عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
اللہ رب العزت نے اپنے آخری نبی محمد رسول اللہﷺ کے ذریعہ انسانیت کے نام جو آخری پیغام دیا ہے، اس کامل و مکمل،عالم گیر و انقلاب آفریں پیغام کا نام دینِ اسلام ہے؛ جوزندگی کے تمام شعبہ جات کا احاطہ کرتا ہےاور جس میں حبہ برابر کمی پیشی کی گنجائش نہیں۔ یہ وہ پاکیزہ دین ہے،جس کی اپنی تہذیب وثقافت ہے، اپنی شناخت وپہچان ہے ،اپنی معاشرت و سوسائٹی ہے ۔جس طرح ایک مسلمان،مسلمان ہونے کی حیثیت سے عقائد و عبادات میں دینِ اسلام کا پابند ہے ،بالکل اسی طرح اجتماعی وتمدنی زندگی میں بھی اسلامی حدود کی رعایت و پاس داری اس کا اولین فریضہ ہے ۔ یہ ناقابلِ تردیدحقیقت ہے اور خود تاریخ اس پر شاہد ہے کہ جب تک مسلمان اپنی زندگی میں اِس دین اور اس کی آفاقی تعلیمات پرعمل پیرا رہے اور کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامےرکھا، تب تک وہ دنیاوی اعتبار سے ترقی کی راہوں پر گامزن رہے اورہزاروں سال تک کائنات ارضی کے ایک بڑے حصے پرپورے آب وتاب کے ساتھ حکومت کرتے رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کی دیگر قومیں، مسلمانوں کی نقالی کرنے میں اپنے لیے فخر محسوس کرتی تھیں اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے الفاظ میں یہ صورت حال تھی کہ مسلمان مؤثر تھے اور باقی اقوام متاثر تھیں ۔مگر جب بدعملی ،ناخواندگی اور اسباب عیش و عشرت کی فراوانی کے سبب ہر طرف پستی وادبار کی گھٹائیں چھاگئیں توعروج وسربلندی کا ماہِ درخشاں گھنے بادلوں میں روپوش ہوگیاپھرمسلمانوں کی اکثریت دین بیزارو غفلت شعار ہوئی اور اپنے تہذیبی ورثے کی حفاظت نہ کرسکی۔
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
ایک افسوس ناک واقعہ:
رواں ماہ سوشل میڈیا پر ایک ہفتہ قبل ایک ویڈیو وائرل ہوا؛ جس میں یہ بتایا گیا کہ کچھ برقعہ پوش مسلم خواتین اور اسلامی لباس میں ملبوس کم سن طالبات پوری فرحت و شادانی کے احساس کے ساتھ غیرمسلموں کےمذہبی مراسم یعنی پوجا پاٹ اور رقص و ناچ میں نہ صرف شریک ہیں؛ بل کہ ان کے شانہ بہ شانہ وہ تمام امور انجام دے رہی ہیں جو خالص ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔
اس واقعہ کا حقائق کی دنیا سے کتنا تعلق ہے وہ تو اللہ علیم وخبیرجانتا ہے؛مگریہاں اس بات کا اندیشہ بالکل بجاہے کہ جہالت و بے علمی اور اغیار کے ساتھ اختلاط و میل جول کے سبب ظاہری آنکھیں جو کچھ دیکھ رہی ہیں معاذ اللہ کہیں وہ سچ تو نہیں۔
اگر ہے تو پھر ہمیں اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے،اپنےاعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور منظم منصوبہ بندی کے ساتھ تشبہ بالکفار کے اس فتنہ کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ تاکہ اگلی نسلیں جہالت کی تاریکی سے نکل کر علم کی روشنی میں آسکیں اور اسلامی تہذیب وثقافت کی حفاظت و صیانت کے فریضہ انجام دے سکیں۔
تشبہ بالکفار؛اقسام واحکام :
شریعت مطہرہ کی رُو سے چار قسم کے امور میں کفار کی مشابہت سے روکا گیا ہے۔جو حسب ذیل ہیں:
1: معتقدات یعنی عقائد میں کفار کے ساتھ مشابہت ۔
2:عبادات یعنی عبادت وبندگی میں ان کے طریقے کی پیروی۔
3:جشن وتہوار یعنی خوشی منانے اور مسرت کا اظہار کرنے میں ان کی نقالی۔
4:عادات واطوار یعنی ہیئت کذائی ، ظاہری شکل وصورت ،لباس وپوشاک اور عادات واخلاق میں ان کی موافقت۔
حضرت حکیم الامتؒ نے ہر ایک کا الگ الگ حکم بھی بیان فرمایا ہے؛جس کا خلاصہ درج ذیل ہے :
(1) تشبہ بالکفار اعتقادات وعبادات میں کفر ہے اور مذہبی رسومات میں حرام ہے، جیسا کہ نصاری کی طرح سینہ پرصلیب لٹکانا اور ہنود کی طرح زُناَّر باندھنا ،ایسا تشبہ بلاشبہ حرام ہے۔تشبہ بالکفار امور مذہبیہ میں حرام ہے جو چیزیں دوسری قوموں کی مذہبی وضع ہیں ان کا اختیار کرنا کفر ہوگا جیسے صلیب لٹکانا، سر پر چوٹی رکھنا ’’یا جے‘‘ پکارنا۔
(2) معاشرت،عبادات اور قومی شعار میں تشبہ مکروہ تحریمی ہے مثلاً کسی قوم کا وہ مخصوص لباس استعمال کرنا جو خاص انہی کی طرف منسوب ہو، اور اس کا استعمال کرنے والا اسی قوم کا ایک فرد سمجھا جانے لگے جیسے نصرانی ٹوپی اور ہندوانہ دھوتی، یہ سب ناجائز اور ممنوع ہے اور تشبہ میں داخل ہے۔
(3) اور جوچیزیں دوسری قوموں کی نہ قومی وضع ہیں نہ مذہبی، گوان کی ایجاد ہوں اورعام ضرورت کی چیزیں ہیں جیسے دیا سلائی یا گھڑی یا نئے ہتھیار یا نئی ورزشیں جن کا بدل ہماری قوم میں نہ ہو اس کا برتنا جائز ہے؛ مگر ان جائز چیزوں کی تفصیل اپنی عقل سے نہ کریں بلکہ علماء سے پوچھ لیں ۔ ایجادات وانتظامات اور اسلحہ اورسامانِ جنگ میں غیرقوموں کے طریقے لے لینا جائز ہے جیسے بندوق ہوائی جہاز وغیرہ یہ درحقیقت تشبہ نہیں مگرشرط یہ ہے کہ اس کے استعمال سے نیت وارادہ کافروں کی مشابہت کا نہ ہو، یہ ان ایجادات کا حکم ہے جن کا بدل مسلمانوں کے پاس نہیں اور جوایسی ایجاد ہوں کہ جس کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود ہو تو اس میں تشبہ مکروہ ہے۔
(4) مسلمانوں میں جو فاسق یا بدعتی ہیں ان کی وضع اختیار کرنا بھی گناہ ہے پھر ان سب ناجائز وضعوں میں اگر پوری وضع بنائی تو زیادہ گناہ ہوگا اور اگر ادھوری بنائی تو اس سے کم ہوگا۔(ملخص از انفاسِ عیسی)
تشبہ بالکفار کے نقصانات:
شیخ الاسلام علامہ ابن ِ تیمیہؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب ’’ اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ میں اس مسئلے پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ وہ تحریر فرماتے ہیں:غیروں کی مشابہت اختیار کرنے میں بہت سے نقصانات ہیں ، ہم اختصار کے ساتھ ذیل میں چند کا ذکرکرتے ہیں:
(1)کفر اور اسلام میں ظاہری طور پر کوئی امتیاز باقی نہ رہے گا اور حق مذہب یعنی اسلام دیگر مذاہب باطلہ کے ساتھ بالکل مل جائے گا ۔
(2)غیروں کی معاشرت، تمدن اور لباس اختیار کرنا درحقیقت ان کی سیادت اور برتری تسلیم کرنے کے مترادف ہے ، نیز اپنی کم تری اورکہتری اور تابع ہونے کا اقرار واعلان کرنا ہے اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے تمام اقوام پر برتری عطا فرمائی ہے اور پوری دنیا کا حکمران اور معلم بنایا ہے ، حاکم اپنے محکوم کی تقلید کیوں کرکرسکتا ہے ۔
(3)غیروں سے مشابہت اختیار کرنے سے ان کے ساتھ محبت پیداہوتی ہے ؛جب کہ اسلام میں غیروں سے دلی محبت صراحۃً ممنوع قرار دی گئی ہے۔
(4)آہستہ آہستہ ایسا شخص اسلامی تمدن کا استہزاء اور تمسخر کرنے لگتا ہے، ظاہر ہے کہ اسلامی تمدن کو اگر اہمیت دیتا اور اسے حقیر نہ سمجھتا تو غیروں کے تمدن کو اختیار ہی نہ کرتا ۔
(5)جب اسلامی وضع کو چھوڑ کر اغیار کی وضع اختیار کرے گا تو قوم میں اس کی عزت باقی نہ رہے گی ، ویسے بھی نقل اتارنے والا خوشامدی کہلاتا ہے ۔
(6)دعویٰ اسلام کا ، مگر لباس، کھاناپینا، معاشرت ،تمدن ، زبان اور طرز زندگی یہ سب کام اسلام کے دشمنوں جیسے اختیار کرنے کا معاذاللہ یہ مطلب نکلتا ہے کہ لاؤ !ہم بھی غیر مسلم بنیں اگر چہ صورت ہی میں سہی۔
(7)دوسری قوموں کا طرز زندگی اختیار کرنا اسلام اور اپنی مسلم قوم سے بے تعلقی کی دلیل ہے۔
(8)غیروں کی مشابہت اختیار کرنا غیرت اور حمیت کے خلاف ہے۔
(9)غیروں کی مشابہت اختیار کرنے والوں کے لئے اسلامی احکام جاری کرنے میں دشواریاں پیش آتی ہیں،مسلمان اس کی شکل وصورت دیکھ کرگمان کرتے ہیں کہ یہ کوئی یہودی یا عیسائی یا ہندو ہے۔سلام جیسی پیاری دعا سے محروم رہتا ہے، دنیا میں اس کی گواہی بھی تسلیم نہیں کی جاتی ، اگر کوئی لاش، کافر نما مسلمان کی مل جاتی ہے تو تردد ہوتا ہے کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے یا نہ پڑھی جائے اور اس کو کس قبرستان میں دفن کیا جائے۔
(10)جو لوگ غیروں کے معاشرے کو اپنا محبوب معاشرہ بناتے ہیں وہ ہمیشہ ذلیل وخوار رہتے ہیں، کیوں کہ عشق ومحبت کی بنیاد تذلیل پر ہے یعنی عاشق کو ہمیشہ اپنے معشوق کے سامنے ذلیل وخوار بن کر رہنا پڑتا ہے۔(بحوالہ کلمۂ حق از مولانا منصور احمد)
آتش بازی ایک غیر اسلامی تہوار:
ان دنوں برادران وطن کےایک اہم تہوار"دیوالی"کی تیاریاں عروج پر ہیں اور مسلم بچوں اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اس سلسلہ میں کافی سرگرم نظر آرہی ہے حالاں کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق آتش بازی حرام ہے ؛اس لیے کہ اس کی بنیاد ان عقائد و افکار پر ہے جو خالص مشرکانہ اور دیوی دیوتاؤں سے وابستہ ہے۔ دیوالی کے دنوں میں لکشمی کے بُت کی پوچا دیوالی کی تقریب کا ایک اہم حصّہ ہے۔ جن لوگوں کا یہ عقیدہ ہے ، وہ کیک کاٹیں ، یادئیے جلائیں یہ ان کے مذہب کا حصہ ہے؛لیکن جو مسلمان توحید کا عقیدہ رکھتا ہو، اور لا الہ الا اللہ پر ایمان اس کی شناخت کا لازمی حصہ ہو ، اس کے لئے اس عقیدے کے عملی مظاہرے کا حصہ بننا ہرگز روا نہیں؛کیوں کہ جب مسلمان دیگر اقوام کے تہواروں کو اپنا 'قومی تہوار' سمجھ کر منانا شروع کر دیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلمانوں کی جدید نسل کی اسلامی تہواروں (عیدین) سے جذباتی وابستگی ماند پڑ جاتی ہے اور ان کا تہوار منانے کا فلسفہ ہی بدل جاتا ہے۔ان سب کے باوجود اگر کوئی اس میں حصہ لیتا ہے تو یہ دین میں مداہنت اور اپنے عقیدے کی کمزوری کا اظہار ہے۔
جواب دیں