ترتیب: عبدالعزیز
فلسطین مسلمان ممالک اور مسجد الاقصیٰ کا میزبان ہے۔ فلسطین کی سرحدیں لبنان، اردن، شام اور مصر سے ملتی ہیں۔ اس ملک کا دار الحکومت بیت المقدس ہے۔ طول تاریخ میں فلسطین کی سرزمین پر مسلمان، عیسائی اور یہودی مقیم رہے ہیں۔ خدا کی وحدانیت پر ایمان کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فلسطین میں آمد سے ہوا۔ دین اسلام خلیفہ دوم کے زمانہ خلافت سے فلسطین میں داخل ہوا۔ فلسطین میں اسلام کی آمد کے بعد اموی، عباسی، فاطمی اور عثمانی اس سرزمین پر مسلط رہے۔ مسلمانوں پر عیسائیوں کی کامیابی کے بعد صلیبی جنگوں میں کچھ مدت تک حکومت عیسائیوں کے پاس رہی۔ تاہم کچھ عرصے کے بعد مسلمانوں نے عیسائیوں سے حکومت واپس لے لی۔ 1917ء میں فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ جما لیا اور اسرائیل کے فلسطین پر قابض ہونے کی راہ ہموار کی۔ 1948ء میں اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور یہ قبضہ ابھی تک جاری ہے۔ اس دوران اس ملک میں کئی جنگیں، عوامی تحریکیں اور بڑے پیمانے پر قتل عام ہوتے رہے ہیں۔ دیگر ممالک کی طرح یہاں پر بھی سیاسی جماعتیں سرگرم ہیں کہ جن میں سے مشہور ترین حماس، جہاد اسلامی اور فتح ہیں۔
جغرافیہ: فلسطین بحیرہ روم کی مشرقی پٹی پر واقع ہے۔ یہ ملک مشرق سے شام و اردن، شمال کی جانب سے لبنان اور کچھ حصہ شام جبکہ جنوب کی طرف سے مصر کا ہمسایہ ہے۔ فلسطین کا رقبہ 27 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ ماضی میں شام کے جنوب مغربی علاقے کو فلسطین کہا جاتا تھا۔ البتہ آج کی فلسطینی سرحدوں کی تشکیل برطانوی راج کے تحت کی گئی۔ فلسطین کی آب و ہوا معتدل ہے۔ اس نوعیت کی آب و ہوا زندگی کیلئے مناسب سمجھی جاتی ہے۔ ماضی میں سرزمین فلسطین کو شام کا ہی ایک حصہ سمجھا جاتا تھا، اس لیے عرب اسے جنوبی شام کہا کرتے تھے۔
مشہور ترین شہر:فلسطین کے پہلے شہر کا نام ”ایحا“ تھا کہ جس کی بنیاد 8000 سال قبل مسیح میں رکھی گئی تھی۔ 2500 قبل مسیح کے لگ بھگ عربوں کی فلسطین میں ہجرت کے بعد بہت سے شہر اور علاقے معرض وجود میں آئے؛ منجملہ: بیسان، عسقلان، عکا، حیفا، الخلیل، بیت اللحم اور غزہ۔ اریحا اور غزہ دنیا کے قدیم ترین شہر سمجھے جاتے ہیں۔فلسطین کا ایک اور شہر ناصرہ ہے۔ اس شہر میں حضرت مریمؑ رہائش پذیر تھیں۔ اس لیے عیسائیوں کے نزدیک اس کی خصوصی اہمیت ہے۔قدیمی شہر سامریہ بھی فلسطین کا ایک شہر ہے۔ جس کنویں میں حضرت یوسفؑ کو پھینکا گیا تھا، اسی شہر میں واقع تھا۔ اسی طرح سامریہ حضرت یحییٰ کا محل دفن ہے۔الخلیل چار ہزار سالہ تاریخ کے ساتھ فلسطین کا ایک اہم شہر ہے کہ جسے کسی زمانے میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ رام اللہ فلسطین کا ایک اور اہم شہر ہے۔ فلسطین کا موجودہ دارالخلافہ بیت المقدس بھی اس ملک کا اہم ترین شہر ہے۔ اس شہر میں یہودیت اور عیسائیت جیسے ادیان ظہور پذیر ہوئے۔ اسی طرح مسلمانوں کے قبلہ اول کے عنوان سے مسجد الاقصیٰ اور پیغمبر اسلام کا مقامِ معراج ہونے کے عنوان سے بیت المقدس مسلمانوں کیلئے بھی نہایت اہم ہے۔ بیت المقدس کے دیگر اہم مقامات یہ ہیں: مسجد صخرہ، مقبرہ داؤد نبی، مقام حضرت موسیٰ۔
مختصر تاریخ:مورخین کے نزدیک فلسطین پتھر کے زمانے سے انسانوں کا محل سکونت رہا ہے۔ سرزمین فلسطین اوائل کی خانہ بدوشی سے زمانہ زراعت تک انسانی زندگی میں ارتقا و ترقی کی شاہد رہی ہے۔ فلسطین کا پرانا معروف نام ”سرزمین کنعان“ ہے کیونکہ فلسطین کی طرف ہجرت کرنے والا سب سے پہلا گروہ کنعانی عربوں کا تھا کہ جنہوں نے 3500 قبل مسیح میں فلسطین کی طرف ہجرت کی۔ فلسطین کا نام ان مہاجر اقوام سے ماخوذ ہے کہ جنہوں نے 1200 سال قبل مسیح میں مغربی ایشیا سے اس سرزمین کی جانب ہجرت کی۔ فلسطین میں خدا کی توحید اور یکتائیت کا عقیدہ حضرت ابراہیمؑ کے زمانے سے رہا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے فلسطین میں سکونت اختیار کی اور اس سرزمین پر توحید کو عام کیا۔ آخر کار اسی سرزمین پر آپؑ کا انتقال ہوا اور آپ کو الخلیل شہر میں دفن کیا گیا۔ اس شہر کا نام الخلیل رکھنے کی وجہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقبرہ ہے۔ ابراہیمؑ کے بعد آپ کے بیٹے اسحاق پھر ان کے پوتے یعقوب فلسطین میں ہی مقیم رہے۔ تاہم یعقوبؑ کی اولاد نے مصر کی طرف ہجرت کی۔ یعقوب کے بیٹے بنی اسرائیل کے نام سے معروف تھے۔ یہ لوگ حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد حضرت یوشعؑ کی زیر قیادت فلسطین واپس آ گئے۔ اس کے بعد فلسطین میں گڑبڑ شروع ہو گئی کہ جو طالوت کے زمانے تک باقی رہی۔ پھر حضرت داؤدؑ طالوت کے جانشین ہوئے۔ داؤدؑ نے پورے فلسطین پر حکومت قائم کی اور 1000 قبل مسیح میں بیت المقدس کو اپنا دار الخلافہ قرار دیا۔ داؤد کے بعد ان کے بیٹے سلیمانؑ نے حکومت کی اور اس زمانے سے فلسطین میں وسیع پیمانے پر تعمیر و ترقی شروع ہو گئی۔ صدیوں تک کنعانی عرب فلسطین میں ساکن رہے اور وقت گزرنے کے ساتھ دیگر عرب اقوام کے ساتھ ان کا میل جول بڑھتا رہا۔ اسی طرح کچھ ادوار میں فلسطین کے بعض علاقوں پر یہودی بھی قابض رہے مگر 63 قبل مسیح میں رومی فلسطین پر مسلط ہو گئے اور انہوں نے یہودیووں کو زیر کر لیا۔ 30 عیسوی میں حضرت عیسیٰ کی نبوت کا آغاز ہوا۔ آپ نے اپنی تعلیمات کا آغاز یروشلم شہر سے کیا اور لوگوں کی ہدایت کے فریضے میں مشغول ہو گئے۔ آخر کار عیسائی نظریہ کے مطابق یہودیوں نے انہیں صلیب پر چڑھا دیا۔
اسلام کی فلسطین میں آمد: دین اسلام خلیفہ اول کے زمانے میں فلسطین میں وارد ہوا۔ تاہم اس سرزمین کی فتح 13 ہجری میں حضرت عمرؓ کی خلافت کے دوران چند جنگوں منجملہ خالد بن ولید کی سربراہی میں ہونے والی جنگ اجنابین کے بعد عملی ہو سکی۔ بعض تاریخی کتب کے مطابق تقریبا تین ہزار لوگ اس جنگ میں کام آئے۔
مسلمانوں کی فتح سے اسرائیل کے قبضے تک: حضرت عمر بن خطابؓ کے عہد خلافت میں فلسطین اسلامی مملکت کا حصہ قرار پایا اور بنو امیہ اور بنو عباس کے خلفا اس سرزمین پر حکومت کرتے رہے۔ 358ھ میں فاطمیوں نے فلسطین پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ فلسطین پر تسلط کیلئے انہوں نے قرامطہ اور سلجوقی ترکوں سے جنگ کی۔ اس دوران فلسطین پر تنازعہ بدستور باقی رہا اور فلسطین کی حکومت مصری مملوکوں، مغلوں اور عثمانیوں کو دست بدست ملتی رہی۔ 400 ھ میں عثمانیوں نے فلسطین کا انتظام مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیا۔صلیبی جنگوں اور تقریباً ستر ہزار کے لگ بھگ مسلمان قتل ہونے کے بعد 493ھ میں یورپین عیسائیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ صلیبی جنگوں کے بعد عیسائیوں کی حکومت 88 سال تک قائم رہی۔ مسلمانوں نے صلاح الدین ایوبی کی زیر قیادت جنگ حَطّین لڑنے کے بعد فلسطین کو واپس لے لیا۔ فلسطین پر عثمانیوں کی حکومت 1917ء میں برطانیہ کے قبضے تک قائم رہی۔ برطانیہ کی جانب سے فلسطین پر قبضہ 1948ء تک برقرار رہا۔ یاد رہے کہ برطانیہ نے اپنے تسلط کو 1922ء میں سرپرستی کا عنوان دے رکھا تھا۔ 1936ء میں فلسطینی عوام نے حکومت برطانیہ کے خلاف ایک بڑے انقلاب کا آغاز کیا تھا لیکن برطانیہ اور صیہونیوں کی بدعہدی کے باعث اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اسرائیل کا فلسطین پر قبضہ:1799ء میں نیپولن بوناپارٹ پہلا یورپی لیڈر تھا کہ جس نے یہودیوں کو فلسطین میں ایک یہودی ملک کے قیام کی دعوت دی۔ اس کے سالہا سال بعد 1897ء میں سوئزرلینڈ میں پہلی یہودی کانفرنس منعقد ہوئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ سرزمین فلسطین کو یہودی بنانے کیلئے ایک بامقصد پالیسی پر عمل درآمد کیا جائے۔ انہوں نے اشتعال انگیزی کو دبانے کیلئے یہودی حکومت کی بجائے یہودی وطن کا نام استعمال کیا۔ اس کے باوجود تیس سال کے بعد اور پہلی عالمی جنگ کی ابتدا تک صرف دس فیصد یہودیوں نے اس پالیسی کی حمایت کی اور یہ منصوبہ عملی طور پر ناکام ہو کر رہ گیا۔ اس زمانے میں فلسطین کی کل آبادی کا صرف آٹھ فیصد یہودیوں پر مشتمل تھا اور رقبے کے اعتبار سے بھی صرف دو فیصد سرزمین پر ان کا قبضہ تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں درپیش واقعات کے نتیجے میں 1917ء کو بالفور اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اس اعلامیے میں برطانیہ نے فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا۔ اسی لیے برطانیہ کی فلسطین پر حکومت کے دوران صیہونیوں نے بڑی تعداد میں سرزمین فلسطین کی طرف ہجرت کی۔ اس دوران فلسطین میں یہودیوں کی آبادی میں چھ گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ اس موقع پر یہودیوں نے فلسطین کی 78 فیصد اراضی پر قبضہ کر لیا۔ مقبوضہ علاقوں میں فلسطین کے شمال میں واقع الخلیل، بحیرہ روم کا ساحل، صحرائے نقب اور فلسطین کا مرکزی علاقہ شامل تھا۔ دریائے اردن کا مغربی کنارہ اردن کے زیر انتظام تھا جبکہ غزہ مصری حکومت کے ماتحت تھا؛ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں علاقے صیہونی قبضے سے محفوظ رہے۔ تاہم 1967ء سے 1995ء کے دوران اسرائیل نے مغربی کنارے کے ساٹھ فیصد اور غزہ کے چالیس فیصد علاقے پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ یوں اسرائیل 97 فیصد فلسطین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔یو این این (جاری)
جواب دیں