پاکستان پر بمباری ، الیکشن کی تیاری ،انتخابی اتحاد کی بے قراری

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

عام انتخابات سرپر ہیں اور پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کے بالا کوٹ میں بم برسائے ہیں۔ اس حملے سے پاکستان پر کوئی اثر پڑا ہو یا نہیں مگر بھارت کی اپوزیشن پارٹیوں میں سراسیمگی ضرور ہے۔ان پارٹیوں کے بیچ پہلے سے اتحاد کی بات چل رہی تھی مگر اب ایک پلیٹ فارم پر آنا ان کی مجبوری بن گئی ہے۔قومی میڈیا نے بالاکوٹ حملے کے بعد نریندر مودی کی ایسے پیٹھ تھپتھپائی گویا انھوں نے پاکستان ہی نہیں بلکہ امریکہ کو بھی فتح کرلیا ہو۔ ظاہر ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کے لئے فکرمندی کی بات ہے کہ عام انتخابات سامنے ہیں اورمیڈیا سچائی دکھانے کے بجائے وزیراعظم مودی کے گیت گارہا ہے۔ہم نے پاکستان پر سبقت پائی ہو یا نہیں مگر ہمارے ٹی وی چینل، اسے سقوط بنگلہ دیش سے بڑی جیت قراردے رہے ہیں اور عوام کو سمجھانے کی کوشش میں ہیں کہ ملک صرف اور صرف مودی کے ہاتھوں میں محفوظ ہے لہٰذا عام انتخابات میں آپ کا ووٹ صرف اور صرف بی جے پی کو ملنا چاہئے۔ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے بعد حالات بدلنے کے لئے بی جے پی کو میڈیا کا ساتھ درکار بھی تھا تاکہ وہ عام انتخابات میں شکست نہ کھائے۔اس وقت ایک طرف جہاں پاکستان پرحملے کے بہانے ہمارا قومی میڈیا بھی بی جے پی اور آرایس ایس کا اتحادی بنا ہوا ہے وہیں دوسری طرف الیکشن کے لئے اتحاد کی کوششیں بھی شباب پر ہیں۔بی جے پی خود علاقائی پارٹیوں سے اتحاد کے لئے مری جارہی ہے۔ اپنی جیتی ہوئی سیٹیں دے کر بی جے پی چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد قائم کرنے پر مجبور ہے۔ مہاراشٹر، بہار اور تمل ناڈو میں بی جے پی نے بہت گرکر علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد بنایا ہے جب کہ اترپردیش میں وہ پارٹیاں بھی اسے دھمکی دے رہی ہیں جن کی پنچایت الیکشن جیتنے کی اوقات نہیں ہے۔
بہار میں ذلیل ہوکر بھی اتحاد
بہار میں تب بی جے پی کے ذلت کی انتہا ہوگئی، جب اس نے این ڈی اے کی ایک چھوٹی اتحادی لوک جن شکتی پارٹی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ تین ریاستوں کے اسمبلی الیکشن میں شکست کے بعد بھاجپا کی تمام ہیکڑی نکل گئی ہے اور اب وہ اپنی اتحادی پارٹیوں کے ساتھ جھک کر بھی سمجھوتہ کو تیار نظر آرہی ہے۔ اس کی ایک مثال تو بہار میں دیکھنے کو ملی، جہاں وہ اپنی جیتی ہوئی سیٹیں بھی اتحادی پارٹیوں کے لئے چھوڑنے پر مجبورہوگئی ۔2014 کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی نے بہار میں22سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی مگر اس بار اس نے اعلان کیا ہے کہ وہ محض 17سیٹوں پر چناؤ لڑے گی اور جس جنتادل (یو) کو صرف دوسیٹیں ملی تھیں، اسے وہ 17سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا موقع دے گی۔رام ولاس پاسوان کی ایل جے پی کو 6 نشستیں دی گئی ہیں جب کہ راجیہ سبھا میں ایل جے پی کو ایک نشست ملے گی۔ یہ اعلان، امت شاہ کی دہلی کی رہائش گاہ پر تینوں پارٹیوں کی مٹینگ میں کیا گیا۔ نشستوں کے اعلان کے بعد، وزیر اعلی بہار نتیش کمار نے کہا کہ’’ پاسوان کے ’وقار‘ کا خیال رکھنے کے لئے بی جے پی کو مبارک باد‘‘۔حالانکہ سیٹوں کی تقسیم کا ابھی پہلا مرحلہ طے ہوا ہے۔ دوسرے مرحلے میں یہ طے کیا جائے گا کہ کس پارٹی کے حصے میں کونسی سیٹ آئے گی۔
مہاراشٹر میں بھاجپا کو جھکنا پڑا
بہار کے بعد مہاراشٹر میں بھی بی جے پی کو گرکر اتحادبچانا پڑا۔ شیو سینا اور بی جے پی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ دونوں لوک سبھا انتخاب مل کر لڑیں گی۔ دونوں پارٹیوں نے اعلان کیا کہ مہاراشٹر میں بی جے پی 25 اور شیو سینا 23 لوک سبھا سیٹوں پر اپنے امیدوار اتاریگی۔ اس اتحاد کو بی جے پی کی شکست کی شکل میں دیکھا جارہا ہے۔ سبب یہ ہے کہ شیوسینا نے گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں 20 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا مگر اب وہ زیادہ سیٹیں مانگ رہی تھی اور اس مطالبہ کو منوانے کے لئے ہی وہ حکومت کے خلاف تیور دکھا رہی تھی۔ یہی نہیں شیوسینا نے مہاراشٹر اسمبلی الیکشن کے لئے بھی سیٹوں کا بٹوارہ ابھی سے کرلیا ہے جو رواں سال کے اخیر میں ہی ہونے والے ہیں۔ سمجھوتے کے تحت شیوسینا ریاست کی آدھی سیٹوں پر چناؤ لڑے گی اور مہاراشٹر میں دوبارہ اقتدار میں آنے کی صورت میں دونوں پارٹیوں کے درمیان وزارتیں نصف نصف تقسیم کی جائیں گی۔ واضح ہوکہ 288 رکنی مہاراشٹر اسمبلی میں بی جے پی کے پاس 122 سیٹیں ہیں جب کہ شیوسینا کے پاس محض 63 سیٹیں ہیں، باوجود اس کے شیوسینا نے بی جے پی سے یہ وعدہ لے لیا ہے کہ دونوں پارٹیاں برابر برابر سیٹوں پر الیکشن لڑینگی یعنی بی جے پی کو اپنی جیتی ہوئی سیٹیں بھی سینا کے لئے چھوڑنی پڑینگی۔ شیوسینا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان ایک تنازعہ یہ بھی شروع ہو گیا ہے کہ اگر مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے بعد حکومت بنتی ہے تو وزیر اعلی کس پارٹی کا ہوگا؟اس معاملے میں شیوسینا نے بی جے پی کو دوٹوک کہہ دی ہے کہ وزیراعلیٰ اس کا ہوگا نہ کہ بی جے پی کا۔ادھر تمل ناڈو میں بھی اے آئی اے ڈی ایم کے جیسی علاقائی پارٹی سے بی جے پی جیسی قومی پارٹی نے ذلت آمیز سمجھوتہ کیا۔ ریاست کی چالیس میں سے محض پانچ سیٹیں بی جے پی کو دی گئی ہیں۔ بی جے پی نے یہ بھی وعدہ کیا کہ جن 21ودھان سبھا سیٹوں پر ضمنی چناؤ ہونے جارہے ہیں، وہاں وہ اپنے امیدوار نہیں اتارے گی اور اے آئی اے ڈی ایم کے امیدواروں کی حمایت کریگی۔ 
دباؤ میں بھاجپا
2014 میں بہار کی40لوک سبھا سیٹوں میں سے 22سیٹوں پر بی جے پی کو جیت ملی تھی جب کہ رام ولاس پاسوان کی ایل جے پی کو7سیٹوں پر الیکشن لڑکر6 پر جیت حاصل ہوئی تھی۔ تب این ڈی اے میں شامل رہی اپیندرکشواہا کی پارٹی نے تین سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا اور سبھی سیٹوں پر اسے جیت ملی تھی۔باقی سیٹیں یوپی اے کو گئی تھیں اور جنتادل (یو) کو محض دو سیٹیں ملی تھیں۔ حالانکہ آج بہار کا سیاسی منظر نامہ بدلا ہوا دکھ رہا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال مہاراشٹر کی بھی ہے۔ یہ تبدیلیاں تین ریاستوں میں بی جے پی کی شکست کے بعد دیکھنے میں آرہی ہیں۔سبھی پارٹیوں کو احساس ہورہا ہے کہ اس وقت بی جے پی دباؤ میں ہے ، ایسے میں اس سے زیادہ سیٹیں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ این ڈی اے کی کچھ اتحادی پارٹیاں ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے یوپی اے کی طرف بھی جارہی ہیں اور کچھ جانے کی دھمکی دے رہی ہیں جس کا مقصد دباؤ بنانے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ 
این ڈی اے سمٹ گیا
بی جے پی کے دباؤ میں آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 2014 لوک سبھا انتخابات میں زبردست اکثریت کے ساتھ نریندر مودی کی قیادت میں مرکز کے اقتدار میں آنے والا قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کا کنبہ مسلسل سمٹ رہا ہے۔ ماضی میں،این ڈی اے کی بہت سی جماعتیں الگ ہوئی ہیں۔ آسام گن پریشد (این جی پی)ان میں سب سے آخری پارٹی ہے۔این جی پی سے پہلے، تیلگودیشم سمیت 16 پارٹیوں نے این ڈی اے سے علاحدگی اختیار کی ہے اور کچھ پارٹیاں الگ ہونے کی راہ پر ہیں۔فی الحال این ڈی اے کو چھوڑنے کی دھمکی،دینے والی جماعتوں کی تعداد چار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ سب جماعتیں این ڈی اے چھوڑ جاتی ہیں توایسی پارٹیوں کی تعداد 20تک پہنچ جائے گی۔ یوپی میں اپنا دل اور اوم پرکاش راج بھر کی بھارتیہ سماج پارٹی بھی الگ ہوسکتی ہے۔ میگھالیہ میں نیشنل پیپلز پارٹی بھی این ڈی اے سے الگ ہونے کی دھمکی دے رہی ہے۔ سب سے پہلے بشنوئی کی ہریانہ جن ہت وکاس پارٹی نے این ڈی اے چھوڑا تھا۔اس کے بعد ایم ڈی ایم کے نے ساتھ چھوڑا پھر کیرل کی دو سیاسی پارٹیاں این ڈی اے سے الگ ہوئیں۔اس طرح کل ملاکر 16 پارٹیوں نے علاحدگی اختیار کی۔
کانگریس کی انگڑائی
ملک کے موجودہ سیاسی حالات سے جہاں ایک طرف بھاجپا میں سراسیمگی ہے، وہیں کانگریس کے حوصلے بلند ہیں، حالانکہ پاکستان کے ساتھ مودی سرکار کی تناتنی نے اسے کچھ پریشان ضرور کردیا ہے ۔ کانگریس نے 2019کے فائنل سے پہلے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کا سیمی فائنل جیت لیا ہے اور اب پورے عزم واعتماد کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔ کانگریس نے اپنے ٹرمپ کارڈ پرینکا گاندھی کو بھی میدان میں اتار دیا ہے جس سے اسے کوئی بڑا فائدہ خواہ نہ ہومگر پارٹی کارکنوں میں جوش وخروش پیدا ہوگیا ہے۔ کانگریس اس لئے بھی پورے دم خم سے لڑنا چاہتی ہے کیونکہ اس کے پاس کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں اس نے محض 44سیٹیں پائی تھیں اور اس سے نیچے اس کا اسکور نہیں جاسکتا۔ تین ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں جیت حاصل کراس نے ثابت کردیا ہے کہ مودی اور شاہ کا ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کا سپنا چکناچور ہوچکا ہے اور کانگریس دوبارہ انگڑائی لے کر بیدار ہورہی ہے۔ کانگریس نے مہاراشٹر میں این سی پی کے ساتھ اتحاد کا مرحلہ مکمل کرلیا ہے ۔تمل ناڈو میں بھی ڈی ایم کے کے ساتھ سیٹوں کی تقسیم ہوچکی ہے جب کہ آندھراپردیش، مغربی بنگال،بہار اور جھارکھنڈ میں اتحاد کی بات چل رہی ہے اور دیرسویر ہوہی جائے گا۔ دہلی، ہریانہ اور پنجاب میں عام آدمی پارٹی کے ساتھ اس کا پیچ اٹکا ہوا ہے مگر امید ہے کہ آخری مرحلے میں اروند کجریوال کی پارٹی کے ساتھ سمجھوتہ ہوجائے گا کیونکہ دونوں پارٹیوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ الگ الگ لڑنے کی صورت میں یہاں کی تمام سیٹیں بی جے پی لے جائیگی۔ یہ درست ہے کہ اترپردیش میں اس کا اب تک سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ اتحاد نہیں ہوپایا ہے مگر امیدیں اب بھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ویسے بغیر اتحاد کے بھی کانگریس ،یوپی کی کم از کم ایک درجن سیٹوں پرمضبوط پوزیشن میں ہے۔

«
»

میکدۂ علم وعشق: دارالعلوم وقف دیوبند

گھر گھر دلت مسلم اتحاد پارٹی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے