پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

ترتیب: عبدالعزیز 

    یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ 
    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد بعثت کو اللہ تعالیٰ نے ان دو آیتوں میں بیان کیا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ان آیتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 
    یہ بات نگاہ میں رہے کہ یہ آیات 3  ہجری میں جنگ احد کے بعد نازل ہوئی تھیں جبکہ اسلام صرف شہر مدینہ تک محدود تھا، مسلمانوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی، اور سارا عرب اس دین کو مٹادینے پر تلا ہوا تھا۔ احد کے معرکے میں جو مسلمانوں کی تعداد کو زک پہنچی تھی، اس کی وجہ سے ان کی ہوا اکھڑ گئی تھی، اور گرد و پیش کے قبائل ان پر شیر ہوگئے تھے۔ ان حالات میں فرمایا گیا کہ اللہ کا یہ نور کسی کے بجھائے بجھ نہ سکے گا بلکہ پوری طرح روشن ہو کر اور دنیا بھر میں پھیل کر رہے گا۔ یہ ایک صریح پیشین گوئی ہے جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ اللہ کے سوا اس وقت اور کون یہ جان سکتا تھا کہ اسلام کا مستقبل کیا ہے؟ انسانی نگاہیں تو اس وقت یہ دیکھ رہی تھیں کہ یہ ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ہے جسے بجھا دینے کیلئے بڑے زور کی آندھیاں چل رہی ہیں۔ 
    ”مشرکین“ کو ناگوار ہو، یعنی ان لوگوں کو جو اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسروں کی بندگیاں ملاتے ہیں، اور اللہ کے دین میں دوسرے دینوں کی آمیزش کرتے ہیں۔ جو اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ پورا کا پورا نظام زندگی صرف ایک خدا کی اطاعت اور ہدایت پر قائم ہو۔ جنہیں اس بات پر اصرار ہے کہ جس جس معبود کی چاہیں گے بندگی کریں گے، اور جن جن فلسفوں اور نظریات پر چاہیں گے اپنے عقائد و اخلاق اور تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھیں گے۔ ایسے سب لوگو ں کے علی الرغم یہ فرمایا جارہا ہے کہ اللہ کے رسول کو ان کے ساتھ مصالحت کرنے کیلئے نہیں بھیجا گیا بلکہ اس لئے بھیجا گیا ہے کہ جو ہدایت اور دین حق وہ اللہ کی طرف سے لایا ہے اسے پورے دین، یعنی نظام زندگی کے ہر شعبے پر غالب کردے۔ یہ کام اسے بہرحال کرکے رہنا ہے۔ کافر اور مشرک مان لیں تو، اور نہ مانیں تو اور مزاحمت میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیں تو، رسول کا یہ مشن ہر حالت میں پورا ہو کر رہے گا۔ یہ اعلان اس سے پہلے قرآن میں دو جگہ ہوچکا ہے۔ ایک، سورہ توبہ آیت 33 میں۔ دوسرے، سورہ فتح، آیت 28 میں۔ اب تیسری مرتبہ اسے یہاں دہرایا جارہا ہے (مزید تشریح کیلئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، حاشیہ 32۔ جلد پنجم، الفتح، حاشیہ 51)۔ 
    مولانا امین احسن اصلاحی نے ان آیتوں کی تشریح و تفسیر کچھ اس طرح سے کی ہے:۔ 
    یہ اس سعی لا حاصل کی تمثیل ہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی ہدایت کو اپنی من گھڑت باتوں اور اپنی ایجاد کردہ بدعات سے دبانے کی کوشش کرنا ایسا ہی ہے کہ سورج یا چاند کو اپنے مونہوں کی پھونک سے بجھانے کی کوشش کی جائے۔ فرمایا کہ ان کی یہ کوشش لا حاصل رہے گی۔ اللہ اپنے اس نور کو کامل کر کے رہے گا۔ یہ بہت جلد ہلال سے بدر بنے گا، اگر چہ یہ چیز کفار پر کتنی گراں گزر ے۔ 
    ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی و دین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ و لو کرہ الکافرون (9) 
    یہ ’واللّٰہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون‘  کی وضاحت ہے کہ اسی خدا نے جس نے اپنے نور کو کامل کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے، اپنی ہدایت اور اپنے دین حق کے ساتھ اپنے رسول کو بھیجا ہے کہ اس دین کو اس سر زمین کے تمام ادیان پر غالب کرے اور یہ بات لازماً ہوکے رہے گی اگر چہ مشرکین کو یہ کتنی ہی ناگوار گزرے، اور وہ اس کے خلاف کتنا ہی زور لگائیں۔ 
    اوپر والی آیت میں ’ولو کرہ الکافرون‘ فرمایا ہے جو فی الجملہ عام ہے۔ جس میں وہ سب شامل ہیں جو اس دین حق اور اس رسول برحق کے انکار کرنے والے تھے۔ اس آیت میں ’ولو کرہ الکافرون‘ کے الفاظ ہیں جو خاص مشرکین قریش کیلئے ہیں۔ ان دونوں لفظوں نے مل کر ان تمام مخالف طاقتوں کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے جو اس وقت عرب میں اسلام کی مخالفت کر رہی تھیں۔ گویا ان سب کو چیلنج کیا ہے کہ تمہیں جتنا زور لگانا ہے لگا لو لیکن تم اللہ کے دین کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گے۔ اللہ کا قطعی فیصلہ یہی ہے کہ اس رسول کے ذریعہ سے اس کا دین حق اس سرزمین کے تمام ادیان پر غالب آکے رہے گا۔ چنانچہ یہ بات پوری ہو کر رہی۔ بہت جلد وہ وقت آگیا کہ پورے عرب کے متعلق یہ اعلان ہوگیا کہ اس سرزمین میں دو دین جمع نہیں ہوں گے بلکہ صرف اللہ کے دین ہی کی حکمرانی ہوگی۔ یہی مضمون سورہ توبہ میں ان الفاظ میں گزر چکا ہے: 
    ”وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مومنوں کی پھونک سے بجھا دیں اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو کامل کرکے رہے گا، ان کافروں کے علی الرغم۔ وہی ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ اس کو سارے دین پر غالب کرے، اگر چہ یہ بات مشرکوں کو کتنی ہی بری لگے“۔ (التوبہ9: 32-33) 
    ذاکر محمد اسلم صدیقی صاحب نے مذکورہ آیتوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 
    جزیرہئ عرب کے رہنے والے مختلف مذاہب کے لوگ اس بات پر متفق تھے کہ جس طرح بھی ہو سکے اس نور کو بجھا دیا جائے تو آنحضرتﷺ اسلام کے نام سے پھیلا رہے ہیں۔ قرآن کریم نے اسے تشبیہ کی صورت دے کر ایک سعی لا حاصل قرار دیا ہے؛ یعنی ن کی یہ کاوشیں ایسے ہی ہیں جیسے سورج یا چاند کی روشنی کو کوئی شخص یا انسانوں کا کوئی گروہ اپنے مونہوں کی پھونک سے بجھانے کی کوشش کرے۔ ظاہر ہے کہ کوئی شخص بھی اس میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اور پھر مزید یہ بات کہ اللہ تعالیٰ کا دین جواب ہلال کی شکل میں ہے، اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اسے بدر بنا کر رہے گا؛ یعنی دین کی وہ روشنی جو چراغ کی صورت مسلمانوں کے دلوں میں جل رہی ہے اور ابھی تک مدینہ منورہ کے گھروں میں بھی پوری طرح پھیل نہیں سکی اور لوگ اسے بجھانے کی تدبیریں کر رہے ہیں اور بہت حد تک اس کیلئے پر امید بھی ہیں، لیکن یہ حیرت انگیز پیشگوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس روشنی کو پہلے جزیرہئ عرب کی حد تک اور اس کے بعد معلوم زمین کے بڑے حصے تک پھیلا کے رہے گا۔ دوسری آیت پہلی آیت کے مضمون کی مزید وضاحت ہے کہ جس پروردگار نے اپنے نور کو کامل کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے وہ نور در حقیقت وہ دین ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جسے دے کر بھیجے گئے ہیں اور پیش نظریہ ہے کہ اس دین کو اس سرزمین کے تمام ادیان پر غالب کر دے اور یہ فیصلہ تکمیل کو پہنچ کر رہے گا۔ اگر چہ مشرکین کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
     پہلی آیت کے آخر میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر چہ یہ کفار پر کتنا ہی گراں گزرے اور دوسری آیت کے آخر میں فرمایا کہ اگر چہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار گزرے۔ پہلے کافرون کا لفظ ہے اور اس کے بعد مشرکون کا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافرون سے وہ تمام مخالفین مراد ہیں جو جزیرہئ عرب میں پھیلے ہوئے تھے اور جن کا تعلق مختلف مذاہب سے تھا۔ اور مشرکین سے مشرکین قریش مراد ہیں۔ ان دو لفظوں کے استعمال سے تمام مخالف طاقتوں کا ذکر کر دیا گیا ہے جو اس وقت عرب میں اسلام کی مخالفت کر رہی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہئے کہ تمام مخالفین کو چیلنج کر دیا گیا ہے کہ تم مخالفت میں جتنا زور لگانا چاہو لگالو، لیکن تم اللہ تعالیٰ کے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ اس رسول کے ذریعہ سے اس دین حق کو تمام دینوں پر غالب کرکے رہے گا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آیات جنگ احد کے بعد 3 ہجری میں نازل ہوئی ہیں جبکہ اسلام ابھی مدینہ منورہ تک محددو تھا اور مسلمانوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی اور ابھی کچھ عرصہ پہلے احد کے معرکے میں جو مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑا، اس کی وجہ سے ان کی ہوا اکھڑ چکی تھی اور گرد و پیش کے قبائل ان پر شیر ہوگئے تھے۔ ان حالات میں اس دین کا تمام دینوں پر غالب آنا اور اللہ تعالیٰ کے نور کا کامل ہوکے رہنا ایک ایسی پیشگوئی تھی جس کا اس وقت یقین کرنا آسان نہ تھا، لیکن آج اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ پیشگوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور چند ہی سالوں میں اللہ تعالیٰ کا دین جزیرہئ عرب پر غالب آگیا۔ اور پھر ربع صدی نہیں گزری تھی کہ معلوم زمین کی ایک تہائی کا وہ مقدر بن گیا۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں۔ 
21/ جنوری 2020

 

«
»

سنبھل کا پکا باغ۔ دوسرا شاہین باغ

یہ داؤ بھی الٹا پڑگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے