مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
اللہ رب العزت نے اس کائنات کو پیدا کیا ، انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ، اسے عزت وتکریم کا شرف بخشا، ساری دنیا کو اس کے لیے مسخر کیا ، چاند ، تارے، سورج، دریا ، درخت، پہاڑ، نباتات وجمادات سبھی کچھ انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا ، اور ان بے شمار نعمتوں کو استعمال کرکے ، کھاپی کر جو جسم پروان چڑھا اور دل میں ایمان کی جو حرارت پیدا ہوئی، اسے جنت کے بدلے میں خرید لیا ، ایسا خریدار کوئی دوسرا اس کائنات میں موجود نہیں ہے۔
ایمان کی جو دولت ہمیں ملی اور جس کی وجہ سے ہم مؤمن کہلائے وہ بھی اسی خدا کے فضل سے ملی، اس نے ہمیں مؤمن گھرانے میں پیدا کر دیا اگر کسی دوسرے مذہب والے کے یہاں پیدا کیا ہوتاتو اللہ جانے ہمارا کیاحشر ہوتا، کیونکہ ہم میں سے بیش تر کا ایمان نسلی ہی ہے، ہم نے اس کے حصول کےلئے محنت نہیں کی اور اس کے بقا کی لئے بھی محنت ہماری نہ کے برابر ہے۔
لیکن اللہ بڑا کریم ہے، اس نے انسانوں کو جب دنیا میں بھیجنے کا فیصلہ کیا تو روئے زمین کے پہلے انسان کو نبی بنایا؛تاکہ پہلے دن سے اس روئے زمین پر اللہ کے علاوہ کسی کی پوجا نہ ہو ، یہ سر جسے اللہ نے جسم کے سب سے اوپری حصے میں رکھا ہے، یہ پوری مخلوق کے سامنے بلند رہے،جھکے تو صرف اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے ، مانگے تو اسی سے مانگے ، ہاتھ پھیلائے تو اسی کے سامنے پھیلائے، اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اپنے کو ذلیل ورسوا نہ کرے؛لیکن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کے کھلے ہوئے دشمن شیطان کو بھی بہکانے بھٹکانے اور راہ راست سے دور کرنے کی کھلی چھوٹ دیدی گئی ، چنانچہ شیطان انسانی افکار وخیالات ، اعمال وکردار پر حاوی ہوتا رہا ، اور اپنی ساری طاقت وتوانائی اس نے انسانوں کو جہنم کی طرف لے جانے کے لئے لگادیا ، اللہ دار السلام کی طرف بلاتا ہے اور شیطان جہنم کی طرف لے کر بھاگنا چاہتا ہے جب جب انسانوں پر شیطانیت کا غلبہ ہوا اور بڑی آبادی نے اپنا رخ کفر وعناد کی طر ف کر لیا تو اللہ نے انبیاءورسل کو بھیجا ، احکام وہدایت پر مبنی کتابیں اور صحیفے دیے ، یہ انبیاءورسل انسانوں میں سے ہی بھیجے گیے ؛تاکہ اس کی اتباع اور پیروی آسان ہو ، اگر جناتوں اور فرشتوں میں سے انبیاءورسل ہوتے تو انسان یہ کہہ سکتا تھا کہ جو نبی ہم میں سے نہیں ہے اور جس کے اندر شر کی صلاحیت نہیں ہے، جو اللہ کی نا فرمانی کی قوت ہی نہیں رکھتا، اس کی اتباع انسانوں سے کیوں کر ممکن ہے، جس کے اندر خیر وشر دونوں کی صلاحیت رکھی گئی ہے؛چنانچہ انبیاءورسل آتے رہے، ایک محدود زمانے کے لیے ،متعینہ علاقوں کے لئے، زمانہ ختم ہوا تو دوسرے نبی آگیے، دوسرے علاقہ میں دو سرے نبی مقرر کیے گیے، اور یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوتے ہماے آقا ومولیٰ فخر موجودات سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچا ، اللہ رب العزت نے آپ کی ذات پر اس سلسلے کو بند کر دیا ،اب کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا ، اور نہ دوسری کوئی کتاب آئے گی ، آپ اللہ کے آخری رسول اور قرآن کریم اللہ کی جانب سے بھیجی ہوئی آخری کتاب ہے ۔
اسی خاتمیت کی وجہ سے ضروری ہوا کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو سب کا رسول بنایا جائے چنانچہ زبان مبارک سے اعلان کرنے کی ہدایت کی گئی کہ آپ کہہ دیجئے میں تمام لوگوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں، پھرقرآن کریم آخری کتاب ہے ، اس لیے اس کی حفاظت کا ہر سطح پر انتظام کیا گیا کہ حتی لکھنے کے انداز کو بھی محفوظ کر دیا گیا ، اس میں جو احکام دیے گیے اس کے بارے میں صاف صاف اعلان کر دیا گیا کہ اللہ کے احکام میں تبدیلی نہیں ہوتی ، اللہ کے طریقے بدلا نہیں کرتے اور ان میں الٹ پھیر نہیں ہوا کرتا۔
قرآن کریم اور احادیث رسول میں جو احکام دیئے گئے ہیں وہ اٹل ہیی، تبدیلی کی گنجائش اس میں نہیں ہے، یہ عقل کے بھی مطابق ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت کا بنایا ہوا قانون ایک ایسی ذات پاک کا بنایا ہوا قانون ہے جو اپنی مخلوق کی تمام ضرورتوں اور اس کے فطری اوصاف وکمالات سے پورے طور پر واقف ہے، وہ ایک ہے، اس کا کوئی خاندان نہیں ہے ،کوئی علاقہ نہیں ہے ، کوئی زبان نہیں ، اس کی اپنی کوئی ضرورت نہیں ہے، وہ نہ کھاتا ، نہ پیتا ہے نہ سوتا ہے وہ بے نیاز ہے، اس کا اپنا کوئی مفاد نہیں ہے ، وہ اپنی مخلوق کی ضروتوں سے واقف ہے، پھر اس کا علم پوری کائنات کو محیط ہے ، اس کے علم میں ماضی، حال اور مستقبل کی کوئی تفریق نہیں ہے،اس کے لئے تینوں زمانے یکساں ہیں، وہ جس طرح ماضی اور حال کو جانتا ہے ویسے ہی وہ مستقبل کے تمام پیش آنے والے واقعات وحوادثات ، تغیر وتبدل اور بدلتی قدروں سے واقف ہے، اس لیے اس نے جو قانون بنایا وہ اس کے لا محدود علمی سمندر کا مظہر اتم ہے جس کے مقابلے میں انسان کا علم چڑیا کی چونچ میں اٹھے ہوئے پانی کے قطروں سے زیادہ نہیں ہے۔
انسان کا علم انتہائی محدود ،اور اس کی ضرورتیں لا محدود ہیں، اس کے مفادات نیز قبائلی نسلی اور لسانی تعصب کی وجہ سے ہر دور میں اسے قانون بنانے پر آمادہ کرتا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اس کی ذات برادری اوراس کے علاقے وغیرہ کو پہونچے ، یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کا قانون الگ ہوتا ہے، بلکہ ایک ملک کی بعض ریاستوں میں ریاستی قانون بھی الگ ہوجاتے ہیں، کیوں کہ سب کا اپنا اپنا مفاد ہوتا ہے۔
محدود علم اور مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں سے نا واقف اور مفاد کے تحفظ کی نیت کی وجہ سے انسانوں کے ذریعہ بنائے ہوئے قانون میں تبدیلی کی ضرور ت ہوتی ہے اور Amendmenetہوتے رہتے ہیں، خود ہمارے ہندوستانی قانون کی کتنی دفعات چھیاسٹھ سالوں میں بدل چکی ہیں اور کتنے دفعات کا اضافہ کیا جا چکا ہے۔
اس کے بر عکس اللہ کے بنائے ہوئے قانون میں تبدیلی کی ضرورت کسی مرحلے میں پیش نہیں آتی اور وہ ہر دور کی ضرورتوں کی تکمیل کی صلاحیت رکھتا ہے ،جن ممالک میں الٰہی قانون پر پورے طور پر نہیں ، تھوڑا بہت بھی عمل ہے تو وہ بڑی حد تک مطمئن ہیں اور مال ودولت کی فراوانی اللہ نے ان کو دے رکھی ہے۔
یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مسلمان اللہ کے قانون کا پابند ہے، اور اس کی بقا کے لیے اسے جد وجہد کرنی چاہیے، اس معاملہ میں اگر کسی مسلم ملک نے اللہ کے قانون کا پاس ولحاظ نہیں رکھا اور اس نے اپنے طور پر کچھ تبدیلیاں کر ڈالیں تو اس نے بہت غلط کیا، اس کو دلیل اور ثبوت بنا کر کسی بھی مسلمان کو اس کی تقلید کرنے یاکسی ملک کو اس جیسی تبدیلی کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ کسی مسلمان یا کسی مسلم ملک کا اللہ کے قانون کے خلاف کرنا دوسر ے مسلمان کے لیے نہ حجت ہے نہ دلیل ، مؤمن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند ۔
ہندوستان میں مغلیہ دور حکومت میں اللہ کے قانون کا احترام ملحوظ تھا ، پورے طور پر تو نہیں ، لیکن بڑی حد تک اسلامی قانون کا پاس ولحاظ رکھنے کی روایت قائم تھی ، اور کم از کم الحاد وکفر کی دعوت دینے کی ہمت کسی میں نہیں تھی، لیکن مغلیہ حکومت کے زوال کے بعد انگریزوں کے دور حکومت میں اسلامی قانون کی پامالی کے واقعات کثرت سے ہوئے اور اس کو ختم کرنے کے منصوبے نہ صرف بنائے گیے، بلکہ پورے ہندوستان میں کوشش کی گئی کہ مسلمان اپنے دین ومذہب پر قائم نہ رہیں، اور ان میں ایک ایسی نسل پروان چڑھائی جائے جو جسمانی طور پر ہندوستانی اور دل ودماغ کے اعتبار سے انگریزی تہذیب وثقافت کا نمونہ ہوں، یہی وہ دور ہے جس میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے دار العلوم قائم کرکے اس سیلاب بلا خیز کو روکنے کی عملی جد وجد کا آغاز کیا ، اورجب پورے قانون الٰہی پر عمل در آمد کی شکل باقی نہیں رہی ، تو ایسے قوانین جن کا تعلق مسلمانوں کے آپسی معاملات سے تھا ، مثلا نکاح، طلاق ، خلع ، وراثت ،ہبہ ، پرورش ، وصیت وغیرہ جس میں ہمیں کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے سے سابقہ نہیں پڑتا اور جس میں دونوں فریق مسلمان ہوتے ہیں، ان پر عمل کرنے کی اجازت باقی رہی ، اسے باقی رکھنے کےلئے علماءنے جو قربانیاں دی ہیں، اسکی داستان بڑی طویل ہے، ان قربانیوں کے نتیجے میں مسلم پرسنل لا یعنی شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937ءپر آزادی سے پہلے بھی عمل ہوتا رہا اور آزادی کے بعد بھی دفعہ 25 کے تحت اس آزادی کو باقی رکھا گیا اور واضح کیا گیا کہ ہر مذہب کے ماننے والے کو اپنے معتقدات اور رسم ورواج کے مطابق زندگی گذارنے کی مکمل آزادی ہوگی اور ان کے پرسنل لا سے چھیڑ چھاڑ نہیں کیا جائے گا۔
ہم ہندوستانی مسلمان اسلامی افکار وعقائد اور احکام وہدایات کے پابند ہونے کے ساتھ ہندوستانی آئین کی بھی وفاداری کا دم بھرتے ہیں، اسی لیے جب جب دفعہ 25کے بنیادی حق پر حکومت حملہ کرتی ہے توہم دستورکے تحفظ کے لئے میدان میں کود پڑتے ہیں اور حکومت کو بتاتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کے پرسنل لا کو ختم کرنے کی کوشش در اصل دستور ہند کی خلاف ورزی ہے، اور ہم جیتے جی ایسا نہیں ہونے دیں گے ، اس کے لیے ہی لے پالک بل کی ہم نے مخالفت کی،نفقہ مطلقہ کے مسئلے پر شاہ بانو کیس میں ہم سڑکوں پر آئے اور دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعات کو بچانے کام کیا ، جس کے نتیجے میں متبنی بل اور طلاق کے بعد منٹی ننس کے قانون سے مسلمانوں کو الگ رکھا گیا۔
حکومت خواہ کانگریس کی ہو یا بی جے پی کی، ہر دور میں مسلم پرسنل لا پر شب خوں ما رکر یکساں سول کوڈ لانے کی بات کی جاتی رہی اور اس کے لیے دستور کے رہنما اصول میں سے دفعہ 44کا سہارالیا جاتا رہا ہے، جس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ حکومت تمام شہریوں کے لیے یکساں قانون بنانے کی کوشش کرے گی، اس دفعہ کا سہارا لے کر مختلف موقعوں پر عدالت نے بھی حکومت کو ایسا قانون بنانے کی تجویز رکھی، حالاں کہ جب دستور ساز کمیٹی میں اس دفعہ پر بحث ہوئی تو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے یہ کہا تھا کہ کوئی پاگل اور نادان حکومت ہی مختلف مذاہب، قبائل اور نسلوں کے امتیازات کو نظر انداز کرکے اس قسم کا فیصلہ لے گی۔
ہندوستان کے لا کمیشن نے مختلف موقعوں پر یکساں شہری قانون کے حوالہ سے عوام کی رائے مانگی تھی اور ہر بار مختلف مذاہب قبائل اور طبقات نے اس کی مخالفت کی اور لا کمیشن نے حکومت کو باور کرادیا کہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ 2024کا الیکشن آنے والا ہے، بھاجپا حکومت کے پاس انتخاب کے لیے کوئی ”مُدّا“ نہیں ہے، چنانچہ اس نے ہندو ووٹ کو متحد کرنے کی غرض سے پھر سے لا کمیشن کو عوامی رائے عامہ طلب کرنے کو کہا ہے، لا کمیشن نے صرف ایک ماہ14 جون سے14 جولائی تک کا وقت دیا ہے، اسی درمیان عوام اور مذہبی تنظیموں کو اپنی رائے کمیشن کو دینی ہے، حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کی ہدایت پر بڑے پیمانے پر رائے عامہ یکساں شہری قانون کے خلاف تیار کرنے کی مہم چل رہی ہے، سماج کے ہر طبقہ کو اس کام کے لیے جوڑا جا رہا ہے، ضلع وار دوروں کی ترتیب بن گئی ہے، ادھر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی لیگل کمیٹی اور اس کے ذمہ داران بھی اس کام میں لگ گیے ہیں، نتیجہ چاہے جو ہو، ہم اپنی حد تک کوشش کے پابند ہیں، اس سے ہمیں بھر پور جد وجہد کرنی چاہیے، زیادہ سے زیادہ میل لا کمیشن کو اس کی مخالفت میں جانے چاہیے، جس کا ایک نمونہ لوگوں تک پہونچانے کا کام کیا جا رہا ہے، آپ بھی ساتھ آئیے، اپنے احباب ورفقاءکو اس پر آمادہ کیجئے، یہ اس وقت کا بڑا کام ہے، قائدین کے اگلے قدم کا انتظار کیجئے،مگر ابھی میل بھیجنے سے زیادہ کچھ اور نہ کیجئے۔
مسائل آتے ہیں اور آتے رہیں گے، ہمارے قائدین کی مومنانہ فراست اور حکمت وبصیرت کے ساتھ مخالفت کی وجہ سے ہمیں کامیابی ملتی رہی ہے، اب پھر وقت آگیا ہے، کیونکہ حکومت یونی فارم سول کوڈ کی راہ پر چل پڑی ہے، اس نے عدالت اور لا کمیشن دونوں کو اس کام پر لگا رکھا ہے کہ مسلم پرسنل لا پر سوالات کھڑے کئے جائیں ان سوالات واعتراضات کا سہارا لے کرمسلم پرسنل لا کو دفن کر دیا جائے، لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ مسلم پرسنل لا ہمارے دین وایمان کا لازمی حصہ ہے اورہم اس سے کسی بھی قیمت پر دست بردار نہیں ہو سکتے، اس معاملے میں سارے مسلک اور مکتب فکر کی ایک رائے ہے، مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت بھی انتہائی مضبوط اور عزم محکم کی پیکر ہے،ہمیں امید ہے کہ لے پالک بل او رنفقہ مطلقہ کی طرح اس معاملہ میں بھی فتح، حق کی ہوگی جوہمارے ساتھ ہے
جواب دیں