قرآن کا مقصد نزول انسانوں کوکامیاب زندگی گزارنے کا طریقہ سکھانا ہے
ڈاکٹرسراج الدین ندویؔ
قرآن مجید ہمارے ہاتھوں میں ہے اور ہم ذلیل و خوار ہیں،محکوم ہیں،مغلوب ہیں،خوف زدہ ہیں،غریب ان پڑھ اور جاہل ہیں،الگ الگ فرقوں میں تقسیم ہیں،یہ ایسا ہی جیسے آب حیات ہاتھ میں ہے اور تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔قرآن سے ہم جن بھوت بھگا رہے ہیں،اس کی آیتوں کو تعویذ بنا کر پہن رہے ہیں،اس کو پڑھ کر اپنے مرحومین کو بخشوارہے ہیں،جب کہ زندوں کی زندگی مصیبت بنی ہوئی ہے۔یہ تضاد صرف اس لیے ہے کہ ہم قرآن کو جھاڑ پھونک،تنتر منتر کی کتاب سمجھ بیٹھے ہیں۔ہم بھول گئے کہ یہ کتاب ہمیں اس لیے دی گئی تھی کہ ہم اس کے مطابق زندگی گزاریں۔ہمارا عقیدہ قرآن کے مطابق ہو۔ہماری عبادات اور معاملات قرآن کے مطابق ہوں۔
تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جب ہم نے قرآن کو اپنی زندگی کا منشور بنایا تو اس نے ہمیں تاج و تخت عطا کردیے،ہمیں دنیا کا امام بنادیا۔ہم ایک ہزار سال تک پیشوائی کا فریضہ ادا کرتے رہے۔تاریخ اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جب ہم نے قرآن کو چھوڑکر قصے کہانیوں،کرامتوں،اسرائیلی روایتوں کو دین کا درجہ دے دیا،جب محراب و منبر سے قرآن کے علاوہ سب کچھ پڑھا جانے لگا تب سے ہم ذلت کی طرف بڑھنے لگے۔مسلکی،فقہی،علاقائی،لسانی گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔یہ بھی عجیب اتفاق رہا کہ ہم زبان سے کہتے رہے کہ قرآن ہی ہمارا دستور ہونا چاہئے لیکن عمل کی دنیا میں اس سے کوئی واسطہ نہیں رہا۔ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے سارے مسائل کا حل قرآن کی جانب پلٹنے میں ہے۔اگر ہم قرآن کو سمجھ کرپڑھیں گے تو معلوم ہو گا کہ نہ وہاں شیعوں کا ذکر ہے،نہ سنیوں کا،نہ وہابیوں کا نہ بریلیوں کا،وہاں کسی جماعت کا،کسی پیر،بزرگ،ولی، قطب،ابدال کاکوئی ذکر نہیں ہے۔نہ وہاں یہ کہا گیا کہ تم امام اعظم ابو حنیفہ کی پیروی کروگے تو جنت میں جاؤگے،نہ کہا گیا کہ فلاں مزار پر منت مانوگے تو پوری ہوجائے گی۔وہاں حکم ہے تو اللہ کا اور طریقہ ہے تو صرف رسول خدا کا رہے اولی الامر تو وہ بھی اللہ و رسول کے احکامات کے پابند ہیں۔
قرآن مجید کے نازل ہونے کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان ہدایت پاجائیں۔یعنی انھیں وہ راستا مل جائے جس پر چل کر ان کی دنیا بھی کامیاب ہوجائے اور آخرت میں بھی کامیابی ان کے قدم چومے۔قرآن مجید کو جب آپ کھولیں گے تو دوسرے صفحے کی ابتدائی آیات قرآن کا تعارف کرادیتی ہیں۔”الف لام میم اس کتاب میں کوئی شک نہیں یہ ہدایت ہے اللہ سے ڈر نے والوں کے لیے“(البقرہ)سورہ البقرہ میں ہی ایک مقام پر جہاں قرآن کے نزول کی بات کہی گئی ہے وہیں پر ایک بار قرآن کو ہدایت کہا گیا ہے۔”رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں“۔(البقرۃ، ۵۸۱)
قرآن لوگوں کے لئے اس لئے نازل کیا گیا تاکہ وہ قرآن کے ذریعے حق و باطل، سچ اور جھوٹ کے درمیان امتیاز کریں اور اس قرآن کو اپنے لئے ساری زندگی میں سرچشمہ ہدایت ”ہدی للناس“ اور”ہدی اللمتقین“سمجھیں اور اس کی ”بیِّنٰت“ سے مستفید ہوں اور اس قرآن سے راہنمائی حاصل کریں۔مفسرین نے ھد ی للناس اور ھدی للمتقین کے بارے میں کہا ہے کہ قرآن تمام انسانوں کو راستا دکھاتا ہے لیکن اس راستے پر چلتے وہ لوگ ہیں جو متقی ہوتے ہیں۔جس طرح ایک طالب علم کے لیے کتاب میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جس کو پڑھ کر اور سمجھ کر وہ امتحان میں سوالوں کے جواب لکھ سکتا ہے لیکن ہر طالب علم کتاب سے فائدہ نہیں اٹھاتا بلکہ وہی طالب علم اٹھاتا ہے جس کے اندر پاس ہونے کی تمنا ہوتی ہے،جسے منزل پانے کی لگن ہوتی ہے،جو کتاب کے ہر حرف کو اپنی زندگی کا محور بنا لیتا ہے اسی طرح قرآن مجید پڑھتے تو بہت لوگ ہیں،لاکھوں غیر مسلم اس کا مطالعہ کرتے ہیں،لیکن یہ ہدایت انھیں کو دیتا ہے جو اس سے ہدایت چاہتا ہے۔
انبیاء علیہم السلام پر جتنی بھی کتابیں نازل کی گئی ہیں۔ ان سب کا مقصد انسانوں کی ہدایت رہا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کو یہ صحائف اور یہ کتب اس لئے دی گئیں تاکہ ان کے ماننے والے اور ان پر ایمان لانے والے ان کتب اور صحائف سے ہدایت حاصل کریں۔ چنانچہ اس حوالے سے حضرت موسیٰ علی السلام اور آپ پر نازل کی گئی کتاب تورات کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:”اور جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور حق و باطل میں فرق کرنے والا (معجزہ) عطا کیا تاکہ تم راہ ہدایت پاؤ“۔.(البقرۃ ۳۵) ایک دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا:”اور بے شک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا فرمائی تاکہ وہ لوگ ہدایت پا جائیں“۔(المومنون ۹۴)
اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہماری ہدایت کے لیے قرآن نازل کیا۔دوسرا احسان یہ ہے کہ قرآن کو سمجھانے کے ہمیں حضرت محمد ﷺ کی شکل میں رسول مرحمت فرمایا۔طالب علم خواہ کتنا بھی ذہین ہو لیکن کسی بھی کتاب سے مکمل استفادے کی صلاحیت نہیں رکھتا،اسے قدم قدم پر ایک ایسے استاذ کی ضرورت پیش آتی ہے جو کتاب کی گرہیں کھولتا ہے،عملی مشق کرکے دکھاتا ہے۔اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ شروع کیا۔قرآن اور حدیث کی تعلیمات اس پر گواہ ہیں کہ انسانیت کی مکمل رہنمائی کے لیے جس طرح قرآن ضروری ہے اسی طرح اللہ کے رسول کی سیرت اور سنت بھی ضروری ہے۔حضرت امام مالک اپنی کتاب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی کی سنت“۔(رواہ مالک والحاکم عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
یہ حدیث ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکڑے رہنے میں ہی ہدایت ہے۔ جس نے کتاب اللہ کو اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سختی سے پکڑ لیا وہ کبھی بھی گمراہ نہ ہوگا۔ وہ ہدایت پر ہی رہے گا۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ قرآن کو مضبوطی سے کیسے پکڑا جائے، قرآن سے اپنا تعلق کیسے قائم کیا جائے اور قرآن کو اپنی زندگی میں کس طرح اختیار کیا جائے۔ قرآن کے ساتھ ہمارا ربط کیسا ہو اور قرآن ہماری زندگیوں میں کیسے نظر آئے۔ ہمارا عمل قرآن کے مطابق کیسے ہو۔ ہمارا قول قرآن کے مطابق کیسے ہو۔ ہمارا اخلاق قرآن کے مطابق کیسے ہو۔ ہماری سیرت اور ہماری شخصیت قرآن کے مطابق کیسے ہو۔ ہم کیسے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ قرآن کے ساتھ ہمارا وہ تعلق قائم ہوگیا ہے جس کا حکم اللہ اور رسول نے دیا ہے اور یوں ہماری ساری زندگی قرآن کے مطابق ہو اور ہم قرآن سے باہر نہ ہوں تاکہ ہمیں قرآن کے نزول کا مقصد ہدایت عظمیٰ حاصل ہوجائے۔اس کے لیے لازمی ہے کہ رسول کی اطاعت اور اتباع کی جائے۔قرآن مجید میں کہا گیا:”اگر تم ان کی (رسول کی) اطاعت کرو تو ہدایت پاجاؤ گے“۔(النور ۴۵)
گویا رسول کی اطاعت میں تمہارے لئے ہدایت کا سامان رکھ دیا گیا ہے۔ اس اطاعت کی عملی صورت یہ ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہی ہوئی ہر بات کو، ہر حدیث کو، ہر فرمان کو اپنا عمل بنالو،ان کی سنت کو سینے سے لگالو،ان کے ہر حکم پر گردنیں جھکادو،ان کی محبت میں اپنی ہر قیمتی چیز قربان کردو،ان کا حکم ماننے کو اللہ کا حکم ماننا سمجھو۔اس لئے کہ رسول اللہ کی اطاعت خود اللہ کی اطاعت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:”جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا“۔(النساء، ۰۸)اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ہدایت اس وقت تک میسر نہیں آسکتی جب تک ہم خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں ڈھال نہ لیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا پیکر مجسم نہ بن جائیں اور اطاعت رسول کو اپنا اوڑھنا بچھونا نہ بنالیں۔ گویا ہدایت عطاکئے جانے کی ضمانت اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔اس لیے کہ رسول انسانوں کو سیدھے راستے کی رہنمائی ہی کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
آئیے ہم نے بہت سے طریقے آزمالیے،بہت سے ازم دیکھ لیے،ہم نے اپنے دکھ کا مداوا کرنے کے لیے نہ معلوم کتنے آستانوں پر سر جھکالیے۔لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔اس لیے اب اس نسخہ ئ کیمیاکی طرف پلٹیے جس کو آپ نے جزدانوں میں بند کرکے اونچے طاق پر رکھ دیا ہے۔میری آپ سے دردمندانہ گزارش ہے کہ آپ کو قرآن مجید کا جو ترجمہ پسند ہو،جس زبان میں آسانی ہو اسے پڑھ لیجیے،قرآن کی ہر آیت کو یہ سمجھ کر پڑھیے کہ یہ میرے لیے ہے۔پڑھتے وقت تمام عصبیتوں کو بالائے طاق رکھ دیجیے،آپ کو اپنے ہر غم کا علاج مل جائے گا۔
مضمون نگارماہنامہ اچھا ساتھی کے مدیرملت اکیڈمی بجنور کے چیرمین ہیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ۔
جواب دیں