نئی زبان سیکھنے کا طریقہ

 

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى

آكسفورڈ

 

       مولانا مفاز شريف ندوى بهٹكل كے ايك نوجوان ندوى فاضل ہيں، اور جامعه اسلاميه بهٹكل ميں مدرس ہيں، انہيں اردو اور فارسى شاعرى سے گہرى دلچسپى ہے، اور فصيح عربى لكهنے پر اچهى قدرت ہے، بہت كم نوجوان ايسے ہوں گے جنہيں ان تين زبانوں پر اتنى اچهى دسترس حاصل ہو، اب ان كا اراده انگريزى زبان كو فتح كرنے كا ہے، اور مجه سے استفسار كرتے رہتے ہيں كه ميں ايك مضمون لكهكر ان كى اور ان جيسے دوسرے نوجوان ندويوں كى رہنمائى كروں، مشغوليت كى وجه سے ان كے استفسار كى طرف توجه نه ہو سكى، آج كچه وقت ملا تو يه مضمون لكهنے بيٹه گيا۔

       اب سوچتا ہوں كه كيا لكهوں؟ كيونكه  انگريزى زبان دنيا كى مقبول ترين زبان ہے، اس كے سيكهنے كى طرف غير معمولى رغبت ہے، جگه جگه اسكول اور مراكز انگريزى زبان سكهانے كا كام كر رہے ہيں، اس موضوع پر سيكڑوں كتابيں اور بے شمار مضامين پہلے سے موجود ہيں اور لوگ ان سے مستفيد  ہو رہے ہيں، كيا ميں اس موضوع پر كوئى نئى بات كہ سكتا ہوں؟ نہيں، اور اگر كوئى نئى بات كہى جائے تو اس كا كيا فائده ہوگا؟

       لہذا ان كا سوال چهوڑ كر ميں نے ايك عمومى مضمون لكهنے كا اراده كيا، اور وه ہے:  ايك  نئى زبان كيسے سيكهى جائے؟ اس مضمون سے عربى، انگريزى اور دوسرى زبانوں كے سيكهنے والے طلبه يكساں مستفيد ہو سكتے ہيں ۔

       يہاں زبان سے مصنوعى  يا ٹكنيكل زبان  مراد نہيں، اس طرح كى زبانيں سيكهنا آسان ہوتا ہے، اور كچه لوگ چند ہفتوں ميں زبانيں سكها ديتے ہيں، ايسے  كورسز بہت مقبول ہيں، اور شايد محدود ضرورتوں كو پورا كرنے كے لئے يه كورسز مفيد بهى ہوں، يہاں ان كورسز پر كوئى تنقيد مقصود نہيں، البته جو لوگ با قاعده زبان سيكهنے كے لئے ان كا رخ كرتے  ہيں وه قابل رحم ہيں، انہيں اپنا قيمتى وقت اور پيسه لگا كر بہت معمولى چيز ملتى ہے، اور وه ہے مصنوعى جملوں كے سمجهنے اور مصنوعى جملوں كے بولنے اور لكهنے كى پهپهسى تربيت، بعض لوگ فخريه كہتے ہيں كه ہم نے مختصر وقت ميں عربى يا انگريزى سيكه لى يا سكهادى، انہيں نہيں معلوم كه  كوئى اچها درخت سالوں ميں تن آور ہوتا ہے، چند ہفتوں ميں گهاس اگتى ہے، يا ككڑى پيدا ہوتى ہے ۔

       بہر حال اس طرح كے  قليل مدتى كورسز كا رواج بڑه رہا ہے، كچه لوگ سنجيده علمى موضوعات پر بهى  ايسے ہى كورسز كے ذريعه  حاصل كى  گئى ڈگرياں لئے پهرتے رہتے ہيں، سب سے پہلے افتاء كا فن شريف بو الهوسوں نے برباد كيا، اب تخريج حديث، اصول حديث، اصول فقه، قواعد فقہيه، مقاصد فقہيه، اسلامى تاريخ وغيره موضوعات كے لئے بهى تاجرانه كورسز تيار كرديئے گئے ہيں، كس كس بات پر نوحه كيا جائے؟ اور كہاں كہاں آنسو بہايا جائے؟

       آمدم بر سر مطلب ۔

       اگر آپ يه سوچتے ہيں كه ميرے پاس كوئى جادو ہے جس كے ذريعه آپ مختصر وقت ميں انگريزى يا اور كوئى زبان سيكه جائيں گے، تو آپ مجهے معاف كريں، مجهے ايسا كوئى ہنر نہيں آتا، ليكن اگر آپ سنجيده ہيں تو ذہن نشين كرليں كه كوئى نئى زبان سيكهنا ايك مشكل كام ہے ۔

اس مضمون ميں  ميرى كوشش ہوگى  كه واضح ہدايات دى جائيں، پہلے يه عرض كيا جائے گا كه آپ كيا نه كريں؟ پهر يه بتايا جائے گا كه آپ كيا كريں؟

 

آپ كيا نه كريں؟

1-   آپ مفرد الفاظ نه ياد كريں اور نه پڑهيں، آپ كو يه بات غلط بتا دى گئى ہے كه جس طرح گهر بنانے كے لئے اينٹيں اكٹها كى جاتى ہيں، پهر ان كو مرتب كركے گهر بنايا  جاتا ہے، اسى طرح پہلے مفرد الفاظ ياد كرنا چاہئے، پهر ان سے جملے بنائے جائيں، اس تمثيل ميں كئى مغالطے ہيں، سب سے بڑا مغالطه اينٹ كو مفرد سمجهنا ہے، اينٹ خود بہت سے مفردات كا مركب ہے ۔

2-   آپ گرامر كى كوئى كتاب نه پڑهيں، گرامر ايك مفيد چيز ہے، ليكن اس كا مرحله بعد ميں آتا ہے، شروع ميں گرامر سيكهنے سے انسان تكلف  اور مصنوعيت كا عادى ہوجا تا ہے، آپ ديكهيں گے كه مدرسوں ميں كتنے لوگ ہيں جو صرف ونحو كے ماہر ہيں، مگر نه وه عربى بول سكهتے ہيں، نه لكه سكتے ہيں، اور نه انہيں زبان كا صحيح ذوق حاصل ہوتا ہے ۔

3-   آپ ڈكشنرى كا استعمال نه كريں، اس كا مرحله بهى بعد ميں آئے گا، اس وقت آپ ڈكشنرى كا استعمال كر سكتے ہيں، اس سے آپ كو محدود فائده حاصل ہوگا، ليكن زندگى ميں كبهى ڈكشنرى كو حرف آخر نه سمجهيں،  عربى، انگريزى يا كسى زبان كى ڈكشنرى اس زبان كا احاطه نہيں كرسكتى ہے، جو لوگ ضرورت سے زائد ڈكشنرياں استعمال كرتے ہيں ان كى زبان محدود ہوتى ہے، اور وه صحيح ذوق سے محروم ہوتے ہيں ۔

4-   آپ مطلوبه زبان كى  كوئى ٹكنيكل يا اصطلاحى كتاب نه پڑهيں، مدارس كے طلبه عربى سيكهنے ميں اس لئے كمزور ہوتے ہيں كه وه عربى سيكهنا شروع كرتے ہيں، اور ساته ہى فقه، منطق، فلسفه وغيره كى كتابيں بهى عربى ميں پڑهتے ہيں، چونكه يه كتابيں عربى ميں ہوتى ہيں اس لئے طلبه يه سمجهتے ہيں كه انہيں پڑهكر ان كى عربى اچهى ہو رہى ہے، جبكه اس كے برعكس مصنوعى زبانيں انہيں بد ذوق بناديتى ہيں، اسى لئے عصرى اداروں كے طلبه كى عربى بہتر ہوتى ہے ۔

 

آپ كيا كريں؟

1-   آپ مكمل جملے سيكهيں،  اور ان لوگوں سے سيكهيں جو  مطلوبه زبان كا ذوق ركهتے ہوں، يعنى وه زبان يا تو ان كى مادرى زبان ہو، يا انہوں نے غير معمولى كوشش سے اہل زبان سے مماثلت بيدا كرلى ہو، يه مرحله ضرورى ہے، اور جہاں  تك ممكن ہو اس مرحله ميں مناسب وقت لگايا جائے ۔

2-   اس كے بعد اہل زبان كى معيارى  كتابيں پڑهى جائيں، ٹكنيكل كتابوں كو زہر سمجهيں، ان كے قريب نه جائيں،   جو لوگ قرآن كے ذريعه عربى سيكهتے يا سكهاتے ہيں وه بهى يہى غلطى كرتے ہيں، ايسے لوگ كوئى زبان كبهى نہيں سيكه سكتے،  آپ وه كتابيں پڑهيں جو عام زندگى كے موضوعات پر ہوں ۔

3-   جب آپ روز مره كى زبان كسى حد تك سيكه ليں تو اديبوں كى كتابيں پڑهيں، معيارى نثر اور معيارى اشعار كا مطالعه كريں، اور اس مطالعه ميں ترتيب كا خيال ركهيں،  اس مرحله ميں اخبارات پڑهنے  سے بچيں، البته گرامر سيكهيں اور بوقت ضرورت كوئى  مفصل ڈكشنرى استعمال كريں ۔

4-   اس كے بعد اچهے مضامين كا خلاصه كرين، يا انہيں اپنے الفاظ ميں بيان كرين، كتابوں پر ريويو لكهيں، اس مرحله ميں آپ كى زبان كسى لائق  ہو جائے گى، ليكن مطالعه جارى ركهيں، اچهى  كتابوں سے دوستى مرتے دم تم قائم ركهيں ۔

 

خلاصه يه ہے كه زبان اس طرح سيكهيں جيسے مادرى زبان سيكهى جاتى ہے، ورنه آپ كى زبان مصنوعى ہوگى، بر صغير ميں  لكهى گئى عام انگريزى كتابيں  اہل زبان كے يہاں مقبول نہيں، ہندوستان كے علماء نے عربى ميں بہت سى كتابيں لكهى ہيں، ان ميں صرف چند كتابيں ہيں جنہيں عرب بلا تكلف پڑهتے ہيں، آپ خود ديكه ليں كه كسى انگريز يا عرب كى تصنيف كرده اردو كتاب آپ كو پسند نہيں آئے گى، بلكه دوسرى زبانوں سے اردو ميں ترجمه كى گئى كتابيں بهى عام طور سے سليس نہيں مانى جاتيں ۔

       جو كچه بتايا گيا ہے يه ايك صبر آزما كام ہے، اگر آپ مستقل مزاجى سے محنت كريں گے تو يقينا كامياب ہوں گے، اور اگر آپ پست ہمت اور جلد باز  ہيں تو كسى كوچنگ سنٹر ميں كوئى قليل المدت كورس مكمل كرليں، اور اس غلط فہمى ميں مبتلا رہيں كه آپ كو انگريزى آگئى ۔

«
»

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 16

’’کیوں‘‘ سے آغاز کریں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے