اس نے تمام نظریاتی اداروں پر قبضہ کرلیا ہے اور اپنے تربیت یافتہ لوگوں کو بٹھا دیا ہے، جو تاریخ و تہذیب سے لے کر سائنس اور تیکنالوجی تک کو متاثر کر رہے ہیں۔ خود وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ گنیش جی پلاسٹک سرجری کا نمونہ تھے تو موہن بھاگوت ہماری تہذیبی تکثیریت سے انکار کر رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت بھارت نظریاتی دوراہے پر کھڑا ہے؟ کیا ملک سوشلزم اور سیکولرزم سے پیچھا چھڑانے والا ہے؟ کیا اب نہرو اور گاندھی کی جگہ ساورکر اور ہیڈگیواڑ کی پالیسی ملک میں رائج ہوگی؟ کیا تاریخ کی جگہ مہابھارت اور رامائن کی کہانیاں پڑھائی جائینگی؟اس قسم کے سوالات یوں تو تب سے اٹھ رہے ہیں جب سے بی جے پی کو اکثریت ملی ہے اور نریندرمودی ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں مگر اب جس طرح سے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کی ملکی اور سیاسی معاملے میں مداخلت بڑھی ہے اس سے ان سوالوں کی سنجیدگی بڑھ گئی ہے۔ سنگھ چیف موہن بھاگوت سرکاری کام کاج میں مداخلت کر رہے ہیں اور پارٹی کے تما م کام کاج ان کی مرضی سے ہورہے ہیں۔ کون وزیر اعلیٰ ہوگا اور کون منتری بنے گا یہ فیصلہ بھی سنگھ کے دفتر میں ہی کیا جارہا ہے۔ بات یہیں تک نہیں ہے بلکہ وہ حال ہی میں دلی آئے تو مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد سے ملاقات کی جن میں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں قسم کے لوگ تھے۔ تعلیم ، صحت، کھیل، موسیقی اور الگ الگ شبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے انھوں نے خطاب کیا اور ان کی باتیں سنیں بھی۔ یادش بخیر کہ ابھی حال ہی میں انھوں نے ایک تقریر کی تھی جسے دوردرشن جیسے سرکاری چینل نے سیدھے ٹیلی کاسٹ کیا تھا۔ اس پر تنازعہ بھی رہا اور کہا گیا کہ یہ سرکاری مشنری کا غلط استعمال ہے۔ آرایس ایس کے لوگوں کو اس وقت مختلف عہدوں پر فائز کیا جارہا ہے اور ظاہر ہے کہ ان کے اپنے نظریات ہیں اور یہ پنڈت جواہر لعل نہرو اور مہاتما گاندھی کے نظریے سے الگ ہیں۔ اس سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ آزادی کے بعد اس ملک میں دوقسم کے نظریات چلتے رہے ہیں۔ایک پنڈت جواہر لعل نہرو اور مہاتما گاندھی کا نظریہ ہے اور دوسرا
ویر ساورکر اور ہیڈگیواڑ کا نظریہ ہے۔ پنڈت نہرو اس ملک کے اولین وزیر اعظم ہوئے جو سوشلزم سے متاثر تھے۔ انھوں نے آزاد بھارت کی پالیسیاں اسی نظریے کے مطابق بنائیں ۔ اسی کے مطابق ہمارا ملک چلتا رہا مگر دوسرے نظریے کے حامیوں کو پہلی بار موقع ملا ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی پالیسی کا نفاذ کریں اور ملک جس ڈھرے پہ ۶۶ سال سے چل رہا ہے اس سے الگ ایک نئے راستے کا تجربہ کریں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس تجربے کی شروعات ہوچکی ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس میں آڑے نہیں آرہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سابقہ پالیسی پوری طرح ختم ہوجائے گی ،پرانا نظریہ دم توڑ دے گا اور اس کی راکھ سے ایک نیا نظام جنم لے گا یا پھر دونوں نظریوں میں ٹکراؤ پیدا ہوجائے گا؟ دونوں میں واضح فرق ہے اور آرایس ایس کے لوگوں کی تربیت اسی دوسرے نظریے کے تحت ہوئی ہے جو یقینی طور پر نظام کہن کو پسند نہیں کرتے۔ حال ہی میں کیرل آرایس ایس کے ترجمان ’’کیسری ‘‘نے جو لکھا ہے کہ’’ نہرو سے اچھا گوڈسے تھا، اسے گاندھی کو نہیں نہرو کو مارنا چاہئے تھا ‘‘یہ بات خواہ مخواہ ہی نہیں لکھی ہے بلکہ اسی تربیت کا نتیجہ ہے۔ اس وقت وزیر اعظم اگرچہ نریندرمودی ہیں مگر سرکار اور اس کی پالیسیوں پر سنگھ حاوی ہے۔ مودی خود سنگھ کے پروردہ ہیں اور ان کے بیشتر منتری سنگھ سے ہیں۔ جن کا ماضی سنگھ سے وابستہ نہیں رہا انھیں بھی منتری بننے کے لئے سنگھ کے آشیرواد کی ضرورت ہے اور وہ قریبی رشتہ بنائے ہوئے ہیں۔ سرکاری افسران اور بیوروکریٹ بھی ان سے ملنا جلنا پسند کررہے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ ان کی خوشنودی کے بغیر آگے اپنے عہدے پر رہنا آسان نہ ہوگا۔
سنگھ کی اثر انداز ہونے کی کوشش
آرایس ایس چیف موہن بھاگوت ان دنوں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے مل رہے ہیں اور ان سے تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ اس کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ انھیں سنگھ کے قریب لایا جائے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ ان پر واضح کردیا جائے کہ اگر ہم سے دور ہوئے تو کوئی اہم ذمہ داری نہیں مل سکتی ہے۔ آج اقتدار سنگھ کے ہاتھ میں ہے اور اس کی مرضی کے بغیر اس ملک میں ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا ہے۔موہن بھاگوت نے گزشتہ ۱۲اکتوبر کو راجدھانی دلی کے پی ایچ ڈی چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں بہت سی اہم شخصیات سے ملاقات کی جن میں کوئی بھی قابل ذکر مسلمان یا عیسائی نہیں تھا۔ ان ملاقاتیوں میں دلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر دنیش سنگھ، گروگوبند یونیورسٹی کے وائس چانسلر انیل تیاگی، AIIMSکے ڈائرکٹر ڈاکٹر ایم سی مشرا، یوجی سی چیئرمین وید پرکاش، ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتہ،کارڈیک سرجن ڈاکٹر نریش تریہان اور ڈاکٹر کے کے اگروال، کوہ پیما سنتوش یادو، ڈانسر سونال مان سنگھ،نیشنل کاؤنسل فار ٹیچر ایجوکیشن کے چیرمین سنتوش پانڈا، یوپی کے سابق ڈی جی پی پرکاش سنگھ، ایمس کے سابق ڈائرکٹر وینو گوپال او ر دوسرے کئی اہم لوگ شامل تھے۔ان سبھی ساٹھ لوگوں کو مٹینگ کی دعوت آرایس ایس دہلی کے چیف کلبھوشن آہوجہ کی طرف سے دی گئی تھی۔ موہن بھاگوت یوں تو کہتے ہیں کہ بھارت میں رہنے والے سبھی ہندو ہیں مگر پتہ نہیں کیوں اس مٹینگ کے سلسلے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو نہیں بلایا گیا۔ بھاگوت نے حاضرین کے سامنے اپنی باتیں رکھیں اور ان کی باتیں سنیں، پھر کہا کہ’’سرکار سنگھ کی نہیں ہے بلکہ ہمارے سوئم سیوک سرکار میں ہیں،آپ کی بات ہم ان تک پہچادینگے۔‘‘انھوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی بدلاؤ صرف سرکارسے نہیں آسکتا بلکہ سرکار اور سماج کے تعاون سے ہی بدلاؤ آسکتا ہے۔
اس وقت جو سیاسی حالات ہیں اور اس مٹینگ سے جو پیغام سامنے آتا ہے اس کے مطابق اب ملک میں کسی بھی اہم عہدے پر آرایس ایس کی مرضی کے بغیر تقرری نہیں ہوسکتی۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کا یہاں کی سیاست میں کوئی اہم کردار نہیں تھا پھر بھی انھیں اس عہدے پر اس لئے بٹھایا گیا کہ وہ آرایس ایس کے آدمی ہیں اور قابل اعتماد ہیں۔مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لئے دیویندر فنڈوِس اور نتن گڈکری نے آرایس ایس چیف کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ یہ سنگھ کی شاکھاؤں کے تربیت یافتہ ہیں۔ اسی طرح اس مٹینگ میں شریک ہونے والے تمام افراد اگرچہ سنگھ کے حامی نہیں تھے مگر ان میں بیشتر لوگوں کو امید تھی کہ سنگھ سرسنگھ چالک سے اچھے تعلقات کے سبب نئی سرکار میں ان کی اہمیت بنی رہے گی۔ کچھ لوگ صرف ان کی باتیں سننے اور حالات کو بھانپنے گئے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر کے کے اگروال کا کہنا تھا کہ ہم نے صحت کے شعبے میں اصلاح کی بات کہی اور کہا کہ اس کے لئے مخصوص فنڈ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے۔نیز صحت کے تعلق سے بیداری پیدا کی جائے۔ڈاکٹر تریہان کا کہنا تھا کہ یہاں صرف اور صرف صحت کے تعلق سے ہم نے باتیں کیں اور کسی بھی قسم کی سیاست یا مذہب پر گفتگو نہیں ہوئی۔ ایمس کے ڈائرکٹر نے اپنی بات رکھتے ہوئے موہن بھاگوت سے کہا کہ پریویٹ سیکٹر بھی صحت کے شعبے میں اہم کردار نبھاسکتا ہے اور سرکاری اسپتالوں کا بوجھ کم کرسکتا ہے۔ ڈانسر سونال مان سنگھ کا کہنا تھا کہ آرایس ایس ایک ایسی سماجی تنظیم ہے جوپوری طرح قوم و ملک کے لئے وقف ہے۔ ہم نے یہاں بات کی کہ فن کے ذریعے کیسے ہندوستانی ثقافت کو پروموٹ کیا جاسکتا ہے اور اسے تعلیم کا حصہ کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ یوجی سی کے چیرمین ویدپرکاش کا کہنا تھا کہ ہم نے ان سے مطالبہ کیا کہ اب تک تعلیم کے سلسلے میں مختلف کمیٹیوں کی رپورٹیں آچکی ہیں جن کا نفاذ ہونا باقی ہے لہٰذا اس سلسلے میں قدم اٹھایا جائے۔جب کہ تشار مہتہ کا کہنا تھا کہ وہ صرف لوگوں کو سننے آئے تھے اور انھوں نے سنا۔ دلی آرایس ایس کے پرچار وبھاگ کا کہنا ہے کہ یہ مٹینگ بس روٹین کا حصہ تھی ۔ پہلے بھی اس قسم کی مٹینگیں ہوتی رہی ہیں۔
نہرو کی روح کے قاتل؟
آرایس ایس خود کو لاکھ ایک تہذیبی جماعت کہتی رہے مگر اس کے نظریات کچھ ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔یہ بار بار سامنے آتے رہے ہیں حال ہی میں میں آر ایس ایس کے نظریے کا ایک روپ ملیالم میگزین ’’کیسری‘‘میں سامنے آیا۔اس میں شائع ایک مضمون میں کہا گیا کہ گوڈسے نے غلطی کی کہ اس نے گاندھی کو مارا اور پنڈت جواہر لعل نہرو کو نہیں مارا۔اس ملک کی تقسیم کے لئے وہی ذمہ دار تھے اور اپنے ذاتی مفادات کے لئے ملک کی تقسیم کرائی۔ کئی تاریخی شواہد کے ذریعے اس مضمون میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ نہرو تقسیم ملک کے لئے ذمہ دار تھے اورانھیں کو مرنا چاہئے تھا۔ یہ مضمون لکھا ہے کہ گوپال کرشنن نے جو کہ گزشتہ لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کے امیدوار بھی تھے۔ اس مضمون کی خبر میڈیا میں آنے کے بعد سنگھ نے اس سے پلہ جھاڑ لیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔ نہرو تقسیم ملک کے لئے ذمہ تھے یا نہیں یہ تحقیق کا موضوع ہے مگر جس طرح سے ان کے قتل کی بات کہیں گئی ہے وہ قابل اعتراض ہے اور آرایس ایس کی سوچ کو بیان کرتی ہے۔ گوڈسے نے اگر نہرو کو قتل کرنے کا نیک کام نہیں کیا تو سنگھ ان کی پالیسیوں کو بدلنے کا کام ضرور کر رہا ہے۔ہمارے ملک کی پالیسیاں یوں تو سوشلزم کے مطابق بنتی تھیں مگر اب ان کا راستہ ہندتو کا ہوگیا ہے۔
نظریاتی دوراہے پر بھارت؟
آج یقینی طور پر بھارت ایک نظریاتی دوراہے پر کھڑا ہے،جہاں ایک طرف اس کا ماضی ہے تو دوسری طرف مستقبل۔نہرو کی پالیسیوں کو اس ملک نے اپنا لیا تھا مگر اب وہ ساورکر کے نظریے کی طرف گامزن ہے۔ آر ایس ایس کوشاں ہے کہ ملک میں ہر سطح پر نظریاتی بدلاؤ لایا جائے لہٰذا سبھی اہم عہدوں پر سنگھ کے لوگ فائز کئے جارہے ہیں۔ ایک طرف تعلیمی سسٹم اور نصاب کو بدلنے کی کوشش ہورہی ہے تو دوسری طرف تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی شروعات ہوچکی ہے۔ اب پلان ہے کہ تمام یونیورسیٹیوں کے وائس چانسلر سنگھ کے پسندیدہ افراد بنائے جائیں اور تعلیم و تاریخ کے شعبے میں تمام اعلیٰ عہدوں پر سنگھ کے نظریات کو آگے بڑھانے والے آئیں۔ ملک کے آئین میں بڑے بدلاؤ کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے اور ایک کمیٹی ان قوانین پر غور کر رہی ہے جنھیں بدلنے کی ضرورت ہے۔اگر یہ تمام بدلاؤ کئے گئے اور پرانی پالیسیوں کی جگہ نئی پالیسیاں لاگو کی گئیں تو بڑا بدلاؤ یقینی ہے مگر یہ تجربہ ہے اور کس حد تک کامیاب ہوگا؟ اس کے اثرات مثبت ہونگے یا منفی؟ دیکھنے والی بات ہوگی۔
حکومت تو اس ملک میں پہلے بھی بی جے پی کی قائم ہوئی تھی اور اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم بنے تھے مگر تب میں اور اب میں فرق ہے ۔ تب پارٹی کو تنہا اکثریت نہیں ملی تھی اور دوسری پارٹیوں کی مدد سے سرکار چلی تھی لہٰذا سنگھ کی طرف سے زیادہ مداخلت ممکن نہیں تھی اب تو پارٹی نے تنہا اکثریت حاصل کرلی ہے اور سنگھ جو چاہے کرسکتا ہے۔ حالانکہ خبر ہے کہ سرکار کے کام کاج میں مداخلت سے اندر کچھ بے چینی بھی ہے مگر یہ لاوہ شاید ہی باہر آسکے کیونکہ سنگھ کی پکڑ سرکار پر مضبوط ہے۔
جواب دیں