رام،رامائن، دسہرہ اور ہند۔اسلامی تہذیب کے نقوش

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
    
     رامائن دنیا کی قدیم ترین کتابوں میں سے ایک ہے جس میں اجودھیا کے راجہ شری رام چندر اور لنکا کے راجہ راون کے درمیان جنگ کی داستان بیان کی گئی ہے اور اس کہانی کے پہلو میں بہت کچھ سبق بھی پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب کتنی پرانی ہے کوئی نہیں جانتا۔ مانا جاتا ہے کہ اسے بالمیکی نے تحریر کیا تھا اور اس کی اصل زبان سنسکرت تھی جو قدیم ہندوستان میں اہل علم کی زبان تھی۔ چونکہ اس زمانے میں لکھنے پڑھنے کی ذمہ داری صرف برہمنوں کی تھی لہٰذا علم کی باتیں بھی ان تک محدود رہیں مگر رامائن ایک ایسی داستان تھی جو برصغیر میں بچے بچے کی زبان پر تھی اور اس داستان کے ہیرواجودھیا کے راجہ رام چندر اور ان کی بیوی سیتا کی پوجا کرنے والے پورے ملک میں پھیلے ہوئے تھے اور آج بھی ہیں۔یہ کہانی اس قدر عام رہی ہے کہ ہر سال رام لیلا کے عنوان سے اسے اسٹیج کیا جاتا رہا ہے اور تمام چھوٹے بڑے اسے دلچسپی سے دیکھتے رہے ہیں۔مزے کی بات ہے کہ یہ داستان صرف بھارت کی سرحد تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ اندونیشا اور ملیشیا جیسے ملکوں میں بھی یہ نسل در نسل چلی آرہی ہے۔ وہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ راجہ رام چندر انھیں کے ملک کے باشندہ تھے۔ رامائن کی مقبولیت اس قدر عام ہوئی کہ جدید دور میں اس پر فلمیں بنائی گئیں اور سیریل بنے۔ ان فلموں اور ٹی وی سریلوں کو بھی خوب مقبولیت حاصل ہوئی اورٹی آر پی کا یہ عالم تھا کہ جس وقت ان کی ٹیلی کاسٹ ہوتی تھی اس وقت پورے ملک کی رفتار ٹھہرجاتی تھی اور لوگ اپنے تمام کام دھندے چھوڑ کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔  رامائن، ہندووں کی مذہبی کتاب کے طور پر اپنی پہچان رکھتی ہے مگر اسے عام کرنے اور عوام تک پہنچانے میں مسلمانوں کا یوگدان بھی کم نہیں رہا ہے۔یہ جب تک سنسکرت میں تھی تب تک اس تک صرف خواص کی رسائی تھی مگر جب اسے فارسی اور اودھی میں ڈھالا گیا تو سب لوگوں کی دسترس میں آگئی۔ہندوستان میں مسلم عہد حکومت کو کئی لحاظ سے اہم جانا جاتا ہے اور اس دور میں کئی بڑے علمی کام ہوئے جن میں سنسکرت کتابوں کے ترجمے بھی شامل ہیں۔ مغل حکمراں جلال الدین محمد اکبر نے کئی سنسکرت کتابوں کے فارسی میں تراجم کرائے او ر وہ کتابیں جو پہلے صرف پنڈتوں تک محدود تھیں، ان کی رسائی پڑھے لکھے عوام تک ہونے لگی۔ رامائن ابتدائی طور پر سنسکرت میں لکھی گئی تھی اور اسے بالمیکی جی نے لکھا تھا۔ عہد اکبری تک اس کاترجمہ کسی بھی عوامی زبان میں نہیں ہوا تھا مگر سب سے پہلے تلسی داس نے اسے اودھی میں منتقل کیا اور اس کے بعد اکبر کے حکم سے اس عہد کے معروف مورخ اور عالم ملا عبدالقادر بدایونی نے اسے فارسی زبان میں ڈھالا۔ اس کے اخراجات سرکار کی طرف سے ادا کئے گئے تھے اور اس کی آرائش وزیبائش کے لئے پینٹنگس بنائی گئیں۔ ممکن ہے اکبر کی اس کاوش کے پیچھے سیاسی مفاد بھی پوشیدہ ہو مگر یہ بڑا کام تھا اور اس کی جانب توجہ کرکے اکبر نے آنے والی نسلوں پر احسان کیا تھا۔ تاریخ میں پہلی بار رامائن کا ترجمہ ہوا تھا اور اس کے بعد بہت سے تراجم ہوتے رہے۔ اب تک دنیا کی بیشتر زبانوں میں رامائن کے ترجمے ہوچکے ہیں اور ساری دنیا میں ترجموں کی مدد سے اس کتاب کو پڑھا اور سمجھا جارہا ہے۔ ممکن ہے کچھ قدیم ترجمے وقت اور حالات کی دستبرد سے محفوظ نہ رہے ہوں مگر جو محفوظ ہیں ان میں صرف فارسی کے 23تراجم دستیاب ہیں اور ان کی کاپیاں کسی نہ کسی لائبریری میں مل جائیں گی۔ اصل میں مسلم عہد حکومت اس لحاظ سے خاص تھا کہ اس دور میں قدیم علمی ورثوں اور پرانے تہذیبی عناصر کو محفوظ کرنے کی کوشش ہوئی۔ اس دور کے علمی اور تہذیبی کاموں کا ثبوت وہ علمی وفنی نگارشات ہیں جو آج بھی ساری دنیا کے میوزیموں میں نمائش کے لئے موجود ہیں اور لائبریریوں کی زینت ہیں۔دلی کے نیشنل میوزیم سے لے کر لندن کے برٹش میوزیم تک اور پٹنہ کی خدا بخش اورینٹل لائبریری سے لے کر امریکہ کی عظیم لائبریریوں تک میں اس قسم کے نادر نمونے مل سکتے ہیں۔عہد اکبری میں رامائن کے کئی ترجمے ہوئے تھے، جن میں سب سے نمایاں ملاعبدالقادربدایونی کا ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ992ھ (1584ء) میں شروع ہوا تھا اور چار سال کی طویل محنت کے بعد مکمل ہوا۔اکبر کے درباری عالم ابوالفضل نے لکھا ہے کہ بادشاہ کے حکم سے یہ کام کیا گیا۔   
رامائن کے فارسی تراجم
    اس وقت ہندی، اردو، انگلش اور تمام ہندوستانی زبانوں میں رامائن کے ترجمے موجود ہیں مگر سب سے قدیم سنسکرت نسخے کی ہوبہونقل وہی نسخہ ہے جسے بدایونی نے فارسی کا جامہ پہنایا تھا۔رامائن کا ایک قدیم نسخہ عبدالرحیم خان خاناں کا ہے۔یہ اب بھی  Freer Art Gallery

«
»

عدم مساوات کی بڑھتی خلیج کو کیسے پاٹاجائے؟

ماہ محرم الحرام فضیلت و اہمیت اور اس میں رونما ہونے والے واقعات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے