یہی وجہ ہے کہ جو بھی یہاں آیا وہ یہیں کا ہو کر رہ گیا ۔آج یہ پہچاننا مشکل ہے کہ کس کے بزرگ کہاں سے آئے تھے اور ان کی تہذیب کیا تھی ۔اس وقت سب کی ایک تہذیب ، ایک کلچر ہے اور وہ ہے اس ملک کا مخلوط کلچر ۔ جس میں علاقہ کے لحاظ سے الگ الگ رنگ دکھائی دیتے ہیں۔
مسلم بادشاہوں نے ملک کے عوام کے عقیدے ( آستھا) عبادت گاہوں اور رسم و رواج کا مکمل احترام کیا ۔بابر کا خطبہ جو اس نے اپنے سپاہیوں کے سامنے دیا تھا انتہائی اہم ہے اس نے کہا تھا کہ’’ وجود اس کے کہ ہم گائے کا گوشت کھاتے رہے ہیں وہ ہمارے لئے حلال ہے لیکن بھارت کے لوگ اسے ماں کا درجہ دیتے ہیں اس لئے آج سے میں اپنے اوپر اور تمہارے اوپر اس کے ذبحہ کو حرام قرار دیتا ہوں ‘‘۔مسلم حکمرانوں نے نہ صرف مندروں کی حفاظت کی بلکہ انہیں بڑی بڑی زمینداریاں بھی عطا کی گئی تاکہ وہ اپنا انتظام انصرام اچھی طرح چلا سکیں جبکہ یہ حکمراں بت شکن تھے بت گر نہیں ۔ وحدانیت کے ماننے والے تھے ان کے عقیدے میں غیر اللہ کی کوئی جگہ نہ تھی پھر بھی انہوں نے یہاں کے مذہبی تقدس کو نقصان نہیں پہنچنے دیا اسی طرح غیر مسلم راجاؤں کے خاندانوں کی مصیبت میں مدد کی ۔ ان کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بازی لگادی اتنا ہی نہیں اگر کسی مسلم سپاہی یا کسی ذمہ دار نے کسی غیر مسلم کو ستانے کی کوشش کی تو اسے سخت سزا دی گئی ۔ اس کی ہزاروں مثالیں تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں ۔انہوں نے اس ملک کو اپنا گھر مان کر اس کو سجانے سنوارنے اور سینچنے میں اتنی نسلوں کو کھپا دیا ۔
ملک کو آزاد کرانے کیلئے پہلی قربانی ایک مسلم نواب سراج الدولہ نے دی تھی وہ بھی صرف 24سال کی عمر میں اپنے وزیر کی غداری کی وجہ سے لڑتے ہوئے شہید ہوا ۔ٹیپو سلطان اور اس کے بعد ایک لمبی فہرست ہے جدوجہد آزادی میں اپنی جان کی قربانی دینے والوں کی اس میں علماء کرام بھی پیچھے نہیں رہے شاملی کے میدان میں علماء نے انگریزوں سے معرکہ آرائی کی تھی جس میں رشید احمد گنگوہی جیسے عالم شریک تھے ۔سید احمد شہید اور اسماعیل شہید نے پنجاب کے بارڈر پر انگریزوں سے جنگ کی جبکہ رانا سانگہ انگریزوں کی حمایت میں جنگ کررہا تھا ۔اس جنگ میں پہلی مرتبہ انگریزوں نے مسلک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ۔ سید احمد شہید اور اسماعیل شہید کو علماء کے گروہ نے انگریزوں کے کہنے پر بد عقیدہ ثابت کیا اور یہ کہا گیا کہ یہ آنحضرت ﷺ کو نہیں مانتے جبکہ اسماعیل شہید شاہ ولی اللہ کے خاندان سے تھے اور سید احمد شہید رائے بریلی کے ایک برگزیدہ خاندان کے انتہائی پڑھے لکھے قابل عالم دین تھے کیونکہ ان کا معرکہ انگریزوں پر بھاری پڑ رہا تھا اور ان کو زیر کرنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ انگریزوں کے پاس نہ تھا ۔
سید احمد شہید کے خلاف مسلکی کامیابی کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کو مسلکی بنیاد پر تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے لیکن علماء کا ایک طبقہ جدوجہد آزادی میں برابر شریک رہا اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔ریشمی رمال تحریک آزادی حاصل کرنے کے لئے علماء کی ہی ایک کوشش تھی ۔یہاں تک کہ گاندھی جی کو ملک سے متعارف کرانے میں مولانا محمدعلی ، شوکت علی نے اہم رول ادا کیا ۔ڈاکٹر امبیڈکر کو مسلمانوں نے اپنے کوٹہ سے چن کر بنگال سے پارلیمنٹ میں بھیجا تھا اور شیاما پرساد مکھرجی ( آر ایس ایس کے بانی) کو بنگال میں مسلم لیگ کی سرکار نے اپنی کابینہ میں جگہ دہ تھی ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قومی ایکتا ، سماج کو جوڑنے اور آپسی رشتوں کو مضبوط بنانے کا مسلمانوں نے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا ۔
ہندو مسلم اتحاد کی مضبوطی کا بے مثال نمونہ انگریزوں کے بنگال تقسیم کرنے کے فیصلہ کے موقع پر سامنے آیا اس کی مخالفت میں نکلنے والے جلوس میں ایک مرتبہ اللہ اکبر کا نعرہ لگتا تو دوسری مرتبہ ہر ہر مہا دیو کا ۔اس قومی اتحاد سے انگریز گھبرا گئے اور انہیں تقسیم بنگال کا فیصلہ واپس لینا پڑا ۔ انگریزوں نے اپنی راجدھانی کلکتہ سے دہلی منتقل کردی ان کی سمجھ میں آگیا تھا کہ جب تک یہ اتحاد قائم رہے گا وہ بھارت میں ٹک نہیں سکیں گے انہوں نے ہندو مسلم کے درمیان نفرت کو اتنا بڑھایا کہ ملک تو آزاد ہوا لیکن تقسیم کے ساتھ ۔ہزاروں لوگ مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہوئے تقسیم کا اثر ملک پر بہت گہرا پڑا ۔ ملک کی عوام نے اس سانحہ کو ایک وقتی حادثہ کے طور پر لیا ملک کی عوام نے نفرت پر اپنے روابط کو فوقیت دی ۔ ہندو مسلم کے درمیان جو نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی تھی اس کو عوام نے مسترد کردیا کیونکہ اس نفرت کے نقصانات کو عام آدمی نے بھی محسوس کر لیا تھا ۔پھر یہ ہمارے مزاج کے خلاف بھی تھا ۔کوئی بھی بڑے سے بڑا نظریہ یا تحریک جو مزاج کے خلاف ہوتی ہے وہ عارضی ہی ثابت ہوتی ہے ۔ اسی لئے ہماری امن پسندی فرقہ واریت پر ہمیشہ غالب رہی ہے بڑے بڑے واقعات م فسادات یا سانحوں کو انجام دینے والوں کے درمیان سے ہی ان کی مخالفت میں آواز بلند ہوئی ہے ۔
وقت بدلاہے وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلہ اس سال فرقہ وارانہ تشدد میں 25فیصد کا اضافہ ہوا ہے پچھلے کئی سالوں میں نفرت کے ذریعہ مائکرو لیول تک لوگوں کو بانٹنے کی کوشش کی گئی ہے مظفر نگر ، پلول ہریانہ کے اٹالی ، ٹیکری برہمن ، اندھوپ گاؤں اور پلول ہاؤسنگ بورڈکالونیوغیر پر حملہ کے واقعات ،تبلیغی جماعت کے لوگوں پر جا بجا حملے اس کی نشاندہی کرتے ہیں ان بدلے ہوئے حالات میں ملک کے ہمدرد و سنجیدہ لوگوں کو تشویش میں مبتلاء کردیا ہے وہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی ایکتا قائم رکھنے کے لئے کوشاں ہو گئے ہیں ان میں پرشانت بھوشن ، یوگیندر یادو ، تیستا سیتلواڑ ، مکل سنہا ،کلدیب نیر ،شانتی بھوشن ، رام جیٹھ ملانی ، شبانہ اعظمی ، میدھا پاٹکر ، مہیش بھٹ وغیرہ قابل زکر ہیں ۔
عید ملن کی تقریبات فرقہ وارانہ ماحو ل کو بہتر بنانے کا ایک اچھا ذریعہ ہے ان میں ایک دوسرے سے ملنے اور بات چیت کرنے کا موقع ملتا ہے لیکن آج اس سے آگے بڑھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملنے ملانے کے مواقع ہر علاقہ میں برابر فراہم ہوتے رہیں جن میں تمام طبقات کے ایسے با اثر لوگ شریک ہوں جنہیں ان کا سماج عزت کی نظر سے دیکھتا ہو اور ان کی بات مانتا ہو یہ کام متواتر سال بھر کرنے کاہے ۔ مسلم جماعتوں سے صرف جماعت اسلامی نے اپنے چار سالہ منصوبہ میں قومی ہم آہنگی کو جگہ دی ہے تعلقات کو بہتر بنانے اور حالات کو ساز گار رکھنے کے لئے دو سطح پر کام کرنا ہی ہوگا ایک مسلمانوں کو اپنے درمیان کی مسلکی دیواروں کو منہدم کرنا اور دوسرے غیر مسلموں میں یہ اعتماد پیدا کرنا کہ ہم اس ملک کی ترقی و سالمیت کے لئے کاندھے سے کاندھا ملا کر چل رہے ہیں ۔
مسلم ہو ں یا غیر مسلم ایک دوسرے سے بہت کم واقفیت رکھتے ہیں جبکہ سینکڑوں سالوں سے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن ایک دوسرے کے بارے میں سیدھی اور صحیح معلومات نہ ہوکر سنی سنائی باتوں پر یقین کرکے رائے بنائی ہوئی ہے ۔جس کی وجہ سے وہم اور غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ۔ اسی کا فائدہ اٹھا کر فرقہ پرست ذاتی مفاد یا سیاسی فائدے کے لئے ماحول کو خراب کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وجود اس کے کہ ملک میں بڑی تعداد امن ، شانتی چاہنے والوں کی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ میل ملاپ بڑھے ، تعلقات بنے لوگ ایک دوسرے کو جانیں سمجھیں تاکہ وقت آنے پر افواہ پھیلانے یا غلط فہمیاں پیدا کرنے والوں کو انہیں کے سماج کے لوگ روک سکیں ۔اس سے نہ صرف فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا ہوگی بلکہ قومی اتحاد کا اراستہ بھی ہموار ہوگا جو ملک کی ترقی و سالمیت کے لئے انتہائی ضروری ہے ۔اس طرح کی ہونے والی ہر کوشش میں ہمیں شریک ہونا چاہئے کیونکہ ربط بڑھے گا تبھی بات بنے گی آئےء اس کی شروعات اپنے سے کریں ۔۔
جواب دیں