عبد العزیز
رمضان المبارک کے مہینے سے پہلے شعبان المعظم کا مہینہ آتا ہے اس وقت شعبان کا مہینہ ختم ہونے میں چند دن باقی رہ گئے ہیں۔ آنحضرت ﷺ رمضان کے آنے سے پہلے رمضان کی تیاری شروع کردیتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو روزے کی اہمیت وافادیت بیان فرماتے اور اس کی حقیقت واضح کرتے۔
”حضرت سلمان فارسی ؓ کہتے ہیں کہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک بڑی عظمت والا بابرکت مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے۔ اس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں (خدا کی بارگاہ میں) کھڑا ہونے کو نفل مقرر کیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں کوئی نیک نفل کام الہ کی رضا اور قرب حاصل کرنے کیلئے کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے اس مہینے کے سوا دوسرے مہینے میں کسی نے فرض ادا کیا ہو اور جو اس مہینہ میں فرض ادا کرے گا وہ ایسا ہوگا جیسے اس مہینے میں کسی نے ستر فرض ادا کئے اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ ہمدری غمخواری کا مہینہ ہے اور وہ مہینہ ہے جس میں ایمان والوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس کسی نے اس میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اس کیلئے گناہوں کی مغفرت اور (جہنم کی) آگ سے آزادی کا سبب ہوگا اور اسے اس روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔“
آپ ؐسے عرض کیا گیا: یارسول اللہؐ! ہم میں ہر ایک کو سامان میسر نہیں ہوتا۔ جس سے وہ روزہ دار کو افطار کراسکے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرمائے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی یا کھجور پر یا پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کو افطار کرادے اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلادے اللہ اسے میری حوض سے ایسا سیراب کرے گا کہ اس کو پیاس ہی نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ یہ (رمضان) وہ مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری (دوزخ کی) آگ سے آزادی ہے اور جو شخص اس مہینہ میں اپنے مملوک (غلام یا خادم) کے کام میں تخفیف کردے گا۔ اللہ اس کی مغفرت فرمادے گا اور اسے (دوزخ کی) آگ سے آزادی دے دیگا۔(بیہقی فی شعب الایمان)
اس حدیث کو پڑھنے سے روزے اور رمضان کی اہمیت سے آگاہی ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رمضان کے روزے سے متعلق صرف ایک مقام پر یعنی سورہ بقرہ میں بیان کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ رمضان کے روزے کی اہمیت اتنی زیادہ کیوں ہے؟
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیرووں پر فرض کئے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ چند مقرر دنوں کے روزے ہیں۔ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔ اور جولوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے، تویہ اسی کیلئے بہتر ہے۔لیکن اگر تم سمجھو، تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو۔
رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کیلئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لئے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔“(سورہئ بقرہ: آیت:183-185)
اللہ تعالیٰ کے فرمان میں بتایا گیا ہے کہ روزہ اس لئے فرض کیا گیا ہے کہ بندے کے اندر تقویٰ اور پرہیز گاری کی صفت پیدا ہوجائے یعنی وہ گناہوں سے بچ سکے اور نیکیوں کی ادائیگی ذوق اور شوق سے کرے۔ روزے کی روح یا ہر عبادت کی روح تقویٰ ہے۔ تقویٰ انسان کو بریک لگاتا ہے، اسے قابو میں رکھتا ہے، اس کی غلط خواہشوں پر روک لگاتا ہے، خواہش نفس سے بچاتا ہے۔ اگر کسی مسلمان میں نفس پرستی ہے تو خدا پرستی اس کے اندر اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے نفس پرستی سے باز آئے۔ نفس یا خواہشوں کو کنٹرول میں کرنے کیلئے روزہ رکھنے کیلئے کہا گیا ہے۔ اگر کوئی رمضان کے آنے سے پہلے ان چیزوں سے واقف نہیں ہے اور رمضان کے پورے مہینے میں بھی اسے روزے کی حقیقت سے واقفیت نہیں ہوتی اور روزے کی شرائط کے مطابق روزہ نہیں رکھتا تو اس کے پلے بھوک و پیاس کے سوا کچھ نہیں پڑتا۔ مثلاً کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے یا جھوٹ پر قائم رہتا ہے اور اسے چھوڑنا نہیں چاہتا اور روزہ بھی رکھنا چاہتا ہے اور روزے کے دوران بھی اور روزے کے بعد بھی اپنے اس عمل پر قائم و دائم رہتا ہے تو روزہ کا کوئی اثر اس کے دل و دماغ نہیں پڑ تا۔ روزے کی اہمیت بتاتے ہوئے بہت سی حدیثوں میں کہا گیا ہے کہ روزہ صرف بھوک و پیاس سے یا جنسی عمل سے باز نام نہیں ہے بلکہ آنکھ، ہاتھ، پاؤں اور کان کے بھی روزے کا ذکر کیا گیا ہے۔ حلال، حرام کی حقیقت کے سلسلے میں بتایا گیا ہے کہ کوئی عبادت، کوئی دعا اللہ کی بارگاہ مین قابل قبول نہیں ہوگی اگر کسی شخص کی پرورش حرام مال یا حرام کمائی سے ہورہی ہو۔
خوش قسمتی سے مسلمانوں میں روزہ رکھنے کا جذبہ تو بہت پایا جاتا ہے لیکن بد قسمتی سے روزے سے فائدہ حاصل کرنے کی اور اپنی زندگی، اپنے گھر بار اور اپنے محلے کو بدلنے کی خواہش نہیں ہوتی۔ اس موسم بہار میں عام طور صوم و صلوٰۃ، تلاوت قرآن، قیام اللیل، اعتکاف اور انفاق فی سبیل اللہ جیسی عبادات کا اہتمام روٹین کی عبادات کے طور پر کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلم معاشرہ پر اس ماہ مبارک کے خوشگوار اثرات مرتب نہیں ہوپاتے۔ اگر انہی امور دین کو کامل شعور، جذبہ اخلاص اور سنت رسولؐ کے مطابق ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ ایک مہینہ ہی آدمی کی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کیلئے کافی ہے۔ شعوری طور پر کی جانے والی عبادات کے نتیجے میں ذہن و فکر بدلتا ہے، اخلاق و اعمال بدلتے ہیں، پسند اور ناپسند کے رجحانات بدل جاتے ہیں اور فی الجملہ پوری زندگی میں اسلامی رنگ نمایاں ہوتا جاتا ہے۔ روزے کے ذکر سے پہلے جان و مال کے سلسلے میں جو حکم دیا گیا ہے اس میں بھی یہ بتایا گیا ہے کُتِبَ عَلَیْکُمْ یعنی تم پر فرض کیا گیا۔
”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تمہارے لئے قتل کے مقدمے میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے“(سورہ بقرہ)
اور کہا گیا ہے: وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰ ٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ m
”عقل و خرد رکھنے والو! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔“ (سورہ بقرہ: 179)
مال کے سلسلے میں کہا گیا ہے:
”مسلمانو! یہ بات بھی تم پر فرض کردی گئی ہے کہ جب تم میں سے کوئی آدمی محسوس کرے کہ اس کے مرنے کی گھڑی آگئی اور وہ اپنے بعد مال و متاع میں سے کچھ چھوڑ جانے والا ہو، تو چاہئے کہ اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کیلئے اچھی وصیت کرجائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔“(سورہ بقرہ: 180)
روزے کے بیان کے ختم ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر مال کے بارے میں جو ذکر کیا ہے وہ انتہائی غور وفکر کے لائق ہے۔
”اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال نارواطریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کیلئے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔ (سورہئ بقرہ: 188)“
مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
”اس حقیقت کی طرف اشارہ کہ مشقتِ نفس کی عبادتیں کچھ سود مند نہیں ہوسکتیں اگر ایک شخص بندوں کے حقوق سے بے پروا ہے اور مال حرام سے اپنے آپ کو نہیں روک سکتا۔ نیکی صرف اسی میں نہیں ہے کہ چند دنوں کیلئے تم نے جائز غذا ترک کردی نیکی کی راہ یہ ہے کہ ہمیشہ کیلئے ناجائز ترک کردو۔“
روزے سے پہلے، روزے کے بعد جو باتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں جس کا تذکرہ مضمون نگار نے اوپر کیا ہے اس کو اگر غور سے دیکھا جائے تو روزے کی مقصدیت پورے طور پر واضح ہو جائیگی۔ ایک طرف جان کی حرمت کے بارے میں بیان کیا گیا ہے، دوسری طرف مال کی حرمت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی انسان کی جان، اس کی آبرو، اس کی عزت کا خیال نہیں کرتا اور ناروا طریقہ سے دوسروں کا مال ہڑپ کرتا ہے تو اس کی ساری عبادتیں خاک میں مل جاتی ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے کہ روزے دار جس سے ناواقف ہوتا ہے اور اگر واقف بھی ہوتا ہے تو اس کا خیال نہیں کرتا اور روزے داروں کی اکثریت کچھ ایسی ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہ رمضان آتے ہی مسجدیں بھر جاتی ہیں اور رمضان جاتے ہی خالی ہوجاتی ہیں۔ بھر اس لئے جاتی ہیں کہ ظاہری طور پر لوگ عبادت کے قائل ہیں لیکن ان کا باطن بدل جائے، ان کی فکر بدل جائے، ان کا رجحان بدل جائے، جھوٹ بولنا بند کردیں، وعدہ خلافی سے باز آجائیں، اپنے سے بڑوں کے ساتھ گستاخی اور بے ادبی سے پیش نہ آئیں، چھوٹوں سے بے رحمی کارویہ نہ اپنائیں، ماں باپ کے حقوق بلکہ رشتہ داروں، عزیزوں، پڑوسیوں کی حق تلفی نہ کریں۔ یہ چیزیں ایسے روزے داروں کے پلے نہیں پڑتیں جو محض بھوک پیاس اور جنسی عمل سے اپنے آپ کو باز رکھتے ہیں اور باقی سب کام دھرلے سے بغیر کسی روک ٹوک کے کرتے رہتے ہیں۔
اوپر جو سطریں لکھی گئی ہیں مضمون نگار چاہتا ہے کہ ہر دینی جماعت اپنے حلقہئ اثر کے لوگوں میں روزے کی اس حقیقت سے واقف کرائیں کہ رمضان کا روزہ رکھنے کی کیا غرض و غایت ہوتی ہے اور رمضان میں روزے کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟ رمضان ہی میں قرآن نازل ہوا ہے یعنی اسلام کا احکامات، ہدایات اور قوانین نازل ہوئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سارے قوانین،احکامات کی پابندی کی جائے محض رات کے وقت تلاوت کرکے یہ نہ سمجھا جائے کہ قرآن مجید کی تلاوت کا یا سننے کا حق ادا ہوگیا۔ ایک قرآن، دو قرآن، تین قرآ ن پڑھ کر ثواب لوٹ لیا گیا۔ اگر قرآن اسی کیلئے نازل ہواہوتا تو پھر وہ ہدایتیں جو چوروں کا ہاتھ کاٹنے کیلئے، زانی کو سنگسار کرنے کیلئے، جھوٹ بولنے والوں پر لعنت بھیجنے کیلئے، ناحق جان لینے والوں کیلئے، سزائے موت یا سنگسار کرنے کی بات کیوں کہی گئی ہوتی؟تلاوت کرتے وقت امام کو اور مقتدی کو دونوں کو یہ باتیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے، اس میں وہ باتیں ہیں جو انسانی زندگی کو بدلنے کیلئے آئی ہیں، جو معاشرے میں تبدیلی لانے کیلئے آئی ہیں، جو ہر طرح کے کرپشن اور ہر طرح کی برائی، ہر طرح کی گندگی اور غیر پاکیزگی کو دور کرنے کیلئے آئی ہے۔ اگر ہم نہاکر بھی گندے رہیں، ہم کھا کر بھوکے رہیں، تو پھر نہانا کیسااور پھر کھانا کیسا؟
جواب دیں