ترتیب:عبدالعزیز
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ”اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ اور شیطان کی پیروی سے باز آجاؤ، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے“ (سورہ البقرہ:208)۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی تحفظ اور استثنا کے بغیر اپنی پوری زندگی کو اسلام کے تحت لے آؤ، تمہارے خیالات، تمہارے نظریات، تمہارے طور طریقے، تمہارے معاملات اور تمہاری سعی و عمل کے راستے سب کے سب بالکل تابع اسلام ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زندگی مختلف حصوں میں تقسیم کرکے بعض حصوں میں اسلام کی پیروی کرو اور بعض حصوں کی پیروی سے اپنے آپ کو مستثنیٰ کرلو۔
منافقین کو مخلصانہ اطاعت کی دعوت: ’یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘ کا خطاب اگر چہ الفاظ کے لحاظ سے عام ہے لیکن سیاق کلام کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ روئے سخن ان منافقین کی طرف ہے جن کا ذکر سابقہ آیات میں گزرا ہے۔ ان سے یہ کہا جارہا ہے کہ تمہاری اطاعت کا اصل رشتہ صرف اللہ سے نہیں بلکہ تم نے اس اطاعت کو مختلف آستانوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ تم اللہ سے اطاعت کا دم بھرتے ہو لیکن ساتھ ساتھ اسلام کے مخالفین سے بھی تمہارے اطاعت کے رشتے قائم ہیں۔ اسلام کے آنے سے پہلے اوس و خزرج کے لوگ بھی اور مدینہ کے گرد و نواح میں رہنے والے قبائل بھی یہود سے حلیفانہ تعلق رکھتے تھے اور جن کا تعلق حلیفانہ سطح تک نہیں پہنچا تھا، وہ بھی مختلف کاروباری رشتوں میں منسلک تھے۔ جب اسلام آیا تو ایمان لانے والوں میں اکثریت تو مخلص مسلمانوں کی تھی لیکن کچھ لوگ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں جیسے ایسے ضرور موجود رہے جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن یہود سے تعلقات سے دستبردار بھی نہیں ہوتے تھے، بلکہ بعض دفعہ مسلمانوں کی خبریں انھیں پہنچاتے تھے اور ان کے مفادات کی نگرانی کرتے تھے۔ مدینہ کے اطراف و جوانب میں رہنے والے قبائل کے بعض لوگوں کا حال ان سے بھی بدتر تھا۔ وہ آکر اسلام کا اظہار کرتے تھے لیکن در پردہ یہود سے اخلاص کا رشتہ رکھتے تھے؛ چنانچہ ایسے ہی لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورۃ محمد میں ارشاد فرمایا گیا ہے: ذالک بانھم قالوا للذین کرھوا ما نزل اللہ سنطیعکم فی بعض الامر واللہ یعلم اسرارہم۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ منافقین نے ان لوگوں سے جنھوں نے اللہ کی اتاری ہوئی چیز کا برا منایا، یہ کہاکہ ہم بعض معاملات میں آپ ہی لوگوں کی اطاعت کریں گے۔ اللہ ان کی اس رازاری کو خوب جانتا ہے۔
یہاں لِلَّذِیْنَ کَرِھُوْا سے اشارہ یہود اور مشرکین کے لیڈروں ہی کی طرف ہوسکتاہے۔ سورہ نساء میں ان کی اس منافقانہ روش کو پوری طرح نمایاں کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا: ”ذرا ان لوگوں کو دیکھو جو مدعی ہیں کہ وہ اس چیز پر ایمان لائے ہیں جو تم پر اتری ہے اور اس چیز پر بھی جو تم سے پہلے اتری ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات فیصلہ کیلئے طاغوت کے پاس لے جائیں، حالانکہ ان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس کا انکار کریں۔ شیطان چاہتا ہے کہ ان کو بڑی ہی دور کی گمراہی میں پھینک دے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی طرف آؤ جو اللہ نے اتاری ہے اور رسول کی طرف تو تم ان منافقین کو دیکھتے ہو کہ وہ طرح طرح سے گریز کی راہیں اختیار کرتے ہیں“۔
طاغوت سے مراد: یہاں طاغوت سے مراد یہود کی عدالتیں ہیں۔ یہود نے اپنی کتاب میں ترمیم و تحریف کے ذریعے بہت سے احکام اپنی خواہشات کے مطابق کردیئے تھے اور مزید یہ کہ ان کی عدالتوں میں ہماری عدالتوں کی طرح رشوت کا کاروبار چلتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہئے کہ وہاں انصاف بکتا تھا۔ اس لئے جب کبھی ایسے لوگوں کو کوئی معاملہ پیش آتا جس کیلئے عدالت میں جانے کی ضرورت ہوتی تو وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں آنے کے بجائے یہود کی عدالت کا رخ کرتے تھے تاکہ وہ رشوت کے ذریعے یا ان کے قانون کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ کرانے میں کامیاب ہوجائیں اور جب ان سے یہ کہا جاتا کہ تم ایمان و اسلام کا دعویٰ کرنے کے باوجود یہود کی عدالتوں میں کیوں جاتے ہو۔ کیا تمہارا ایمان تمہیں اس کی اجازت دیتا ہے تو مختلف حیلوں بہانوں سے اپنی روش کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔ وفاداری کی یہ تقسیم جس نے منافقین کو دو کشتیوں کا سوار بنا دیا تھا، اس آیت کریمہ میں اسی بات سے روکا جارہا ہے کہ تم اگر واقعی مومن ہو اور تمہاری اسلام سے وابستگی کا دعویٰ سچا ہے تو پھر تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ۔
کَآفَّۃً کا مفہوم: میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ کآفۃ حال ہے اور اس کا ذوالحال ادخلوا کی ضمیر خطاب بھی ہوسکتی ہے اور السلم بھی ہوسکتا ہے۔ اگر اسے ادخلوا کی ضمیر سے حال مانیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم مکمل طور پر اسلام میں داخل ہوجاؤ۔ تمہارا کوئی رشتہ بھی اسلام کے سوا کسی اور سے نہیں ہونا چاہئے۔ تم جس طرح ایک مسلمان کی حیثیت سے نماز پڑھتے ہو اور تمہارا جسم اللہ کے سامنے جھکتا ہے، اسی طرح تمہارے دل و دماغ کی قوتوں کو بھی اللہ کے سامنے جھکنا چاہئے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تم نماز تو اللہ کیلئے پڑھو لیکن تمہارا دماغ اس کے دیئے ہوئے شرعی احکام سے مطمئن نہ ہو۔ کبھی تمہیں اسلامی تہذیب پر اعتراض ہو، کبھی اسلامی تمدن پر اورکبھی اسلامی ثقافت پر، کبھی اس کے دیئے ہوئے آئین پر، کبھی اس کی قانونی دفعات پر۔ مختصر یہ کہ تمہارے جسم کے ایک ایک عضو کے ساتھ ساتھ تمہارے دل و دماغ کی ایک ایک صلاحیت اور ایک ایک احساس اسلام سے وابستہ ہونا چاہئے۔ تم ایک مسلمان کی طرح زندگی گزارو اور ایک مسلمان کی طرح سوچو۔
اور اگر ہم کآفۃ کو السلم سے حال بنائیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح تمہاری پوری شخصیت کو اسلام کی تصویر بننا چاہئے۔ اسی طرح مکمل اسلام کو تمہارا عقیدہ اور تمہارے عمل کی روح بننا چاہئے۔ تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں اسلام کے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو تو مانتا ہوں لیکن اس کی معاشرت، اس کی معیشت، اس کی تہذیب، اس کی سیاست، اس کے آئین اور اس کے طرز حکومت کو نہیں مانتا۔ ان چیزوں کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں۔ اسلام چند عقائد اور چند عبادات کی رسموں کا نام ہے۔ مولویوں نے بلا وجہ اسے ایک مکمل نظام بنا دیا ہے۔ اس میں فوجداری، مالیاتی اور عائلی قوانین کا کوئی تصور نہیں۔ پاکستان کے ایک مشہور ماہر قانون گزرے ہیں جن کا تعلق سندھ سے تھا اور وہ وزیر قانون بھی رہے۔ وہ علامی شہرت کے قانون دان ہونے کے باوجود ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ اسلام میں کوئی نظام نہیں اور نہ اس کا اپنا کوئی آئین ہے۔ تفہیم القرآن مکمل ہونے پر جو تقریب منعقد ہوئی، اس میں انھوں نے خود تسلیم کیا کہ میں اسلام کو ایک نظام زندگی ماننے کیلئے ہر گز تیار نہیں تھا لیکن اتفاق یہ ہوا کہ اس سلسلے میں مولانا مودی مرحوم سے میری مراسلت ہوئی۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ قرآن کریم سے میری بے خبری ہے، جس کی وجہ سے میں اتنی بڑی گمراہی کا شکار تھا۔ قدرت اللہ شہاب صاحب کی وفات پر غالباً مدیر تکبیر جناب صلاح الدین مرحوم کا ایک مضمون چھپا تھا، جس میں انھوں نے اسلام آباد میں شہاب صاحب سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا، جس میں جناب نعیم صدیقی صاحب مرحوم بھی موجود تھے، اس میں شہاب صاحب نے تسلیم کیا کہ ہم لوگ تو ساری عمر فائلوں کی ورق گردانی میں لگے رہتے ہیں۔ کبھی اسلام کا گہرا مطالعہ نہیں کیا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اپنے طور پر اسلام کے بارے میں ایک رائے قائم کرلیتے ہیں پھر اس پر جمے رہتے ہیں۔ انھوں نے صلاح الدین صاحب سے کہاکہ اگر میں آپ کا مضمون نہ پڑھتا جو آپ نے مولانا مودودیؒ پر لکھا اور میرے بعض خیالات پر تنقید کی تو میں ہمیشہ یہی سمجھتا رہتا کہ واقعی اسلام نے ہمیں کوئی نظام نہیں دیا۔ اس کے بعد میں نے خود قرآن حکیم کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے یقین آیا کہ میں واقعی غلطی پر ہوں۔ یہ میں نے آپ کے سامنے دو صالح دانشوروں کے واقعات ذکر کئے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ لوگوں کا اصل مسئلہ کیا ہے اور کس طرح ان کی وفاداریاں مختلف حصوں میں بٹی ہوئی ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ عہد نبوتؐ کے منافقین تو اپنی منقسم وفاداریوں کے باعث منافق کہلائے لیکن آج کے مسلمان کونہ جانے کیا نام دیا جائے کہ اس نے اپنی شخصیت کو بھی مختلف حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور اسلام کا بھی ایک من پسند سیٹ اپ یا قالب تیار کر رکھا ہے، جس میں وہ قرآن و سنت کی وضاحتوں کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ان کی مثال اس شخص کی ہے جس نے ایک مصور سے اپنے بازو پر شیر کی تصویر گودنے کیلئے کہا تھا۔ مصور نے جب بازو سے ماس نکال کر رنگ بھرنے کا آغاز کیا تو اس نے پوچھا کہ کیا بنا رہے ہو۔ کہا دم بنا رہا ہوں۔ کہنے لگا دم بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ کون سا سچ مچ کا شیر ہے۔ پھر اس نے سوئی چبھوئی، تکلیف ہوئی۔ پوچھا اب کیا بنا رہے ہو۔ کہا ٹانگیں بنانے لگا ہوں۔ کہنے لگا کہ یہ کوئی سچ مچ کا شیر ہے جو کہیں بھاگ کر جائے گا۔ غرضیکہ وہ
جس عضو کو بنانے کیلئے سوئی چبھوتا، تصویر بنوانے والا تکلیف کی شدت کی وجہ سے اسے روک دیتا۔ مصور نے تنگ آکر پرکار زمین پر رکھ دی اور کہا اللہ نے تو ایسا شیر پیدا نہیں کیا۔ جس کا کوئی عضو نہ ہو اور وہ پھر بھی شیر ہو۔ ہمارا آج کے دانشور، سہیاست دان اور حکمران ایسے ہی اسلام کی تصویر چاہتے ہیں۔ جس میں سوائے چند رسوم کی پابندی کے اور کچھ بھی نہ ہو اور باقی ان کی پوری زندگی پر غیر اللہ کی حکومت ہو۔ جس طرح عہد نبوت کا منافق اپنی منقسم وفاداری کے باعث اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں تھا اور اسے حکم دیا گیا تھاا کہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ۔ آج کے مسلمان کو بھی حکم دیا جارہا ہے کہ اللہ کی وفاداری کو تقسیم کرنا، اس کے اسلام میں غیر اسلام کو داخل کرنا یہ شرک ہے، جسے پروردگار کبھی برداشت نہیں کرتا۔
باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے …… شرکت میانہئ حق و باطل نہ کر قبول
اسلام مکمل نظام حیات ہے: اسلام جس طرح اپنے عقائد رکھتا ہے، اسی طرح اپنا ایک نظام زندگی بھی رکھتا ہے۔ توحید، رسالت اور آخرت اس کے عطا کردہ عقائد ہیں۔ ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح اس کی معاشرت، معیشت، اخلاق، معاملات، سیاست، آئین اور آداب زندگی میں بھی کوئی تبدیلی اور قلم کاری قابل برداشت نہیں۔ یہ وہ خالص راستہ ہے جس پر چلنا ایمان کا اولین تقاضا ہے۔ اس کے علاوہ جتنے راستے ہیں، وہ شیطان کے راستے ہیں اور ان پر چلنا شیطان کا اتباع کرنا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ شیطان کا اتباع مت کرو اور تمہیں خوب معلوم ہے کہ شیطان تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے۔ اس نے تمہارے باپ آدم کو جنت سے نکلوانے کی کوشش کی۔ اس نے آدم کے سامنے جھکنے سے انکار کیا اور اللہ کے حکم سے سرتابی کی۔ اور جب اسے وہاں سے نکال دیا گیا تو اس نے چیلنج کیا کہ میں آدم کی اولاد کو اللہ کے راستے پر چلنے نہیں دوں گا۔ میں ہر طرح سے انھیں گمراہ کروں گا۔ فکری راستے سے بھی حملہ کروں گا اور تہذیبی و تمدنی راستے سے بھی۔ تعلیم کے ذریعے سے میں ان کے تصورات بگاڑ دوں گا۔ میں ان کے سامنے آرزوؤں اور امیدوں کے ایسے جال پھیلاؤں گا جس کی وجہ سے یہ اسلام کے راستے پر ثابت قدم نہیں رہ سکیں گے۔ قرآن کریم نے اس کی ان تمام باتوں کو دہرایا تاکہ مسلمان اس کی دشمنی کو اچھی طرح سمجھ لے اور اس کی گمراہ کن کوششوں سے بچنے کی کوشش کرے۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ انسان قدم قدم پر اس کا اتباع کرتا ہے اور پھر اسے گالی بھی دیتا ہے۔ وہ جن راستوں پر چلانا چاہتا ہے بڑی آمادگی سے انہی راستوں پر چلتا ہے لیکن وہ اسے احساس ہی نہیں ہونے دیتا کہ تم شیطان کے راستے پر چل رہے ہو۔ (تفسیر روح القرآن)
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
یکم جنوری 2020
جواب دیں