نظربازی سے روکنا مقصد ہے ورنہ تمہاری آنکھوں سے اللہ کو کوئی دشمنی نہیں

ذوقِ جمال ترقی کرکے شوقِ وصال کیسے بن جاتا ہے؟

عبدالعزیز

    آج کے حالات میں حیا، پردہ، حجاب اور نقاب ایک بہت بڑے طبقے کو جس میں بدقسمتی سے مسلمان بھی شامل ہیں فرسودہ اور دقیانوسی (Outdated) معلوم ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت غیروں کی دیکھا دیکھی میں وہی سب کچھ کر رہی ہے جو غیر مذاہب کے افراد بے شرمی اور بے حیائی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ عورت مرد کا آزادانہ، بلا روک ٹوک خلط ملط ہر طرح کی بے حیائی اور بے پردگی کا مظاہرہ جسے نئی روشنی، نیا زمانہ سمجھ کر قبول کیا جارہا ہے۔ بے حیائی کے سیلاب میں جہاں لوگ بہہ رہے ہیں وہیں بعض جماعتیں ایسی تربیت دے رہی ہیں کہ ان تربیتوں کے نتیجہ میں جو واقعات سامنے آتے ہیں لوگوں کی زندگیاں بدل جاتی ہیں۔ وہ کتنے بڑے خوش نصیب ہیں جو لوگوں کو اپنے کردار اور اخلاق سے زندگیاں بدل دیتے ہیں اور  وہ کتنے با نصیب ہیں کہ کسی ایک واقعہ یا کسی ایک بات سے ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے  ؎
اللہ اگر تو فیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں …… فیضانِ محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں  (جگرؔ)
    واقعہ پڑوسی ملک کا ہے مگر اسے پڑھ کر یا سن کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں اور دل میں ذرا بھی ایمان ہو تو آدمی اپنی اصلاح کی فکر فوراً کرنے کیلئے تیار ہوجاتا ہے۔ ”کہتے ہیں سراج الحق صاحب سے گذشتہ دنوں ہائی کورٹ کے ایک وکیل صاحب نے ملاقات کی اور جماعت اسلامی میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ سراج صاحب نے خوش آمدید کہا اور اس فیصلہ کی وجہ پوچھی تو ایڈووکیٹ صاحب کی بات سن کر خوشی سے سراج صاحب بھی آبدیدہ ہو گئے۔ وہ بولے سراج الحق صاحب میں عام سا مسلمان ہوں۔ میرا ایک نوجوان بیٹا یونی ورسٹی میں جمعیت میں شامل ہو گیا ہے۔ ایک روز جب ہم سب گاڑی میں کہیں جا رہے تھے کہ راستہ میں سگنل پہ گاڑی رکی تو کچھ لڑکیاں سڑک کراس کررہی تھیں۔ غیر ارادی طور پر میری آنکھوں نے ان کا تعاقب کیا تو میرے اس جوان بیٹے نے پچھلی سیٹ سے ہاتھ بڑھا کر میری آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر میرے برابر بیٹھی اپنی ماں کی طرف کر دیا اور معصومیت سے بولا:
    ”ابو اللہ نے آپ کی آنکھوں کو بس انہیں دیکھنے کی اجازت دی ہے“۔
    سراج صاحب یہ سننا تھا کہ میرے ہاتھ اسٹیرنگ پر کانپ گئے۔گھر پہنچ کر میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ گھر میں تو ہم نے اسے کبھی ایسا کچھ نہیں سکھایا۔ یہ جمعیت اسلامی طلبہ ہی ہے جس نے اس کی یہ تربیت کی کہ جس کی عمر تھی کہ وہ لڑکیوں کو دیکھتا اس نے خود تو نہیں دیکھا الٹا اتنے احترام محبت اور خوبصورت ترین انداز سے باپ کی اصلاح کر دی۔
     وکیل صاحب کی آواز گلو گیر تھی وہ بمشکل بولے:’میں حاضر ہوا ہوں مجھے بھی اپنی جماعت میں شامل کر لیجئیے وہ لٹریچر دیجئیے جو اس دور میں ایسا کردار پیدا کر دیتا ہے مجھے بھی اپنی جماعت میں قبول کر لیجئے“۔اور اتنی عزت کا سبب بننے والی اپنی جمعیت سے فرط محبت میں امیر محترم کی پلکیں بھی بھیگ چکی تھیں۔(خود کلامی-زبیر منصوری)
    دوسرا نصیحت آموز واقعہ: یہ واقعہ مصر کے ایک نوجوان کا ہے جس کا تعلق اخوان المسلمون سے تھا۔ مصری پولس اخوانی نوجوان کا پیچھا کر رہی تھی۔ نوجوان پولس کی گرفت سے بچنے کیلئے ایک اجنبی نوجوان لڑکی جو اس کے بغل سے گزر رہی تھی اسے دیکھنے لگا۔ پولس نے اپنے پولس ساتھی سے کہایہ اخوانی نوجوان ہونہیں سکتا کیونکہ اخوان المسلمون کے تربیت یافتہ نوجوان فتنہئ نظر سے محفوظ ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے پولس نے اس کا پیچھا کرنا چھوڑ دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اخوانی بزرگ نوجوانوں کی کتنی اچھی اور قابل قدر تربیت کرتے ہیں۔ 
    دل کے چور: قانون کی نظر میں زنا کا اطلاق صرف جسمانی اتصال پر ہوتا ہے، مگر اخلاق کی نظر میں دائرہئ ازدواج کے باہر صنف مقابل کی جانب ہر میلان، ارادے اور نیت کے اعتبار سے زنا ہے۔ اجنبی کے حسن سے آنکھ کا لطف لینا، اس کی آواز سے کانوں کا لذت یاب ہونا، اس سے گفتگو کرنے میں زبان کا لوچ کھانا، اس کے کوچے کی خاک چھاننے کیلئے قدموں کا بار بار اٹھنا، یہ سب زنا کے مقدمات اور خود معنوی حیثیت سے زنا ہیں۔ قانون اس زنا کو نہیں پکڑ سکتا۔ یہ دل کا چور ہے اور صرف دل ہی کا کوتوال اس کو گرفتار کرسکتا ہے۔ حدیث نبویؐ اس کی مخبری اس طرح کرتی ہے: 
    ”آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کی زنا نظر ہے اور ہاتھ زنا کرتے ہیں اور ان کی زنا دست درازی ہے اور پاؤں زنا کرتے ہیں اور ا  ن کی زنا اس ر اہ میں چلنا ہے،اور زبان کی زنا گفتگو ہے اور دل کی زنا تمنا اور خواہش ہے، آخر میں صنفی اعضاء یا توان سب اس کی تصدیق کردیتے ہیں یا تکذیب“۔
     فتنئہ نظر: نفس کا سب سے بڑا چور نگاہ ہے، اس لئے قرآن اور حدیث دونوں سب سے پہلے اس کی گرفت کرتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
      ”اے نبی؛ مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہوں کو(غیر عورتوں کی دید سے) باز رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کیلئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے۔ اور اے نبی؛ مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ اپنی نگاہوں کو (غیر مردوں کی دیدسے) باز رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں“۔(النور)
    حدیث میں ہے: ”آدمی زادے! تیری پہلی نظر تو معاف ہے مگر خبردار! دوسری نظر نہ ڈالنا“۔ (الجصاص) 
    حضرت علیؓ سے فرمایا: ”اے علیؓ! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو۔ پہلی نظر تو معاف ہے مگر دوسری نہیں“۔ (ابو داؤد) 
    حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اچانک نظر پڑجائے تو کیا کروں۔ فرمایا فوراً نظر پھیر لو“۔ (ابو داؤد، باب مذکور) 
    جذبہئ نمائشِ حسن: اسی فتنہئ نظر کا ایک شاخسانہ وہ بھی ہے جو عورت کے دل میں یہ خواہش پیدا کرتا ہے کہ اس کا حسن دیکھا جائے۔ یہ خواہش ہمیشہ جلی اور نمایاں ہی نہیں ہوتی۔ دل کے پردوں میں کہیں نہ کہیں نمائش حسن کا جذبہ چھپا ہوا ہوتا ہے اور وہی لباس کی زینت میں، بالوں کی آرائش میں، باریک اور شوخ کپڑوں کے انتخاب میں اور ایسے ایسے خفیف جزئیات تک میں اپنا اثر ظاہر کرتا ہے جن کا احاطہ ممکن نہیں۔ قرآن نے ان سب کیلئے ایک جامع اصطلاح ”تبرّجِ جاہلیہ“ استعمال کی ہے۔ ہر وہ زینت اور ہر وہ آرائش جس کا مقصد شوہر کے سوا دوسروں کیلئے لذتِ نظر بننا ہو، تبرجِ جاہلیت کی تعریف میں آجاتی ہے۔ اگر برقع بھی اس غرض کیلئے خوبصورت اور خوش رنگ انتخاب کیا جائے کہ نگاہیں اس سے لذت یاب ہوں تو یہ بھی تبرج جاہلیت ہے۔ اس کیلئے کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کا تعلق عورت کے اپنے ضمیر سے ہے۔اس کو خود ہی اپنے دل کا حساب لینا چاہئے کہ کہیں یہ ناپاک جذبہ تو چھپا ہوا نہیں ہے۔ اگر ہے تو وہ اس حکم خداوندی کی مخاطب ہے کہ ولا تبرجن تبرج الجاہلیۃ الاولیٰ (الاحزاب:33)۔ جو آرائش ہر بری نیت سے پاک ہو، وہ اسلام کی آرائش ہے اور جس میں ذرہ برابر بھی بری نیت شامل ہو وہ جاہلیت کی آرائش ہے۔ 
    ذوقِ جمال سے شوقِ وصال تک: ”جو شخص مغز شریعت تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہو وہ بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ غضِ بصر کے احکام کن مصالح پر مبنی ہیں اور ان مصالح کے لحاظ سے ان احکام میں شدت اور تخفیف کا مدار کن امور پر ہے۔ شارع کا اصل مقصد تم کو نظر بازی سے روکنا ہے، ورنہ اسے تمہاری آنکھوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ یہ آنکھیں ابتدا میں بڑی معصوم نگاہوں سے دیکھتی ہیں، نفس کا شیطان ان کی تائید میں بڑے بڑے پرفریب دلائل پیش کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ یہ ذوقِ جمال ہے جو فطرت نے تم میں ودیعت کی کیا ہے۔ جہاں فطرت کے دوسرے مظاہر و تجلیات کو جب تم دیکھتے ہو او ر ان سے بہت ہی پاک لطف اٹھاتے ہو تو جمال انسانی کو بھی دیکھو اور روحانی لطف اٹھاؤ مگر اندر اندر ہی اندر  یہ شیطان لطف اندوزی کی لے کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ذوقِ جمال ترقی کرکے شوقِ وصال بن جاتا ہے۔ کون ہے جو اس حقیقت سے انکار کی جرأت رکھتا ہو کہ دنیا میں جس قدر بدکاری ہوئی ہے اور اب ہورہی ہے اس کا پہلا اور سب سے بڑا محرک یہی آنکھوں کا فتنہ ہے؟“ (از: ’پردہ‘)

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

بنت حوا کی خودکشی کا ابن آدم ذمہ دار!! …. عائشہ ،جہیز، شریعت، ہم اور ہمارا معاشرہ

یہ دنیا ہزاروں رنگ بدلتی ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے