شاہد لطیف
بات بات پر پریشانی میں ڈالنے والی اطلاعات ملتی ہوں ، دل ڈوبنے لگتا ہو، اندیشے ستاتے ہوں ، حالات برگشتہ ہوں اور کچھ سوجھتا نہ ہوتو قندیل ضروری ہے ، وہ قندیل جو روشنی کا وسیلہ تو ہے ہی ، احتیاط کی علامت اور امید کا استعارہ بھی ہے ۔
ایک کہانی یاد آتی ہے ،کسی دیہات میں ایک نابینا شخص رہتا تھا ، کبھی کبھار رات میں جب اسے گھر سے نکلنے کی ضرورت پیش آئی تو ایک قندیل روشن کر لیتا اور اسے ہاتھ میں لٹکائے راستہ طےکیا کرتا تھا ، ایک مرتبہ اسے راستے میں چند شرارتی نوجوان مل گئے ، انہوں نے اس کا مذاق اڑانا شروع کیا کہ نابینا کو قندیل کی کیاضرورت؟ جب ان کی رگ شرارت کا پھڑخنا کچھ کم ہوا تو ان میں سے ایک نےنابینا کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا : آپ دیکھ نہیں سکتے تو قندیل لے کر چلنے کا کیا فائدہ ؟؟
نابینا شخص نے اپنی تحقیر کا بالکل بھی برانہ مانتے ہوئے بڑی مناتن سے جوان دیا : قندیل اس لئےلے کر چلتا ہوں تاکہ کوئی راہ گیر مجھ سے ٹکرا نہ جائے
اس مختصر سی کہانی میں جو سبق ہے اسے ایل لفظ میں بیان کرنا ہو تو میرے خیال میں وہ لفظ احتیاط ہوگا ، اگر کہانی کا یہ نابینا شخص خواہش کرتا کہ اسے بینائی مل جائے تو یہ ناممکن تھا ، وہ چاہتا کہ رات کی تاریکی دن کے اجالے میں بدل جائے تو اسے رات ڈھلنے کا انتظار کرنا پڑتا ، وہ سوچتا کہ راہ گیر خود احتیاط سے کام لیں اور سنبھل کر چلیں تو یہ اس کے اختیار میں نہیں تھا کیونکہ بقول مجاز ’’بہت مشکل ہے دنیا کاسنورنا تریزلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے ، جب ہر طرف سے حالات اس کے قابو میں نہیں تھے تو اس نے کسی پرتکیہ کئے بغیر سوچا کہ ایساکام کیا جائے جو وہ خود کرسکتا ہے ، اس نے قندیل کا سہارا لیا۔
حالات برگشتہ ہوں اور کچھ سوجھتا نہ ہو تو قندیل ضروری ہے وہ قندیل جو روشنی کا وسیلہ تو ہے ہی ،احتیاط کی علامت (کہانی میں آپ نے دیکھا ) اور امید کا استعارہ بھی ہے ۔قندیل خود جل کر روشنی بکھیرنے کی جدو جہد کرتے ہوئے قربانی کا پیغام بھی ہے۔
قندیل احتیاط ،امید ،جدوجہد اور جذبہ قربانی کی علامت ہے جبکہ دور حاضر کا انسان خود کو احتیاط کی ضرورت سے بالاتر سمجھنے لگا ہے ، امید کا دامن اس کے ہاتھوں سے چھوٹ چھوٹ جاتا ہے ،جدو جہد کے دائرے کو اس نے کافی سمیٹ لیا ہے اور قربانی کے مفہوم کو بھی اس نے کافی محدود کر لیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ حوصلہ اور حکمت عملی کے ذریعہ حالات سے لوہا لینے کے بجائے وہ گھبرانے اور پریشان ہونے لگا ہے ، اس کیفیت کو بڑھاوا دینے میں وہاٹس ایپ کا جواب نہیں ، یہ ایسی فیکٹری ہے جس میں بہت سی مصنوعات ڈھلتی ہیں ، افواہ ، الزام ، بہتان، تفرقہ اور اندیشے ، (تسلیم کہ اس کے ذریعہ خوشیاں بھی تقسیم ہوتی ہیں مگر کم )ان دنوں ہزاروں لوگ نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن (این آر سی ) کی وجہ سے مختلف قسم کے اندیشوں میں مبتلا ہیں ،ایک صاحب نے مجھے فون کیا اور کہا کہ کھ بتائے میں کون کون سے ڈاکیو منٹ جمع کروں ، میں نے جواب دیا کس کام کے لئے ؟؟ کہنے لگے این آر سی کے لئے ، پوچھا این آر سی تو آسام کے لئے ہے کیا پورئ ملک کے لئے لازمی ہوگیا ؟؟ کہا پتہ نیں ،وہاٹس ایپ پر آیا ہواایک میسیج پڑھ کر میں دہل گیا ،سوچا آپ کو فو کروں !
غالب نے جس غزل میں اندیشہ ہائے دور دراز کی بات کہی تھی اسی میں یہ بھی کہا تھا کہ’’ نہ گل نغمہ ہوں نہ پردہ ساز میں ہوں اپنی شکست کی آواز ‘‘
میری نظر میں ، اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہو کر ہی انسان اپنے شکست کی آواز بنتا ہے ، یہ جو گھبراہٹ یا پریشانی لاحق رہتی ہے اور ھقیر اندیشے ستاتے ہیں ، ان کے ذریعہ انسان کی شکست کی آواز میں تبدیل ہوتا رہتا ہے ورنہ قبل ازوقت کسی فکر اور اندیشے میں مبتلا ہونے کا کیامعنی ہے ؟؟
ابھی بقیہ ریاستوں میں آسام این آر سی قائم کرنے کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہوا یعنی ایسا کوئی نوٹیفکیشن جا ری نہیں کیا گیا ہے اگر ہوابھی تو یہ اتنابڑا اور پھیلا ہوا کام ہوگا کہ اس کا انجام پانا کوئی آسان کام نہیں ہوگا اس کی زد میں صرف اقلیتی آئینگی ایسا نہیں ہے دیگر قوم بھی آ سکتی ہیں جیسا کہ اس وقت آسام کی صورتحال ہے کہ 41 لاکھ افراد کا مسئلہ ہے جن میں کم پچاس فیصدیگر اقوام کے لوگ ہیں ہیں ان تمام باتوں پر غور کیے بغیر اندیشے اور گھبراہٹ میں مبتلا ہونا اس قندیل کی لو بجھانے کے مترادف ہے جس کا پیغام احتیاط یہ بھی ہے کہ افواہیں واٹس آپ میسیج ،بلاوجہ کی فکرمندی، اورحقیر اندیشے آپ سے ٹکرانے نے نہ لگیں
اس ضمن میں میں ایک صاحب کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا چاہتی ہے اس لیے متنبہ رہنے کی ضرورت ہے ،جبکہ میرا کہنا ہے کہ متنبہ تو ہر حال میں رہنا چاہیے اس کے لیے صرف این آر سی کو ہی کیوں بنیاد بنایا جائے اور جہاں تک دوسرے درجے کے شہری کی بات ہے اس سلسلے میں تھوڑے غور وفکر کی ضرورت ہے کہ دوسرے درجے کا شہری ہوتا کون ہے ؟؟
دوسرے درجے کے شہری بنائے تو کیا جائیں گے غور سے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ وہ تو اب بھی ہیں ، دور تک پھیلے ہوئے ہیں ، دراصل ہم سوچتے ہی نہیں کہ دوسرے درجے کا شہری کون ہے یا کون ہو سکتا ہے ،میری نظر میں دوسرے درجے کا شہری وہ ہے جو غریب ہے اور غربت کے دلدل سے نکلنا نہیں چاہتا ،جو ناخواندہ یا یا کم تعلیم یافتہ ہے، جو اپنے راستے خود بند کرتا ہے ۔ ترقی کی جدوجہد کو کو غیر ضروری سمجھتا ہے،مثبت طریقے سے اپنے آپ کو کو بدلنے کی فکر نہیں کرتا، جس حال میں رہتا ہے اسی حال میں رہنا چاہتا ہے، مسائل میں گھرارہ کر مسائل ہی کے بارے میں سوچتا ہے، اور حل کے بارے میں میں سوچنا نہیں چاہتا، ہمارے ملک میں عملا دوئم درجے کی زندگی گزارنے والوں کی تعداد زیادہ ہے کہ انہوں نے خود کو اوپر اٹھانے کی فکر ہی نہیں کی ، مگر ہاں! ان میں سے جو لوگ آگے بڑھے ، خود کو بدلنے کی فکر کی ،تعلیم و ترقی سے ناطہ(لغت میں ناتا) جوڑا، وہ دوسرے درجے سے نکل کر کر پہلے درجے میں آگئے گ، اب ان کے قدر ہوتی ہے ، اور ان کا اثر و رسوخ اظہر من الشمس ہے۔
خدا کے فضل سے ہم نہ تو شعور سے عاری ہیں، نہ انسان حیات و کائنات کے رموزسے ناواقف،ہم مذکورہ کہانی کے کردار کی طرح نابینہ بھی نہیں ہے ،مگر قندیل کی ضرورت سے بے نیاز ہو گئے ہیں، وہ قندیل جو اندیشوں کے ٹکرانے سے بچاسکتی ہے ، ہمیں تو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے پاس توکل کی ایک عظیم قندیل ہے، شرط صرف یہ ہے کہ اس کی لو کو بجھنے نہ دیا جائے۔
جواب دیں