پرگیہ ٹھاکر ۔ دہشت پسند پریوار کا دہشت گرد چہرہ

اس ایک چہرہ میں آبا دہیں کئی چہرے 

عبدالعزیز

پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا نام اس وقت سے کچھ زیادہ ہی اخباروں اور ٹی وی نیوز چینلوں پر آنے لگا ہے جب سے سابق وزیر اعلیٰ مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان نے بھوپال لوک سبھا حلقہ کیلئے بی جے پی امیدوار کی حیثیت سے اس کا نام اعلان کیا ۔ جس نشست میں اعلان ہوا کچھ اس طرح کا اعلان ہوا کہ جیسے ملک کی کسی نامور اور بڑی شخصیت کا نام اعلان کرنے جارہے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ بی جے پی نے بہت ہی سوچ سمجھ کر سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بھوپال لوک سبھا حلقہ کیلئے بی جے پی کے امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ریاست کا سابق وزیر اعلیٰ ایک دہشت گرد کے نام کو کتنی عزت و اکرام کے ساتھ لے رہا ہے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس کے دل میں پرگیہ کا کتنا احترام ہے۔ گزشتہ روز مسٹر نریندر مودی نے بھی پرگیہ کے نام کے اعلان کو حق بجانب ٹھہرایا ہے۔ اس سے ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ چوہان اور مودی کو سنگھ پریوار کے دہشت گرد کتنے پسند ہیں۔ بہتوں کو حیرت اور تعجب ہے کہ بی جے پی نے کیسے ایک دہشت گرد خاتون کو لوک سبھا کیلئے امیدوار بنایا ہے۔لیکن مجھے اس پہ حیرت ہے کہ لوگوں کو کیوں حیرت ہے؟ جبکہ وہ جانتے ہیں کہ آر ایس ایس جو بی جے پی کی مدر تنظیم ہے اس کی دہشت گردی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ناتھو رام گوڈسے سے لے کر پرگیہ سنگھ ٹھاکر تک۔ آج اگر خاتون یا مرد دہشت گردوں کے نام گنائے جائیں جو معروف ہیں تو وہ سیکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ بڑے سے لے کر چھوٹے تک سب کو دہشت گردی، قتل و خون بے حد پسند ہے۔ 
ہندستان میں ہزاروں فسادات کی جو تاریخ ہے اس میں سنگھ پریوار کے بہت سے لوگوں کا نام آتا ہے۔ نریندر مودی جب سے وزیر اعظم ہوئے عدم تحمل کا سلسلہ شروع ہوا۔ کئی بڑے صحافی اور مصنف جو دہشت گردی اور قتل و خون کے خلاف لکھنے اور بیان دینے کی بنا پر قتل کئے گئے۔ بہت سے لوگوں کو گائے کے گوشت کے نام پر مار دیا گیا۔ گائے کو ادھر سے ادھر لے جانے کے الزام میں قتل کیا گیا۔ بہتوں کو ٹوپی اور داڑھی رکھنے پر قتل کیا گیا۔ کچھ لوگوں کو محبت کی شادی کرنے پر سر قلم کیا گیا۔ ہجومی تشدد و قتل کا سلسلہ کئی سال سے شروع ہے اور آج تک جاری ہے۔ چند ہفتوں پہلے کشمیریوں کو محض اس لئے مارا پیٹا گیا، ان کا جینا دوبھر کردیا گیا اور انھیں گھر بار چھوڑ کر کشمیر جانا پڑا محض ا س لئے کہ وہ کشمیری تھے اور مسلمان تھے۔ یہ ساری چیزیں مودی۔ شاہ ۔ یوگی اور ان کے دیگر لوگوں نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ پرگیہ ٹھاکر انہی میں سے ایک خاتون ہیں۔ ان کا نام کچھ زیادہ دہشت گردی میں مشہور ہوا کیونکہ وہ کئی بم بلاسٹ کے واقعات میں ملوث پائی گئیں اورانھیں جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ پرگیہ کے علاوہ بی جے پی میں ایسی کئی عورتوں کا نام ہے جو قتل و خون میں پرگیہ سے بھی آگے ہیں۔ نریندر مودی جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو ان کی وزارت کے زمانے میں 2002ء میں فساد ہوا تھا اس میں عورتوں اور بچوں کی فلاح و بہبود کی وزیر مایا کوڈنانی نے مسلمانوں کی ایک بستی کو جس میں ڈھائی تین بوڑھے، مرد ، عورت اور بچے رہتے تھے اسے جلاکر راکھ کر دیا تھا۔ ان کی مدد کیلئے کئی مرد بھی تھے ان میں سے بجرنگی لال کا نام زیادہ مشہور ہوا ، وہ بھی مایا کوڈنانی کے ساتھ جیل کے سلاخوں کے پیچھے گئے۔ سنگھ پریوار نے اس قاتلہ یا دہشت گرد خاتون کو جیل سے باہر کرنے کی حتی الامکان کوشش کی اوراسے کامیابی بھی ملی۔ ایسی بہت سی عورتیں ہیں بی جے پی میں جن کا ظاہراً ملزمہ مایا کوڈنانی یا پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی طرح جرم نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ عورتیں بھی گرفت میں آئی ہوتیں تو ان کا نام بھی پرگیہ کی صف میں گنا جاتا۔ اوما بھارتی بابری مسجد کے گرانے میں آگے آگے تھیں ’’ایک دھکا اوردو بابری مسجد کو توڑ دو‘‘ یہ محترمہ اوما بھارتی ہی کا نعرہ تھا۔ 
دنیا جانتی ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک کے کئی حصوں میں فساد پھوٹ پڑے تھے اور ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔ سادھوی پراچی جن کا بہت سانام ہے۔ سادھی پراچی دیدی، سادھوی پراچی اریہ اور ڈاکٹر پراچی دیدی وغیرہ۔ بابری مسجد کے انہدام میں یہ بھی پیش پیش تھیں۔ ’درگا باہنی‘ کی اساسی چیئرپرسن تھیں۔ وشو ہندو پریشد کی عورتوں کی ونگ کی بھی چیئرپرسن تھیں۔ مسلمانوں کو حرام زادہ کہا تھا۔ اس طرح کی خواتین بی جے پی بھری پڑی ہیں۔ مردوں کی بھی کمی نہیں ہے جو دہشت گردانہ ماحول کو جنم دیتے ہیں اور پسند کرتے ہیں۔ اس لئے میرے خیال سے پرگیہ ٹھاکر کو لوک سبھا کا امیدوار بنانے پر لوگوں کو کوئی حیرت نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ہاں امیدوار بنانے کے بعد جو انھوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کی بددعاؤں سے اے ٹی ایس افسر ہیمنت کرکرے جیسے عظیم سپاہی اور مجاہد کا قتل ہوا اس پر یقیناًپولس افسران اور ملک کے دانشوران اور انصاف پسند شہریوں نے جو غم و غصے کا اظہار کیا ہے وہ بالکل صحیح ہے۔ کیونکہ اس اظہار سے ملک کے ایسے باشندوں اور شہریوں کو جو لوگ بی جے پی کی حمایت کر رہے ہیں ان کو پتہ چلنا چاہئے کہ ایسے لوگ جو ملک کے غیر سنگھی افراد کو ملک دشمن اور قوم دشمن بتاتے ہیں ان کو پتہ چل جائے اور اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ ملک دشمنی اور قوم دشمنی کس کے اندر پائی جاتی ہے؟ 
پرگیہ سنگھ ٹھاکر بھی گرفت میں نہیں آتیں اگر مالی گاؤں کے بم دھماکے کی چھان بین کیلئے مہاراشٹر اے ٹی ایس کی ذمہ داری ایک ایماندار اور غیر جانبدار افسر ہیمنت کرکرے کے سپرد نہ کی گئی ہوتی۔ ہیمنت کرکرے نے جو تفتیش کرنے کا انداز تھا کہ صرف شک و شبہ کی بنا پر لوگوں کو پکڑ لیا جائے ایسی تفتیش کرنے سے انکار کردیا۔ وہ مفروضات قائم کرنے کے بجائے فوج داری قوانین اور پولس کے ضابطے میں درج طریقہ کار کے مطابق پوری شفافیت کے ساتھ تفتیش کرنے لگے۔ ہیمنت کرکے نے اوّلاً جائے واردات پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ وہاں انھوں نے دیکھا کہ ایک موٹر سائیکل پر رکھے ہوئے آر ڈی ایکس جیسے دھماکہ خیز مادے کے ذریعہ یہ دھماکہ کیا گیا ہے۔ اس موٹر سائیکل کے مالک کی تلاش کرتے ہوئے پتہ چلا کہ وہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی ہے۔ پرگیہ سنگھ اَکھل بھارتیہ وِدیارتھی پریشد (ABVP)، ابھینَو بھارت، وشو ہندو پریشد کی ’درگا واہنی‘ جیسی تنظیموں سے وابستہ تھی۔ وہ فوراً گرفتار کرلی گئی۔ اس سے سخت پوچھ تاچھ کرنے پر شام لال ساہو اور شیو نارائن کلسنگرا کے نام ظاہر ہوئے۔ان دونوں کا تعلق آر ایس ایس اور بی جے پی سے تھا۔ انھیں بھی پولس نے گرفتار کیا۔ 
مودی اور شاہ کی پسندیدہ پارلیمانی امیدوار پرگنہ سنگھ ٹھاکر آج ہیمنت کرکرے کو لعنت ملامت کر رہی ہیں اور ان کے قتل کو اپنی بددعاؤں کا نتیجہ بتا رہی ہیں، لیکن 2008ء میں ہیمنت کرکرے کے قتل پر نریندر مودی نے غم کا اظہار کیا تھا اور وہ ہیمنت کرکرے کے اہل خاندان سے تعزیت کیلئے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی، حالانکہ ہیمنت کرکرے کی بیوہ کویتا کرکرے ملاقات کیلئے راضی نہیں تھیں۔ ان کا یہ قول ہے کہ ’’یہ ہمارے کلچر میں شامل ہے کہ جب کوئی بزرگ شخصیت ہمارے گھر آتا ہے تو ہم اس کی عزت اور احترام کرتے ہیں۔ مودی جب ہمارے گھر آئے تو ہمارے گھر کے ایک کمرے میں کچھ دیر بیٹھے اور چلے گئے‘‘۔ نریندر مودی نے ایک کروڑ روپئے از راہ ہمدردی کرکرے کی بیوہ کو دینے کی پیشکش کی جسے بیوہ کویتا کرکرے نے لینے سے انکار کردیا۔ کویتا کو معلوم تھا کہ ہیمنت کرکرے کو سنگھ پریوار کی طرف سے قتل کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ اس لئے وہ قتل کی جانچ کا مطالبہ کرتی رہیں۔ مگر اس وقت کی کانگریسی حکومت نے ان کے مطالبے کو پورا نہیں کیا۔ ملک بھر میں کرکرے کے قتل پر جو بیان پرگیہ ٹھاکر نے دیا ہے اس پر آئی پی ایس افسران نے غم و غصے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور بڑے برے نامور آئی پی ایس افسران نے ہیمنت کرکرے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہیمنت کرکرے ایک ایماندار افسر تھے ان کے خلاف کبھی بھی کوئی الزام نہیں لگا۔ اس کے برعکس پرگیہ سنگھ ٹھاکر دہشت گردی کی ملزمہ ہیں اور انھیں میڈیکل گراؤنڈ پر ضمانت دی گئی ہے۔ بعض افسران نے کہا ہے کہ اگر ان کی بددعاؤں سے لوگوں کو سزا ملتی ہے یا موت ہوجاتی ہے تو آخر وہ مسعود اظہر اور حافظ سعید کو کیوں بددعائیں نہیں دے رہی ہیں؟ کیا یہ لوگ ان کے بھائی بند ہیں؟ ہیمنت کرکرے کو اشوک چکر جیسا ایوارڈ ملا ہے اور انھوں نے دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دی۔ لیکن بی جے پی نے جسے بھوپال کا امیدوار بنایا ہے اس کی شخصیت دہشت پھیلانے، دہشت گردی جیسے کام کو انجام دینے میں مشہور ہے۔ آئی پی ایس افسران کی انجمن کے چیئرمین، ممبئی کے سابق پولس کمشنر جولیو ریبیریو نے پی ٹی آئی کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہیمنت کرکرے ہمارے ملک کے بہترین آئی پی ایس افسران میں سے ایک تھے۔ مہاراشٹر میں کام کرتے ہوئے کسی بھی ایک کام میں نہ ان سے کوئی کوتاہی سرزد ہوئی، نہ ان پر کسی نے کوئی کوئی شکایت کی اور نہ کبھی بھولے سے بھی کوئی غلط کام کیا‘‘۔ 
ایسے بہترین اور فرض شناس افسر کو اگر کوئی دہشت گرد کہتا ہے یا کہتی ہے کہ اسے اس کی بد دعا لگ گئی اور وہ عذابِ الٰہی کا مستحق ہوا تو اسے اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ جو پارٹی یا جو پریوار انھیں اپنا پارلیمانی امیدوار بنا رہا ہے اور اس کو مقام و مرتبہ دینے کی کوشش کر رہا ہے حقیقت میں وہ پارٹی یا پریوار ملک کے سامنے بے نقاب ہو رہا ہے کہ ؂ ’’پرگیہ ٹھاکر کے چہرہ میں آباد ہیں کئی چہرے‘

 

مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 

20اپریل2019(ادارہ فکروخبر)

«
»

بھگوا لہر ٹی وی چینلوں تک محدود کھسک رہی ہے مودی کے پیروں تلے کی زمین؟

مینکا گاندھی اور ساکچھی مہاراج کی دھمکی آمیز سیاست

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے