پورے ماہ مقدس کے روزے کوہم اہل ایمان پر رب العزت نے فرض کیاہے اوریہ اسلام کاتیسرارکن ہے۔مذہب اسلام کی اس اہم ترین عبادت کوسائنسدانوں نے انسانی صحت کیلئے اللہ کی عطا کردہ انمول نعمت قراردیاہے۔روزہ نہ صرف اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے بلکہ انسانی صحت کیلئے بھی مفید ہے۔ ہم اس سے اللہ تعالی کی بے پناہ رحمتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں ۔ ابھی کچھ عرصہ قبل تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ روزہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اس سے نظام ہضم کو آرام ملتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے علوم طب نے ترقی کی اس حقیقت کا بتدریج ادراک ہوتاگیا کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ بھی ہے۔ نظام ہضم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ اہم اعضاء جیسے کہ منہ اور جبڑے میں لعابی غدود ۔زبان اورگلے سے معدہ تک خوراک لے جانے والی نالی ،معدہ، بڑی آنت، جگر و لبلبہ یہ تمام اعضاء اس نظام کا حصہ ہیں۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا ارادہ کرتے ہیں۔ یہ سارانظام حرکت میں آجاتا ہے۔ چناچہ روزہ ایک طرح اس سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا آرام طاری کر دیتا ہے۔کھانا کھانے کا حیران کن اثربطور خاص جگر پر ہوتاہے، کیو نکہ جگر کھانا ہضم کرنے کے علاوہ دیگر عوامل سے تھکان کا شکار بھی ہو جاتاہے۔ اسی وجہ سے صفر صفر ا کی رطوبت جس کا اخراج ہاضمہ کیلئے ہوتا ہے،وہ مختلف قسم کے مسائل پیدا کر تاہے ۔ روزہ کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتاہے۔ اس لئے سائنسی نکتہ نظر سے اس کے آرام کا وقفہ ایک سال میں ایک ماہ تو لازمی ہونا چاہئے ۔ جگر پر روزہ کی برکات میں سے ایک وہ ہے جو خون کے کیمیائی عمل اثرات سے متعلق ہے جگر کے انتہائی مشکل کاموں کوآسان کردیتاہے۔
ذہن نشین رہے کہ اسلام دین فطرت ہے،جو ہرشعبۂ حیات میں راہِ اعتدال کی تعلیم دیتا ہے۔ آج مغرب میں بھی خوردونوش میں زیادتی کوناپسند کیا جاتا ہے اور اسے صحتِ انسانی کے لیے مضر گردانا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنے محبوب نبی محمدرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ وحی نازل فرمائی:
اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو، بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔(اعراف31:7)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے میں اسراف سے منع فرمایا ہے۔حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایاک:کھاؤ، پیو اور پہنو اور خیرات کرو بغیر فضول خرچی اور تکبر کے۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب 4540، پہلی حدیث)
ڈاکٹر محمد عثمان نجاتی لکھتے ہیں کہ کھانے میں اسراف صحت کے لیے مضر ہے اور بسیار خوری کی وجہ سے جسم موٹا ہوجاتا ہے ،جس سے بہت سے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کو کھانے کی صرف تھوڑی مقدار کی ضرورت ہے، جو انسانی جسم میں اتنی توانائی پیدا کرسکے جتنی توانائی انسانی زندگی کے لیے ضروری ہے اور جس سے اس کی صحت اچھی رہ سکے اور وہ اپنی روز مرہ کی ذمہ داریاں پوری کرسکے۔ انسانی جسم کو جتنے کھانے کی ضرورت ہے، اس سے زائد جسم میں داخل ہونے والا کھانا چربی بن جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کا وزن بڑھ جاتاہے، اس کی رفتار سْست ہوجاتی ہے اور انسان بہت جلد درماندگی اور تکان کا احساس کرنے لگتا ہے، نیز انسانی جسم بہت سے امراض کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کھانے میں اسراف سے قرآن و سنت نے جو ممانعت کی ہے، اس کے پیچھے کیا حکمت کارفرما ہے۔(حدیث نبویؐ اور علم النفس، ڈاکٹر محمد عثمانی نجاتی، ص 51)
بسیارخوری سے انسان کو لاحق ہونے والی مضرت تمام طریقہ ہاے علاج میں مسلّم ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے ہیں تاکہ گیارہ ماہ کے دوران خوردونوش کی بے احتیاطی کے مضر اثرات کا ازالہ ہوسکے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ جل شانہ نے روزے رکھنے کا حکم ان الفاظ میں دیا ہے:
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان لوگوں پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ (البقرہ 183:2)
قرآن کریم نے بیمار اور مسافر کے لیے روزے مؤخر کرنے اور جو روزے نہ رکھ سکیں، ان کے لیے فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد روزے کی حکمت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
اور تمہارے لیے روزہ رکھنا ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔(البقرہ 184:2)
دراصل یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم حیاتیاتی علم کو سمجھو تو تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ تم روزے رکھو۔ کیونکہ روزہ اپنے اندر بے شمار روحانی، نفسیاتی اور طبی فوائد رکھتاہے۔ روزے کی طبی افادیت کی طرف نہایت مختصر مگر بلیغ اشارہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمایا:’’روزے رکھو، تندرست ہوجاؤ گے‘‘۔(مجمع الزوائد، ج 5، ص 344، کنزالعمال، رقم الحدیث23504)
حکیم محمد سعید مرحوم لکھتے ہیں: ’’روزہ جسم میں پہلے سے موجود امراض و آلام کا علاج بھی ہے اور حفظ ماتقدم کی ایک تدبیر بھی۔ روزہ رکھنے والا صرف بیماریوں سے ہی نجات نہیں پاتا بلکہ ان کے لاحق ہونے کے ممکنہ خطرات سے بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کا طبی سبب یہ ہے کہ روزے سے قوتِ مدافعت بڑھ جاتی ہے‘‘۔(حکیم محمد سعید، عرفانستان، کراچی ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، ص175)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’ہرشے کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے‘‘۔
اس حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح زکوٰۃ مال کو پاک کردیتی ہے، اسی طرح روزہ جسم کی زکوٰۃہے اور اس کے ادا کرنے سے جسم تمام بیماریوں سے پاک ہوجاتا ہے، بلکہ کذب، غیبت، حسد اور بْغض جیسی باطنی بیماریوں سے بھی نجات مل جاتی ہے۔
حافظ ابن قیم کے مطابق روزے کا شمار روحانی اور طبعی دواؤں میں کیا جاتا ہے۔ اگر روزہ دار ان چیزوں کو ملحوظ رکھے جن کا طبعی اور شرعی طور پر رکھنا ضروری ہے تو اس سے دل اور بدن کو بے حد نفع پہنچے گا۔(محمد کمال الدین حسین ہمدانی، ڈاکٹر حکیم سید، اسلامی اصولِ صحت، علی گڑھ: حی علی الفلاح سوسائٹی، اشاعت اول1405ھ/1985ء، ص42)
گویا روزہ ہمیں صحت مند رکھنے، ہمارے امراض کو دفع کرنے اور مختلف بیماریوں کے خلاف ہماری قوتِ مدافعت بڑھانے میں انتہائی ممدومعاون ہے۔ آیندہ سطور میں روزے کی طبی افادیت کا تفصیلاً جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔اس روزے سے ہم بہت کچھ پاتے ہیں۔ سب سے بڑی چیز اس سے یہ حاصل ہوتی ہے کہ ہماری روح خواہشوں کے زور سے نکل کر علم و عقل کی ان بلندیوں کی طرف پرواز کے قابل ہو جاتی ہے، جہاں آدمی دنیا کی مادی چیزوں سے برتر اپنے رب کی بادشاہی میں جیتا ہے۔
اس مقصد کے لیے روزہ ان سب چیزوں پر پابندی لگاتا ہے جن سے خواہشیں بڑھتی ہیں اور لذتوں کی طرف میلان میں اضافہ ہوتا ہے۔ بندہ جب یہ پابندی جھیلتا ہے تو اس کے نتیجے میں زہد و فقیری کی جو حالت اس پر طاری ہو جاتی ہے، اس سے وہ دنیا سے ٹوٹتا اور اپنے رب سے جڑتا ہے۔ روزے کا یہی پہلو ہے جس کی بنا پر اللہ نے فرمایا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا بھی میں اپنے ہاتھ سے دوں گا، اور فرمایا کہ روزے دار کے منہ کی بو مجھے مشک کی خوش بو سے زیادہ پسند ہے۔اللہ رب العزت سے دعاء ہے کہ وہ ہمیںآنے والے ماہ مقدس کواس کی ہدایات اوراحکامات کے مطابق گزارنے اوررمضان کے تمام روزے رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔
جواب دیں