روزہ انسانی تربیت کا مؤثر ترین ذریعہ

عام دنوں میں یہ نماز کی چند رکعتیں بھی پڑھنے سے جان چراتا تھا،اب ہم اسے فرض کے ساتھ واجب و سنتوں کے ساتھ نماز تراویح کی مزید بیس رکعتیں بھی پڑھوائیں گے۔ اور عام دنوں کی طرح ہر رکعت میں من چاہی چھوٹی چھوٹی سورتیں نہیں بلکہ قرآن مجید کے پورے پورے رکوع، سورتیں ، پورے کے پورے پارے خاموشی کے ساتھ ہاتھ باندھے کھڑے ہوکر سنتے رہیں گے۔ غرض ہمارے صبح و شام کی مصروفیتوں کا رنگ بدل جائے گا، سوچوں کے دھارے ،افکارو نظریات کے زاویے یکایک مذہبی ہوجائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ!
۲ ؁ھ میں روزہ کی فرضیت ہوئی ۔ روزے کی فرضیت قرآن پاک سے ثابت ہے۔ یٰا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُو کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنْ(ترجمہ: اے ایمان والو!فرض کیے گئے ہیں تم پر روزے جیسے فرض کیے گئے تھے ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔ القرآن ، البقرہ۱۸۳)
روزے کو عربی میں صوم کہتے ہیں ۔ شرع میں صوم کے معنی صبح صادق سے غروب آفتاب تک نیت کے ساتھ خالص اللہ کے لئے کھانے پینے اور دیگر ممنوعات شرعیہ سے رکنے کے ہیں۔ رمضان المبارک خدائے تعالیٰ کا مہینہ ہے،یہ تمام مہینوں سے افضل ہے ۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کا دروازہ بند کر دیا جاتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں :جب رمضان آتا ہے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں ۔ اور امام احمد و ترمذی و ابن ماجہ کی روایت میں آیا ہے ،جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جن قید کرلئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔صحیحین ، سنن و ترمذی، نسائی ،ابن خزیمہ میں سہل بن سعدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جنت کے آٹھ دروازے ہیں ان میں ایک دروازہ کا نام ریّان ہے اس دروازے سے وہی جائیں گے جو روزہ رکھتے ہیں۔(بہار شریعت جلد ۵، صفحہ ۷۶۔۷۷)
رحمتوں و برکتوں والا مہینہ رمضان المبارک:
شیخ محقق حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں :اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان المبارک کی برکت سے اللہ بندوں میں نیکی کی رغبت ہوجاتی ہے اور اعمال صالحہ ہوں گے تو خود بخود شیاطین بندھ جائیں گے اور برائی کم ہوگی تو خود بخودجہنم کا دروازہ بندہوجائے گا اور جنت کا دروازہ کھل جائے گا۔ رمضان المبارک خدائی رحمتوں اور عنایتوں کا خاص مہینہ ہے ، اس کا بنیادی عمل روزہ ہے جو ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے مگر جو بیمار ہیں یا سفر میں ہیں یا جن کو کوئی شرعی عذر لاحق ہے، ان کو مہلت دی گئی ہے۔تفصیل کے لئے فقہ کی کتابیں (قانونِ شریعت، بہار شریعت جلد ۵ کا مطالعہ فرمائیں)۔
رمضان المبارک آخرت کی کمائی اور نیکیوں کی ذخیرہ اندوزی (Stock) کرنے کا خاص مہینہ ہے۔ رمضان اتنا پیارا مہینہ ہے جس کے استقبال کے لئے آسمان پر تیاریاں ہوتی ہیں اور جنت روزہ داروں کے لئے سجائی جاتی ہے۔ اس ماہ مبارک کے بے شمار فضائل ہیں۔ اس ماہِ مبارک میں قرآن مجید لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا۔ اسی مہینے میں لیلۃ القدر ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں سے افضل ہے ۔ہزار مہینے ۸۳ ؍سال ۴؍مہینے بنتے ہیں۔ عام طور پر ایک انسان کو اتنی عمر بھی نہیں ملتی ۔ یہ امتِ مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے اتنی فضیلتوں والی رات عطا کی۔ رمضان میں اللہ تعالیٰ ہر رات میں اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی عطا فرماتا ہے۔ اس ماہ میں عمرہ کرنے سے حج کے برابر ثواب ملتا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ اس مہینے میں مومن کے رزق میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں روزہ رکھنے سے تزکیہ نفس ہوتاہے۔
روزہ امنِ عام:
جو شخص روزہ سے ہو تو جنسی باتیں نہ کرے (حدیث، بخاری جلد اول ، صفحہ ۲۵۵) ۔ اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کا منشا انسانی اخلاق کی اعلیٰ تربیت (Training) ہے اور اس کا مقصد انسانی معاشرہ میں امن کا قیام ہے۔ روزہ دار کو حقیقت میں اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا ہے۔ شہوت و غضب (غصہ ) کو اپنے قابو میں رکھے تاکہ معاشرہ میں امن و سکون قائم رہے اور روزہ کا مقصد بھی یہی ہے کہ انسان صبر کا پیکر بن جائے۔صبر یہ ہے کہ بدلے کی طاقت کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے لوگوں کی تکلیفوں کو برداشت کیا جائے اور ان کی جفاؤں کو سہا جائے ۔ حدیث پاک میں آیا ہے کہ جو شخص برا بھلا کہنے کی قدرت کے باوجود غصے کو پی جاتا ہے (یعنی صبر کرتا ہے) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو تمام مخلوق کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ وہ حوروں میں جس کو چاہے خود لے لے۔
روزہ کے طبّی فوائد:
روزہ صرف گناہوں سے بچنے کا ہی طریقہ نہیں ہے بلکہ بدن میں ہونے والی بیماریوں سے بچنے کا طریقہ بھی ہے۔ حکیم جالینوس نے مریضوں کو بھوک کم لگنے کی شکایت پرا نہیں حکم دیا کہ جب تک زور کی بھوک نہ لگے اور خوب کھانے کی خواہش نہ ہو کھانا نہ کھائیں۔ ان مریضوں نے ایسا ہی کیا ۔ حیرت انگیز طور پر ان کی بھوک پلٹ آئی۔سچی بات تو یہ ہے کہ زیادہ تر بیمار یا ں زیادہ کھانے، دیر ہضم ، بادی غذاؤں کا ہمیشہ استعمال کرنا ، کھانا پیٹ بھر کر بلکہ جی بھر کھانا بدن میں زہریلے مادے پیدا کرتا ہے، کچڑا اور تیزابیت پیدا کرتا ہے ۔ ان سب غیر ضروری چیزوں کو طبِ یونانی میں اختلاط فاسدہ کہتے ہیں۔اور اختلاطِ فاسدہ ہی بیماریوں کی جڑ ہے اور اختلاطِ فاسدہ کو بدن سے نکالنا بیماریوں کا علاج ہے اور روزہ (جو کہ عبادتِ الٰہی بھی ہے) اس کا بہتر علاج ہے۔ ہم تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ رمضان کا استقبال و احترام کریں ، اس کی عظمت ، اس کی فضیلت اور اس کے سبھی مقصد اور اس کے پیغام کو اپنے ذہن و دل میں بسا لیں اور اس کی برکات و رحمت سے بھر پور فائدہ اٹھائیں اور اس بات کا مضبوط ارادہ کریں کہ ہم اس ماہِ مبارک میں اپنے اندر صبر و تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو روزہ کا مقصد اور نچوڑ ہے ۔ جو لوگ حرام کا ارتکاب کرکے اللہ کی غیرت کو چیلنج کررہے ہیں ، بدکاری، شراب نوشی،ناجائز کاروبار ، سودی لین دین جیسے گناہ میں ملوث ہیں وہ توبہ کریں اور عزم کریں وہ ان جرائم سے بالکل دور ہوجائیں گے اور پھر عمر بھر ان کے قریب نہ ہوں گے۔ اس ماہِ مبارک میں ہم اپنی زندگی، صحت اور جوانی کو غنیمت جا نیں ۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، قرآن کریم کی تلاوت کریں، پنج وقتہ نمازوں بالخصوص نماز فجر با جماعت اپنے اوپر لازم کر لیں۔ جن پر زکوٰۃ اورحج فرض ہے اور اس کی ادائیگی میں کوتاہی کر رہے ہیں وہ جلد توبہ کریں ، حج ادا کریں اور اللہ کے دیئے مال سے زکوٰۃ ادا کریں،غریبوں مسکینوں کا حق ادا کریں۔
روزہ کا اجر:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر نیک عمل جسے آدمی کرتا ہے ، اس کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک ہے مگر روزہ کا ثواب اس سے بھی زیادہ ہے۔ اس لئے کہ اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر میں خود دوں گا۔ آدمی خواہشِ نفس اور کھانا پینا میری وجہ سے چھوڑ دیتا ہے۔ اور روزہ ڈھال ہے ۔ روزہ دار کے لئے دو خوشی ہیں۔ ایک افطار کے وقت اور دوسری قیامت کے دن(بخاری،کتاب الصوم حدیث نمبر ۱۹۰۴،مسلم:الصیام حدیث نمبر ۱۱۵۱) ۔
اللہ سے دعا ہے کہ روزہ کی حقیقت کو ہم تمام مسلمان سمجھیں اور دل جمعی کے ساتھ عبادت کریں۔ اللہ ہم سب کو ہمت و قوت عطا فرمائے اور عمل کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ آمین !

«
»

اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

مودی کا اسرائیل دورہ ۔قومی مفاد میں یا نظریاتی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے