’قوم پرستی‘ اور ’بھارت ماتا‘کا نشہ پلایا جارہا ہے

’کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے‘

 عبدالعزیز 

    ہندستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے مختلف مضامین کے ایک مجموعہ بعنوان ”بھارت ماتا کون ہے؟“ کی رسم اجرا کے موقع پر سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ”قوم پرستی اور بھارت ماتا کی جے“ کے نعرے کا غلط استعمال ہورہا ہے جس سے ہندستان کا عسکریت پسندانہ (Miletant) نظریہ کو جنم دیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجہ میں ملک کے کروڑوں شہریوں اور باشندوں کو بانٹنے یا الگ کرنے کی سازش اور کوشش ہورہی ہے۔ 
    سابق وزیر اعظم نے جواہر لعل نہرو کے ایک قول کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ جب ان سے کسی نے دریافت کیا کہ ”بھارت ماتا کون ہے؟“ تو انھوں نے برجستہ جواب دیا کہ ’پہاڑ، ندیاں، جنگلات اور میدان یقینا ہر ایک کیلئے پسندیدہ اور محبوب ہیں مگر حقیقت میں جو چیز محبوبیت کے درجہ میں شمار ہوتی ہے وہ ہیں ہندستان کے عوام“۔ 
    1936ء میں جواہر لعل نہرو نے ایک مجمع عام کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’بھارت ماتا‘ یا ’مدر انڈیا‘ حقیقت میں وہ کروڑوں لوگ ہیں اس کی جیت در اصل ہندستان کے عوام اور لوگوں کی جیت ہوگی۔ جواہر لعل نہرو نے آزادی کی لڑائی میں بھارت ماتا ملک کے کروڑوں عوام سے تعبیر کیا تھا اور کہا تھا کہ آزادی کی لڑائی میں حقیقت میں جیت ان سب لوگوں کی جیت ہوگی جو ہندستان میں رہتے اور بستے ہیں۔ چند دنوں پہلے امولیا نامی ایک خاتون نے ہندستان زندہ باد اور پاکستان زندہ باد کہا تھا جس کی وجہ سے اسے غدارِ وطن کے تعزیری قانون کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ 
    حقوق انسانی کے کارکن اور مصنف ہرش مندر نے گزشتہ سنیچر (23فروری) کو کلکتہ کے دانشوروں کے ایک اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بنگلور کی ایک خاتون امولیا لیؤنا نے جب کہاکہ ’پاکستان زندہ آباد‘ اس نے یہ بھی کہاکہ ’ہندستان زندہ آباد‘۔ اور میں کہتا ہوں یہ نہایت مضبوطی سے یہاں کیمرہ بھی ہے۔ ہاں؛ پاکستان زندہ آباد آخر کیوں پاکستان کے لوگوں سے نفرت کریں اور ان کو نقصان پہنچائیں گے۔ ’چین بھی زندہ آباد‘ سب زندہ آباد‘ یہی میرا پیار ہے میرے ملک کیلئے۔ انھوں نے کہاکہ کیا اپنے ملک سے پیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم دوسرے ملک سے نفرت کریں؟ کیا اپنے مذہب سے پیار کرنے کا مطلب ہے کہ ہم دوسرے مذہب سے نفرت کریں؟ گائے سے محبت کا مطلب ہے کہ دوسرے لوگوں سے نفرت کریں؟
    ہرش مندر نے کلیدی خطبہ ”کن شرائط پر ایک دوسرے سے تعلق: شہریت کیلئے تکرار و مقابلہ“ "Who belongs and what terms: Contestation around Citizenship" کے موضوع پر پیش کیا۔ 
    وطنیت: علامہ اقبالؒ نے اپنی ایک نظم و طنیت میں قومیت کے متعلق اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے وہ کہا تھا  ؎
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کاکفن ہے
اقوام جہاں میں ہے رقابت تواسی سے

تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تواسی سے

کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تواسی سے
اقوام میں مخلوق خد ابٹتی ہے اسی سے

قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اسی سے
    علامہ اقبال سامراجیت(ملوکیت) کو جارحانہ و طنیت کا ہی ایک شاخسانہ تصور کرتے ہیں اور اس کو اسلام کی اخلاقی تعلیم کا مخالف سمجھتے ہیں۔ قومیت کے علمبرداروں کانظریہ۔ میراوطن! غلط ہویا صحیح اور جھوٹی عصبیت، حق و باطل میں تمیز نہیں ہونے دیتی۔ جب آدمی جھوٹ اور سچ میں فرق کرنے کے قابل نہیں رہتا تو وہ سب کچھ کرسکتا ہے اور وہ خود کو حق بجانب بھی ٹھہراتا ہے۔
    لاہور ریڈیواسٹیشن سے یکم جنوری 1938ء کو نشرشدہ سال نو کے پیغام میں بھی علامہ اقبال نے انسانی اتحاد و اخوت کی باتیں کی ہیں جو کہ نسلی قومیت اور رنگ و زباں سے بلند تر ہے۔ انہی کے الفاظ میں:
    ”دورِ حاضر کو علوم عقلیہ اور سائنس کی عدیم المثال ترقی پر بڑا فخر ہے۔ یہ فخر و ناز یقینا حق بجانب ہے…… آج زمان ومکان کی پہنائیاں سمٹ رہی ہیں اور انسان نے فطرت کے اسرار کی نقاب کشائی اور تسخیر میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی ہے، لیکن ان تمام ترقی کے باوجود استبدداد نے جمہوریت قومیت اشتراکیت اور فسطائیت اور نہ جانے کیاکیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں …… ان نقابوں کی آڑ میں دنیا بھر میں قدر حریت اور شرف انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہورہی ہے کہ تاریخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا…… وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوعِ انسانی کی وحدت ہے نسل، زبان اور رنگ سے بالاتر ہے۔جب تک اس نام نہاد جمہوریت، اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو پاش پاش نہ کر دیاجائے گا، جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے ’الخلق عیال اللہ‘ کے اصول کاقائل نہ ہوجائے گا اور جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایاجائے گا اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہیں کرسکیں گے اور اخوت حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندہ معنی نہ ہوں گے“۔
    علامہ اقبال اس پیغام میں مزید کہتے ہیں کہ”تمام دنیا کے ارباب فکر دم بخود ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ کیاتہذیب و تمدن کے اس عروج او رانسانی ترقی کے اس کمال کاانجام یہی ہونا تھا کہ انسان ایک دوسرے کی جان ومال کے روپے ہوکر کرہ ئارض پرزندگی کاقیام ناممکن بنادیں؟دراصل انسانوں کی بقا کا راز انسانیت کے احترام میں ہے۔جب تک دنیا کی تعلیم یافتہ قومیں اپنی توجہ کو محض احترام انسانیت کے درس پر مرکوزنہ کردیں یہ دنیا بدستور درندوں کی بستی بنی رہے گی“۔
    علامہ اقبال کایہ نظریہ بہت ہی واضح الفاظ میں ان کے انسانیت دوستی کی وضاحت کرتا ہے، کل ہند قومی کانگریس کی ایک ممتاز لیڈر، 1925ء میں اس کی صدر اور مشہور مجاہد آزادی بلبل ہند مسز سروجنی نائیڈو (1879ء 1949ء) نے اسی انداز میں اپنے خیالات کااظہار کیا ہے کہ:
    ”علامہ اقبال کی شاعری نے میری روح کو تنگ نظرقومیت کے جذبہ سے آزاد کرتے ہوئے پوری کائنات سے محبت کے جذبہ سے سرشار کردیا“
خان محمد نیاز الدین کے نام اپنے خط مورخہ 27جون 1917ء میں وہ لکھتے ہیں:”یورپ جس قومیت پرنازاں ہے وہ محض بودے اور سست تاروں کابناہوا ایک ضعیف چیتھڑا ہے“۔
    علامہ اقبال مسلم کانفرنس کے لاہور اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہتے ہیں:”میں یورپ میں پیش کردہ قومیت کامخالف ہوں اس لئے اس تحریک میں مجھے مادیت اور الحاد کے جراثیم نظرآرہے ہیں اور یہ جراثیم میرے نزدیک دور حاضر کی انسانیت کیلئے شدید ترین خطرات کاسرچشمہ ہیں …… اگرچہ حب الوطنی ایک فطری امر ہے اور اس لئے انسان کی اخلاقی زندگی کاایک جز ء ہے لیکن جوشئے سب سے زیادہ ضروری ہے وہ انسان کا مذہب، اس کاکلچر اوراس کی ملی روایات ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کیلئے انسانوں کو زندہ رہنا چاہیے اور جن کی خاطر انہیں اپنی جان قربان کرنی چاہیے۔ وہ خطہ زمین جس میں وہ رہتا ہے اور جس کے ساتھ عارضی طور پر اس کی روح وابستہ ہوتی ہے اس لائق نہیں کہ اسے خدا اور مذہب سے برتر قرار دیاجائے“۔
    صرف علامہ اقبال نے ہی تنہا قومیت کے مغربی نظریات سے بغاوت نہیں کی ہے بلکہ ایسے بہت سے مفکرین ہیں ان کے معاصر اور نوبل انعام یافتہ گرو دیورابندرناتھ ٹیگور (1861ء 1941) بھی اسی جذبہ سے سرشار تھے۔1901ء میں وہ لکھتے ہیں کہ:
    ”مغربی تعلیم کے زیر اثر ہم نے عظیم ملک کاتصور سیکھا لیکن یہ نہ تو ہمارے ذہن میں ہے اور نہ ہی ہماری تاریخ مذہب، سماج اور خاندان کا حصہ…… گرچہ پر منحصر تہذیب کا تجربہ ابھی باقی ہے لیکن یہ واضح ہے کہ یہ نظر یہ مناسب نہیں ہے بلکہ اس میں بے انصافی اور فریب کو دخل ہے۔ اس کے اندر ظالمانہ رجحانات ہیں۔اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یورپین طرز پر ملک و قوم کی تعمیر ہی واحد راستہ ہے اور یہی انسانیت کی معراج ہے تو ہم غلطی پر ہیں“۔
    علامہ اقبال کے مانند ہی ٹیگور کا بھی خیال تھا کہ موجودہ قومیت کے تحت مالدار ممالک کمزور ملکوں کااستحصال کرتے ہیں اور ان پر غلبہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ٹیگور قومیت کے اس تصور کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
    ”قوم اپنی تمام ترقوت، ترقی،اپنے جھنڈے، ترانے، عبادت گاہوں کے اندر اپنی عبادتیں،اپنی تمام ترادبی سرگرمیوں اور وطن سے محبت کے باوجود اس حقیقت کو جھٹلانہیں سکتی کہ ایک قوم ہی دوسری قوم کی بربادی کاباعث ہے۔ تمام احتیاط کے باوجود ایک کی زندگی دوسرے کے خاتمہ پر منحصر ہے۔ کچھ اس طرح جیسے کچھ کیڑے مکوڑے سڑے ہوئے گوشت پر ہی پیدا ہوتے اور پرورش پاتے ہیں اور ان کا وجود اور نشودنما دوسرے کی موت پر ہی منحصر ہے“۔
    علامہ اقبال کی طرح ٹیگور بھی قومیت کو انسانیت کادشمن مانتے ہیں۔ ان کے ہی الفاظ میں:”گرچہ بچپن سے ہی مجھے سکھایا گیا ہے کہ وطن کی پرستش خدا کی عبادت اور انسانیت سے بہتر ہے لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ یہ نظریہ غلط تھا۔ میرے ہم وطنوں کی بھلائی اس میں ہے کہ وہ ایسی تعلیم کی مخالفت کریں جو یہ سکھاتا ہے کہ ملک وقوم انسانیت سے مقدم ہے“۔ 
    سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ عسکریت پسندانہ قومیت اور وطنیت کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنی تقریرمیں سچ کہا ہے کہ اس کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ ہرش مندر نے کرناٹک کی ایک خاتون کے ایک فلسفہ کی تائید کرتے ہوئے ”سب زندہ آباد“ کی بات کہی ہے۔ کانگریسی لیڈر اورلوک سبھا کے ممبر منیش تیواری نے بھی چند دنوں پہلے کہا ہے کہ کانگریس کو قومیت کے فلسفے کو ملک کے سامنے پورے طور پر واضح کرنا چاہئے۔ جولوگ شروع میں اپنے اپنے وطن یا اپنی اپنی قوم کے چمپئن تھے ان کو احساس ہوا تھا کہ ملکوں کے درمیان جنگ و جدل ہوسکتا ہے۔ اس لئے ان لوگوں نے اقوام متحدہ یعنی اقوام کا اتحاد جیسی تنظیم قائم کی تھی، لیکن اس تنظیم یا ادارہ نے پانچ ملکوں کے ویٹو (Veto)کے استعمال سے اتحاد کا مقصد پورا نہیں ہوپایا ہے اورنہ ہی ملکوں کے درمیان تنازع اور لڑائی جھگڑے کو ختم کرنے میں یہ ادارہ کامیاب ہوا۔
     علامہ اقبال نے بہت پہلے کہا تھا کہ  ؎ ’اصل تہذیب احترامِ آدم است‘ (اصل تہذیب احترام آدم ہے)۔
    علامہ اقبال نے احترام آدم اور اتحاد آدمیت پر زور دیا تھا۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اگر انسانوں کا انسان احترام نہیں کرتے اور انسانوں کا اتحاد وجود میں نہیں آتا تو انسان اپنی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر غرور اور گھمنڈ سے کام لئے بغیر نہیں رہتا۔ انسان کو مشکور ہونا چاہئے مغرور نہیں ہونا چاہئے۔ آج جو ہمارے ملک میں انسانوں کا ایک طبقہ مغرورو متکبر ہوگیا ہے اور انسانیت اور آدمیت کے جامے کو اتار پھینکا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ طبقہ اپنے خیالات اور اپنے نظریات میں کچھ اس طرح مگن ہے کہ دوسروں کے خیالات و نظریات کو ہیچ سمجھتا ہے۔ اب جو آزادی اور زندہ آباد کی بات کہی جارہی ہے تو حقیقت میں ایسے مغرور لوگوں سے آزادی کی بات کہی جارہی ہے اور سب کو زندہ آباد کہہ کر سب کی بھلائی، سب کی فلاح کی بات ہورہی ہے جو انسانیت اور آدمیت ہے۔ یہ فلسفہئ انسانیت کی بھلائی کیلئے ہے اور اس کی ترقی اور تہذیب کیلئے ہے۔ اسی فلسفہ آدمیت میں سب ملکوں اور سب قوموں کی بھلائی کا راز پوشیدہ ہے۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

23فروری2020

«
»

امن و اتحاد ہی سے ہندوتو کا بیڑا غرق ہوسکتا ہے

شاہین باغ کا پرچم ابھی جھکنا نہیں چاہیے…

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے