری سے تلاوت میں بڑھ جائیں۔ خانگی کاروبار کے ساتھ ۱۵۔۲۰پارے روزانہ بے تکلف پورے کرلیتی ہیں۔(فضائل رمضان، از مولانا محمد زکریا صاحب، شیخ الحدیث، مظاہر العلوم، سہارن پور) حال کے بعض اولیائے امت کے رمضان کا منظر بھی آپ نے دیکھ لیا؟ اب ارشاد ہوکہ آپ کے رمضان کو اس قسم کے رمضان سے کوئی نسبت اور کوئی مناسبت ہے؟ آپ کہتے ہیں کہ رمضان آگیا، لیکن رمضان، کیا نام ہے محض جنتری میں لکھے ہوئے، سنہ قمری کے نویں مہینے کا؟ رمضان اگر واقعی آپ کے ہاں آگیا ہے، تو کہاں ہیں آپ کی مسلسل عبادتیں اور طاعتیں، نمازیں اور تلاوتیں، شب بیداریاں اور خلق کی خدمت گزاریاں، دعائیں اور مناجاتیں، نیکیاں اور فیاضیاں؟ روزہ رکھنے والے ہی اول تو اب کتنے ہیں، اور جو ہیں بھی ذرا اْن کے معمولات شب وروز پر ایک نظر کرجائیے۔ وہی غفلتیں اور وہی مدہوشیاں، وہی غیبتیں اور وہی مردم آزاریاں، وہی بخل اور وہی اسراف، عبادت سے وہی نفرت، اور فسق وفجور سے وہی رغبت!……برسات نام بارش کے خوب ہونے کا ہے، محض برساتی مہینوں کے آجانے کا نہیں، ساون، بھادوں اگر بالکل خشک ہی گزر جائیں، تو زمین میں تری اور درختوں پر سبزی کہاں سے آجائے گی۔ پھر ماہ مبارک کے حقوق میں سے اگر ہم کوئی حق بھی نہیں اداکررہے ہیں، تو ماہ مبارک کی برکتوں سے محرومی پر گلہ وشکوہ کس منہ سے کرسکتے ہیں؟
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں