ریڈیو اور ٹی وی چینلوں نے اردو زبان کی واٹ لگادی

متحدہ عرب امارات سے عزیربلوچ کی  حوالگی کے لیے قانونی کارروائی کی جا رہی ہے، حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اہم اقدام  اٹھانے  کا فیصلہ کر لیا ہے، الیکشن کمیشن نے سینیٹ الیکشن بارے  سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا..عوام ٹی وی چینلوں پر اعتبار کرتے ہیں۔ وہ ان کی خبروں کو درست جانتے ہیں۔ اس لیے جب وہ سکرین پر غلط زبان کے ٹِکر دیکھتے ہیں یا اینکر کو غلط زبان بولتے ہوئے سنتے ہیں تو اسے ٹھیک سمجھتے ہیں اور یوں ذرائع ابلاغ زبان بگاڑنے کا سبب بن رہے ہیں۔شکیل عادل زادہ
یہ ہے وہ زبان، جو آج کل برقی ذرائع ابلاغ سے سننے کو ملتی ہے۔ لیکن کیا اس سے عوام کے بول چال پر کوئی فرق پڑتا ہے؟
ادبی پرچے دنیا زاد کے مدیر آصف فرخی ایک نجی یونیورسٹی میں زبان کے استاد بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹی وی چینل اپنے ایکویپمنٹ کی دیکھ بھال کرتے ہی ہوں گے۔ زبان کا معاملہ بھی ایسا ہے۔ اسے بھی مینٹیننس کی ضرورت ہوتی ہے۔ سکرین پر آنے والوں کو خود بھی، اور ان کے اداروں کو بھی زبان کو درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔لیکن آصف فرخی یہ نہیں مانتے کہ میڈیا عوام کی زبان خراب کر رہا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ہم وہی زبان بولتے ہیں جو گھر میں سنتے ہیں۔ ٹی وی اینکر سے کوئی کیوں زبان سیکھے گا؟
صاحبِ طرز قلم کار اور زبان داں شکیل عادل زادہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام ٹی وی چینلوں پر اعتبار کرتے ہیں۔ وہ ان کی خبروں کو درست جانتے ہیں۔ اس لیے جب وہ سکرین پر غلط زبان کے ٹِکر دیکھتے ہیں یا اینکر کو غلط زبان بولتے ہوئے سنتے ہیں تو اسے ٹھیک سمجھتے ہیں اور یوں ذرائع ابلاغ زبان بگاڑنے کا سبب بن رہے ہیں۔
شکیل عادل زادہ خود ایک ٹی وی چینل کی زبان درست کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہ کوششیں زیادہ بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ انھوں نے یہ بیان کی کہ زبان کی درستی میڈیا اداروں کی ترجیحات میں کہیں بھی نہیں۔
ٹی وی چینل اپنے ایکویپمنٹ کی دیکھ بھال کرتے ہی ہوں گے۔ زبان کا معاملہ بھی ایسا ہے۔ اسے بھی مینٹیننس کی ضرورت ہوتی ہے۔ سکرین پر آنے والوں کو خود بھی، اور ان کے اداروں کو بھی زبان کو درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔آصف فرخی
انھوں نے کہا کہ پسماندہ طبقے کو اچھی بری زبان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن جو لوگ اچھے کپڑے پہنتے ہیں، اچھی تعلیم حاصل کرتے ہیں، اچھے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں، انھیں اچھی زبان بولنی چاہیے۔ ریڈیو اور ٹی وی کے میزبان ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کا حجم اس میں سرمایہ لگانے والوں اور اس میں کام کرنے والوں کی توقعات سے زیادہ تیزی سے بڑھا ہے۔پیشہ ور اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی کے باعث بہت سے ایسے لوگ میڈیا سے وابستہ ہوگئے جن کا تعلق پڑھنے لکھنے سے نہیں۔ کیمبرج سکولوں سے پڑھے ہوئے بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی اس طرف آئے ہیں۔ ان میں سے بیش تر نے اردو اس طرح پڑھی ہے جیسے 95 فیصد پاکستانیوں نے انگریزی۔نجی ٹی وی کی اینکر ماریہ میمن نے بھی انگریزی سکولوں میں تعلیم حاصل کی اور میں نے ان کے ہاتھ میں اکثر انگریزی ناول ہی دیکھے ہیں لیکن بہت جلد انھوں نے خود کو اردو ذرائع ابلاغ سے ہم آہنگ کر لیا۔ماریہ نے ایک بار بتایا کہ ان کی نانی اماں بچوں سے اخبار پڑھوا کر سنا کرتی تھیں۔ بڑے بچے بھاگ جاتے تھے اور وہ پکڑی جاتی تھیں۔ اس طرح انھیں خبریں پڑھنی آ گئیں۔ آج وہ یاد کرتی ہیں کہ کون کون سے مشکل الفاظ کے مطلب نانی اماں نے بتائے اور کون کون سے تلفظ ٹھیک کروائے۔کیا آج کل کی نانی اماں اور دادی اماں کچھ پڑھتی لکھتی ہیں یا ٹی وی پر میرا سلطان اور سوئنگ کا سلطان ہی دیکھتی ہیں

«
»

سعودی عرب میں مسجد توڑی جاسکتی ہے تو بھارت میں کیوں نہیں؟ سبرامنیم سوامی

کیامصرکا فوجی ڈکٹیٹرالسیسی اسرائیل اور روس کا ایجنٹ ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے