حضرت نظام الدین اولیاء کے بہت سے خلفاء تھے ،جو ملک کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے تھے اور انھوں نے اپنی خانقاہیں قائم کر کے عوام کی رشد وہدایت کا کام شروع کیا۔ بنگال، دکن، مالوہ، گجرات، جونپوراس دور میں سلطنتوں کے مراکز تھے، لہٰذا انھیں جگہوں کو مرکز بنا کر چشتی سلسلے کے بزرگوں نے کام کیا۔ ہم ذیل میں چند خانقاہوں کی مختصر تفصیل بیان کرتے ہیں۔
بنگال
دہلی کے سلاطین کے لئے بنگال کی خاص اہمیت تھی۔ مسلمانوں نے اسے 1197ء میں فتح کیا تھا۔یہ زرخیز علاقہ تھا۔ ہر طرف ہریالی تھی۔ اناج کی پیداوار زیادہ ہوتی تھی اور یہاں سے ہاتھیوں کا بھی حصول ہوتا تھا جو جنگوں میں اہم کردار ادا کرتے تھے، نیز امراء کی شان و شوکت کا باعث بنتے تھے۔ یہ تجارت کے لحاظ سے بھی بہت اہم تھے اور عرب، ایران و سنٹرل ایشیا تک ان کی مانگ تھی۔ بنگال سے متصل تھا آسام جہاں ہاتھیوں کی بہتات تھی۔ بنگال سمندر سے قریب تھا اور اس کا ساحلی سلسلہ عرب تک پھیلا ہوا تھا۔ اتنے فوائد کے باوجود اس کا فتح کرنا مشکل نہ تھا کیونکہ یہاں کے باشندے راجستھان اور پنجاب کے لوگوں کی طرح جنگ جو نہیں تھے۔ وہ مزاج سے امن پسند تھے اور لڑائی جھگڑے وتشدد کو ناپسند کرتے تھے۔انھیں جنگ و جدال سے فطری طور پر نفرت تھی۔ بنگال کی راجدھانی لکھنوتی تھی ۔ مسلمانوں نے اسے فتح کرنے کے بعد اسی کو پایہ تخت رکھا اور یہیں سے حکومت کرنے لگے۔ بنگال کبھی دہلی کے ماتحت رہا تو کبھی آزاد ہوگیا۔ ایسا وقت بھی آیا جب اسے اپنے زیر اقتدار رکھنے کے لئے حکمرانوں کو حملہ کرنا پڑا۔ بنگال کے سیاسی حالات خواہ جیسے ہوں، صوفیہ حضرات نے اپنا کام پوری لگن سے کیا اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی اللہ کے بندوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتے رہے۔ یہاں چشتی سلسلے کی بنیاد حضرت اخی سراج رحمۃ اللہ علیہ نے رکھی۔ ان کا پورا نام سراج الدین تھا اور حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کے عقیدت مند تھے۔ بنگال سے دلی چلے آئے تھے اور یہیں خانقاہ میں رہتے تھے۔ سال میں ایک بار اپنی والدہ سے ملاقات کے لئے بنگال جایا کرتے تھے۔ پڑھے لکھے نہ تھے لہٰذا محبوب الٰہی نے انھیں خلافت نہیں دی تھی مگر دل سے ظاہری و باطنی علوم کے مشتاق تھے ۔ محبوب الٰہی کے ایک خلیفہ مولانا فخر الدین زراوی رحمۃ اللہ علیہ تھے، جنھوں نے ترس کھاکر علم سکھانا شروع کیااور کم وقت میں ہی اخی سراج عالم دین بن گئے۔ حضرت نظام الدین اولیاء نے آپ کو خلافت عطا فرمائی ا اور ’آئینۂ ہند‘ کے خطاب سے نوازا۔
محبوب الٰہی کے انتقال کے بعد حضرت اخی سراج رحمۃ اللہ علیہ بنگال چلے گئے اور لکھنوتی میں قیام فرماکر بنگال میں رشد وہدایت کا کام کرنے لگے۔ وہ چند کتابیں دلی سے لکھنوتی لائے تھے۔ جن سے کتب خانے کی ابتدا کی۔ اس طرح بنگال میں چشتیہ سلسلے کی تنظیم کا پہلا کام شروع ہوا۔ بنگال میں انھیں حد درجہ مقبولیت ملی اور لوگ جوق در جوق �آ آ کر بیعت ہونے لگے۔ یہاں تک کہ بنگال کے فرماں روا اور ارکان حکومت اور رئیس بھی آپ سے مرید ہوئے۔ امیرخورد نے
سیر الاولیاء میں لکھا ہے کہ
’’ اور اس مقام کو جمال اور ولایت سے سجا دیا اور خلق خداان سے بیعت ہونے لگی۔ یہاں تک کہ اس کے فرمان روا بھی حلقہ مریدین میں شامل ہوگئے۔ ان کا روضہ قبلۂ ہندوستان ہے اور ان کے خلفاء اب تک علاقے میں خلق خدا کی رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘
حضرت اخی سراج کے دم قدم سے بنگال کی سرزمین کو بہت فائدہ ہوا اور آپ سے فیض اٹھانے کے لئے بہار اور اودھ سے بھی لوگ آنے لگے۔ آپ کے خلفاء میں سب سے زیادہ شہرت حضرت علاء الحق والدین بنگالی کو ملی، جو عام طور پر علاء الحق پنڈوی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ شیخ علاء الحق پنڈوی نے پنڈوہ (مالدہ)کے علاقے میں ایک خانقاہ قائم کیا جسے دور دور تک شہرت حاصل ہوئی۔ شیخ کے بعد ان کے فرزند اجمند اورخلیفہ نور قطب عالم اور دوسرے خلیفہ حضرت اشرف جہانگیر سمنانی نے ان کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ نور قطب عالم کے ایک مرید و خلیفہ مولانا حسام الدین مانک پوری تھے۔ جنھوں نے چشتی سلسلے کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے ایک سو بیس خلفاء تھے۔ جنھوں نے اس سلسلے کو دور دور تک پہنچایا۔
حضرت اخی سراج نے بنگال کی سرزمین پر جو رشد وہدایت کی شمع روشن کی تھی، اس کی روشنی دور دور تک پھیلی۔ رشد وہدایت کا یہ سلسلہ بنگال تک محدود نہ رہا بلکہ بہار، جونپور اور اودھ تک پہنچا۔ حضرت اشرف جہانگیر سمنانی نے اودھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کچھوچھہ میں قیام فرمایا اور تبلیغ دین کے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ آپ کے بعد آپ کے خانوادے کے لوگوں نے آپ کے مشن کو آگے بڑھایا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہیں آپ کا مزار مبارک ہے ۔
دکن
یہ علاقہ کبھی دلی کے ماتحت تھا تو کبھی آزاد ہوگیا۔ سلطان علاء الدین حسن گانگو بہمنی نے یہاں ایک آزاد سلطنت کی بنیاد رکھی جو ایک مدت تک قائم رہی۔ یہ حکومت 1347ء میں قائم ہوئی اور تاریخ فرشتہ کے مطابق اس کی پیشینگوئی حضرت نظام الدین اولیاء نے کی تھی۔ بہمنی حکومت کے قیام سے بہت پہلے سلطان محمد تغلق نے صوفیہ کو جبراً دکن بھجوادیا تھا۔ بادشاہ جو بے حد ظالم و جابر تھا، ہمیشہ اس اندیشے میں رہتا تھا کہ صوفیہ اگر دلی میں رہے تو ان کے کہنے پر عوام حکومت کے خلاف متحد ہوسکتے ہیں۔ اسی خوف سے وہ بااثر افراد کو یاتو دور دراز علاقوں میں بھجوادیتا تھا یا اپنی ملازمت میں لے کر ہمیشہ ان پر نظر رکھتا تھا۔ اس نے بہت سے صوفیہ کو قتل کرادیا تھا اور جو باقی تھے، ان کے ساتھ ہتک آمیز برتاؤ کرتا تھا۔ محمد شاہ تغلق کے حکم سے جو صوفیہ دکن گئے، ان میں بڑی تعداد سلسلہ چشتیہ کے بزرگوں کی تھی۔ ان کے ذریعے یہ سلسہ دکن میں پھیلتا رہا۔
دکن میں جن بزرگوں نے چشتیہ سلسلے کو رائج کیا ان میں سب سے اہم نام حضرت برہان الدین غریب کا ہے۔ آپ شیخ المشائخ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ تھے۔مرشد کے انتقال کے بعد دیوگیر چلے گئے اور وہاں ارشاد وتلقین کا کام شروع کردیا۔ دکن میں آپ کی خانقاہ کو شہرت ملی اور لوگ بڑی تعداد میں آکر آپ سے استفادہ کرنے لگے۔ آپ کے الفاظ میں جذب و کشش تھی، جو سامعین کو متاثر کرتی تھی۔ بہت سے لوگوں نے آپ کی تقریر سن کر توبہ کی اور گناہوں کے راستے سے الگ ہوکرنیکی کی زندگی گذارنے لگے۔ شیخ کے ملفوظات کا مجموعہ ’احسن الاقوال‘ کے نام سے دستیاب ہے، جسے حماد بن حماد کاشانی نے جمع کیا ہے۔ آپ کی کئی دوسری ملفوظات بھی ہیں ۔ شیخ برہان الدین غریب کے بعد چشتی سلسلے کی اشاعت کا کام آپ کے خلیفہ شیخ زین الدین نے کیا۔ ان کے ذریعے سلسلے کی اشاعت ہوئی اور عوام کو خوب فیض پہنچا۔ ان کے دست حق پرست پر دکن کے بادشاہ علاء الدین حسین شاہ نے بھی بیعت کی تھی۔
دکن میں عوام و خواص کی اصلاح کا بڑا کارنامہ انجام دینے والے ایک اور بزرگ تھے، حضرت سید محمد گیسو دراز بندہ نواز۔ انھوں نے گلبرگہ کو اپنا مسکن بنایا اور آج بھی ان کی قبر یہیں زیارت گاہ خلائق ہے۔ حضرت گیسودراز جب گلبرگہ تشریف لائے تو سلطان فیروز شاہ بہمنی نے علماء، مشائخ اور لشکر شاہی کے ساتھ استقبال کیا۔ حضرت گیسو دراز نے جہاں چشتیہ سلسلے کی ایک عظیم الشان خانقاہ قائم کی ، جسے عالمی شہرت حاصل ہوئی اور دکن کے عوام کے دل کو اللہ نے آپ کی لئے کھول دیا۔عوام الناس آپ سے بے حد متاثر ہوئے۔ ساتھ ہی بادشاہ اور دیگر ارکان دولت بھی آپ سے پُرخلوص رشتے رکھتے تھے۔
حضرت بندہ نواز گیسو دراز کے خلفاء بڑی تعداد میں ہوئے جنھوں نے آپ کے بعد آپ کے مشن کو آگے بڑھایا۔ ان میں چند مشہور نام ہیں:
شیخ علاء الدین گوالیاری، شاہ ید اللہ ، شیخ ابوالفتح قریشی، سید صدر الدین اودھی، شیخ فخرالدین بغدادی، شیخ اکبر حسینی، شیخ زادہ شہاب الدین ، قاضی محمد سلیمان رحمہم اللہ وغیرہ۔
سید بندہ نواز گیسو دراز کی تعلیمات کو ان کی کتابوں سے بھی فروغ حاصل ہوا۔ ان کی تحریر کردہ کتابوں میں سے بعض آج بھی باقی ہیں اور ان کے
مطالعے سے لوگ فیضیاب ہورہے ہیں۔ آپ کی تصنیفات میں شرح آداب المریدین ، اسماء الاسرار وغیرہ شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے قرآن کریم کی صوفیانہ تفسیر بھی لکھی تھی۔ مشارق الانوار کا فارسی ترجمہ بھی کیا تھااور عوارف المعارف، رسالہ قشیریہ، تمہیدات عین القضاۃ و قوت القلوب پر حاشئے لکھے تھے۔ بندہ نواز کی طرف بہت سی کتابیں منسوب کی جاتی ہیں، مگر تحقیق جاری ہے کہ ان میں کون کون سی کتابیں ان کی تحریرکردہ ہیں اور کون کون سی ان کی جانب غلط منسوب ہوگئی ہیں۔
گجرات
سرزمین گجرات سے چشتی سلسلہ کے بزرگوں کا بہت پرانا رشتہ ہے۔ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں ہی یہاں چشتی سلسلہ کے صوفیہ پہنچ چکے تھے۔ خواجہ بختیار کاکی کے دومرید شیخ حامدالدین احمد اور شیخ محمود، نہروالہ علاقے کے باشندے تھے۔ ان دونوں بزرگوں کی تفصیلات کتابوں میں نہیں ملتی ہیں، البتہ اس سلسلے کو باضابطہ طور پر گجرات میں متعارف کرانے کا سہرا حضرت نظام الدین اولیاء کے کچھ خلفاء کو جاتا ہے، جن کے نام ہیں شیخ سید حسین، شیخ حسام الدین ملتانی، شاہ بارک اللہ(رحمہم اللہ)
شیخ سید حسین صاحب علم و فضل تھے۔ ہدایہ جیسی مشہور کتاب پر حاشیہ لکھا تھا۔ آپ نے ایک روحانی اشارہ پاکر حضرت محبوب الٰہی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ شیخ نے خلافت عطا فرمائی اور گجرات میں تبلیغ دین کے لئے روانہ فرمایا۔ یہیں نہر والہ کے مقام پر آپ لوگوں کی رشدو ہدایت کا کام کرتے رہے۔ آپ کی قبر آج بھی اسی مقام پر ہے۔
شیخ حسام الدین کو شیخ نظام الدین اولیاء نے دہلی سپرد کی تھی، وہ یہیں رہتے تھے مگر جب سلطان محمد تغلق کے زمانے میں صوفیہ اور اللہ والوں پر ظلم شروع ہوا تو آپ کو مجبوراً نہروالہ جانا پڑا۔ یہیں مقیم ہوکر تبلیغ دین کا کام کرتے رہے اور باقی زندگی یہیں گزار کر انتقال فرمایا۔ شاہ بارک اللہ بھی گجرات میں اسلام کی اشاعت کا کام کرتے رہے۔
گجرات میں سلسلہ چشتیہ کی باقاعدہ تنظیم کا کام علامہ کمال الدین، شیخ یعقوب، شیخ کبیر الدین ناگوری اور سید کمال الدین قزوینی نے انجام دیا۔ علامہ کمال الدین ،شیخ نصیرالدین چراغ دہلی کے بھانجے تھے اور خلافت بھی انھیں سے پائی تھی۔ ان کے بعد ان کے بیٹے شیخ سراج الدین نے ان کے مشن کو آگے بڑھایا۔ شیخ سراج الدین کے بعد ان کے بیٹے شیخ علم الحق ان کے جانشیں و خلیفہ ہوئے۔
مالوہ
مالوہ کا علاقہ ، اب مدھیہ پردیش میں واقع ہے۔ یہ خطہ کسی زمانے میں خاص سیاسی اہمیت کا حامل تھا اور پورے ملک میں ایک مرکزی علاقے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اس علاقے میں حضرت نظام الدین اولیاء کے تین خلفاء نے خاص طور پر کام کیا۔ یہ تھے شیخ وجیہہ الدین یوسف، شیخ کمال الدین اور مولانا مغیث الدین۔
شیخ وجیہہ الدین یوسف رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت محبوب الٰہی نے چندیری روانہ کیا تھا۔ اس علاقے کا کوئی شخص حضرت کے پاس بیعت کے لئے آتا تو آپ اسے شیخ وجیہہ الدین کے پاس بھیجا کرتے تھے۔خلیفہ محبوب الٰہی شیخ کمال الدین ،بابا فرید گنج شکر کے پوتے تھے اور نظام الدین اولیاء سے تربیت پائی تھی۔ انھیں چنبیلی کے پھول دے کر آپ نے مالوہ تبلیغ دین کی غرض سے بھیجا تھا۔ مولانا مغیث الدین اپنے مرشد کی اجازت سے اجین آئے اور دریاکے کنارے قیام فرماکر لوگوں کو فیض پہنچاتے رہے۔ بعد میں چشتی سلسلے کے کچھ اور بزرگ بھی یہاں آئے۔
ہندوستان میں چشتی سلسلے کے بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی ہیں مگر بعدمیں مرکزیت دہلی کو حاصل ہوگئی اور یہیں سے ملک کے کونے کونے میں غریب نواز کا پیغام پہنچا۔ نظام الدین اولیاء کے خلفاء ہر طرف پھیل گئے اور خواجہ غریب نواز کے پیغام کو دور دور تک پہنچایا۔
جواب دیں