مغل روڈ۔ایک خواب کی تعبیر

(۱)۔صدیوں پہلے جب اس کا نام ’’مغل روڈ ‘‘نہ تھا بلکہ ’’شاہراہ نمک‘‘ تھا ،تب سے اس پر آمدورفت جاری ہے۔پنجاب اور کشمیر کے تاجروں کا راستہ یہی رہاہے اور ان کا تجارتی مرکز موجود تھنہ منڈی تھا جس کا قدیم نام راج ترنگنی کے مطابق مڈگارویلا (Madgar Villa) ،مسلمان مورخین کے مطابق ٹہٹہ اور مقامی بزرگوں کے بقول’’ تھاہیں منڈ‘‘ تھا۔ تجارتی مرکز بننے کی وجہ سے ’’تھنہ منڈی ‘‘ بن گیا۔
(۲)۔راجوری کے جرال راجہ مست ولی خان (وفات 1601ء)کے زمانہ میں اکبر بادشاہ راجوری آیا اور جرال قوم کو ’’مرزا‘‘ کا لقب عطا کیا۔ پھر جہانگیر بادشاہ کے عہد میں 1605ء4 میں مشہور انجینئر علی مردان خان نے اس گہل نما راستے کو باقاعدہ سڑک بنایا اور اس پر جا بہ جا سرائیں ،مڑھ اور باولیا ں وغیرہ بنائیں تاکہ لاہور اور سرینگر کے درمیان جاتے کاروانوں کو آسانیاں ملیں۔
1601ء4 میں راجوری کامرزا چترسینہہ راجا بنا ،اس کی لڑکی راج بائی سے عالمگیر بادشاہ کی شادی ہوئی جس کے بطن سے بہادر شاہ ، سلطان محمد اور معظم شاہ پیدا ہوئے۔
اسی عہد قدیم سے اس سڑک نے پنجاب سے لیکر صوبہ جموں کے نوشہرہ ، راجوری ،تھنہ منڈی اور پونچھ علاقہ کشمیر سے جوڑ رکھا ہے۔اب اس سڑک کو پھر سے کشادہ کرنے اور سنوارنے سے مغلیہ نشانات ،جو ہمارا قیمتی قومی سرمایہ ہے اور جس کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہو پارہی ہے ، کی دیکھ بھال اسی طرز پہ کی جاسکے گی جس طرز پہ حکومت ہند لال قلعہ (دہلی) اور دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک نادر تاج محل آگرہ وغیرہ کی دیکھ ریکھ کر رہی ہے۔لہٰذا اس سڑک کا بنایا جانا مناسب ہی نہیں ضروری ہے۔
(۳)۔ اس سڑک پر سفر کرنے والے جہاں مغلوں کے تعمیری کارناموں کو دیکھ سکیں گے ‘ وہاں فطرت کے لازوال حسن سے بھی مسرور ہوں گے۔ اونچے اونچے پہاڑ، خوبصورت بانکے جنگل ،برف پوش بلند چوٹیاں ، صاف شفاف چشمے ،خوب صورت جھرنے ،مست چال دریا اور انگنت دوسری خوبصورت جگہیں سیاحوں کا استقبال کریں گی اور سب سے بڑھ کر قریب اسّی(80)فٹ اونچائی سے نرالے انداز سے گرنے والا پانی کا چھم، جسے سترہویں صدی عیسوی میں جہانگیر کے ہمراہ نور جہاں کی آمد پر نوری چھم نام دیاگیا ، سیاحوں کو نورجہاں کا فطرت سے عشق کا وہی تصور دے گا جو تصور ممتاز محل کا آگرہ کا تاج محل مہیا کرتاہے اور تحقیق کرنے والوں کو نوری چھم کے ساتھ جڑی یہاں کے ایک پرانے جاگیرداراور نورجہاں کی کنیز حسن بانو کی محبت اور اس کے انجام سے بھی واقفیت ملے گی اور ایسی کتنی مزید خوبصورت کہانیاں سامنے آئیں گی۔
(۴)۔ اس سڑک کو کھولنے کی خاطر معدودے چند درختوں کو کاٹنے سے جنگلات ختم نہیں ہونگے بلکہ ان جنگلات کو اب نئے مالی ملیں گے۔ 
(۵)۔ اس پسماندہ علاقے کے لوگوں ،بالخصوص جن کے مال مویشی پانچ چھ ماہ کشمیر کی خوبصورت چراگاہوں میں گزارہ کرتے ہیں ، کے لئے یہ سفر نزدیک تر اور آسان تر ہوگا۔ 
(۶)۔ کوئی نا سمجھ یہ باور کرلے کہ اس سڑک کے بننے سے ملی ٹینسی میں اضافہ ہوگا تو اس کی ،کوتاہ فہمی پر صرف اشک ہی بہائے جاسکتے ہیں۔ملی ٹنسی اس سٹیٹ میں یہی کوئی سترہ اٹھارہ سالوں سے آئی ہے جبکہ اس صدیوں پرانی شاہراہ نے کئی انقلاب دیکھے ہیں۔حکومتیں بدلتی رہیں لیکن یہ شاہراہ نہیں بدلی۔پھر یہ کہ اس وقت ہندوستان کی 14ریاستوں میں عسکری تحریکیں چل رہی ہیں تو کیا اسکی ذمہ داری اس سڑک پر ڈالی جائے۔ 
(۷)۔ یہ باڈر روڈ نہیں ہے۔ بارڈر تو بھمبرگلی(Bimber Gali) ہے تو کیا بارڈر روڈ ہونے کی وجہ سے اس اہم سڑک کو نظر انداز کردیا جائے ؟ کبھی نہیں۔ اس کی ترقی اور دیکھ ریکھ گویا ایک علاقہ کی کی شہ رگ کی دیکھ ریکھ ہے۔ اس کو نظر انداز کرنا ہماری نفسیاتی ہار ہوگی۔
(۸)۔ کسی تنگ نظر کا یہ خیال ہوکہ اس سڑک کے کھلنے اور بننے سے جموں سے سرینگر براستہ جواہر ٹنل والی سڑک پر بنے ڈھابوں، دکانوں اور کاروباری مراکز کو زوال آجائے گا ،تو یہ اس کی کم فہمی اور بخل ہے۔ سالہاسال اس شاہراہِ نمک (مغل روڈ)پرآمد ورفت کے بعد جب کئی عیاں وجہہ ، جن میں سیاسی ،اقتصادی وجوہ بھی شامل ہیں، کی بناء4 پر بانہال سے گزرنے والی جموں سڑک پرکام چل پڑا اور پیر پنچال کو دونوں اطراف کو ملانے والی یہ سڑک بند ہوگئی تو 
راجوری پونچھ کے باشندوں نے سٹ پٹانے کی کوشش نہیں کی اور ان کی روزی روٹی جو قدرت نے لکھی تھی، انہیں ملتی رہی اورسرینگر جانے کیلئے انہیں دوگناخرچہ برداشت اور سفر برداشت کرناپڑتارہا۔
یہ بھی کہ جواہر ٹنل والی موجودہ سڑک سرے سے بند تو نہیں کی جارہی کہ وہاں اْجاڑ ہوجائے گا اور پھر یہ بھی کہ اگر اس شاہراہ (مغل روڈ) پہ بسنے والوں کو بھی کچھ آسانیاں میسر آجائیں تو ان سے حسد کیوں۔ ایسا حسد رکھنے والے گویا اپنائیت کا گلا گھونٹے والے ہیں۔ 
لہٰذا مغل روڈ کشادہ او ر براستہ راجوری و پونچھ کشمیر سے جوڑنے کا کام اسٹیٹ کی ترقی اور راجور ی وپونچھ کی عوام کی کھوئی ہوئی دولت کا پھر سے بحال ہونے کا ضامن ہے۔ 
مزید برآں اس سے وہ تاریخی وثقافتی رابطے بحال ہوجائینگے ،جو صدیوں سے وادی کشمیر اورپیرپنچال کے دامن میں واقع پونجھ اور راجوی کے مابین رہے ہیں اور جو گزشتہ 60سال کے دوران کسی نہ کسی بہانے کمزور بنانے کی کوشش کی گئی۔ 

«
»

’’ننگا نگر ‘‘جہاں کپڑے پہننے والے بیوقوف سمجھے جاتے ہیں۔

مودی کچھ زیادہ ہی سچ بولنے لگے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے