مفتی۔مودی دوستی میں درار۔ آخر کب تک چلے گی یہ سرکار؟

کیا مودی اور مفتی دونوں نے ایک بڑا رسک لیا ہے جس کا انجام کچھ بھی ہوسکتا ہے؟ مگر اب پوچھا جارہا ہے کہ نریندر مودی نے آر ایس ایس کی مرضی کے خلاف پی ڈی پی کے ساتھ ہاتھ ملاکر جس قسم کی سیاست کی بنیاد رکھی ہے وہ اور کتنے دن تک چل پائے گی؟حالانکہ اگر سرکار چلتی ہے تو اس کے نتائج تاریخی نوعیت کے ہوسکتے ہیں اور اس قدم کا اثر پورے جنوبی ایشیا پر پڑنے سکتاہے۔مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے یہ مناسب سرکار ہے اور سب سے بہتر موقع بھی ہے۔ کانگریس کے اندر یہ ہمت نہیں ہے کہ اس مسئلے کو حل کرسکے۔ یہ مسئلہ جب بھی حل ہوگا بی جے پی کی سرکار میں ہی حل ہوگا اور یہ پہلا موقع ہے کہ بی جے پی مرکز کے ساتھ ساتھ ریاست کی سرکار میں بھی حصہ دار ہے۔حالانکہ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ مودی نے آر ایس ایس کی مرضی کے خلاف پی ڈی پی کے ساتھ سرکار بنانے کا فیصلہ کیا تھا جو سنگھ کے لئے کھلا چیلنج تھا۔ 
کشمیر کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے بعض فیصلوں کے سبب مودی سرکار کی کرکری ہوئی اور اسے پارلیمنٹ کے اندر جواب دینا پڑا؂
جس کے بعد پی ڈی پی کے ساتھ بی جے پی کے رشتوں میں تلخی آنے لگی تھی مگر اب ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے اس مسئلے پر قابو پالیا ہے اور ایک بار پھر اس کوشش میں لگ گئی ہیں کہ نئے عزائم کے ساتھ آگے بڑھیں اور باہمی مسائل کو بات چیت سے حل کرلیں۔عوام کے لئے بھی یہ خوش آئند بات ہے۔ حالانکہ اگر سرکار نہیں چلتی ہے تب بھی بی جے پی کے لئے نقصان نہیں کہ وہ گورنر کے ذریعے راج کرتی رہے گی۔ لیکن مسئلہ کشمیر کے لئے بڑا مسئلہ ہے۔ اگر پی ڈی پی ساتھ دیتی ہے تو اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ 
فرقہ پرستی کی لائن سے اوپر
بھارت ایک کثیر تہذیبی ملک ہے اور یہاں ہمیشہ سے انیکتا میں ایکتا دکھائی دیتی رہی ہے۔ دستور ہند بھی اس کی وکالت کرتاہے اور سبھی طبقات کے حقوق کو یکساں مانتا ہے مگر اس کے برخلاف آرایس ایس ہندتو کی بات کرتا ہے اور بی جے پی بھی ہندتو کی سیاست کرتی رہی ہے۔ خود نریندر مودی نے بھی گجرات فسادات کے بعد اپنی تصویر ہندو ہردے سمراٹ کی بنا لی تھی مگر آج جب وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں اور انھیں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے تو احساس ہونے لگا ہے کہ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کے بغیر یہ ملک نہیں چل سکتا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے پارلیمنٹ کے بجٹ سشن میں ایک زور دار تقریر کی اور ملک کو یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کی کہ وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کی ذمہ داری ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں، سب کے ساتھ منصفافہ اور مساوی برتاؤ کریں اور ملک کے آئین کو ہی مقدس گرنتھ کا درجہ دیں۔ انھوں نے اپنی اس تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ کسی بھی گروہ کے خلاف منافرت پھیلانے کی کوشش برداشت نہیں کی جائیگی اور ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت قدم اٹھایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ سنگھ پریوار کی تنظیموں اور افراد کے خلاف کھلی دھمکی ہے کیونکہ اشتعال انگیزی، منافرت ،تشدد اور دنگا فساد اسی طبقے کے لوگ کراتے ہیں۔ کبھی گھر واپسی کے نام پر ہنگامہ تو کبھی ’’لوجہاد‘‘ کے نام پر اشتعال انگیزی، کبھی مندر۔مسجد کے بہانے سے عوام کو بانٹنے کی کوششیں تو کبھی غیر ضروری منافرت انگیز بیانات۔ اشوک سنگھل، پروین توگڑیا، ساکشی مہاراج اور یوگی آدتیہ ناتھ سے لے کر سادھوی نرنجن جیوتی تک پچھلے دنوں صرف اسی سبب چرچے میں رہے۔ ان کی اشتعال انگیزیوں کے سبب وزیر اعظم کی عالمی طور پر سبکی ہوئی اور بھارت میں ان کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کے جو حملے ہوئے سو اپنی جگہ، امریکی صدر اور عالمی میڈیا نے بھی انھیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے ٹھان لی ہے کہ وہ سنگھ پریوار کے دباؤ میں کام کرنے کے بجائے راج دھرم نبھائیں گے۔ اسی لئے انھوں نے پارلیمنٹ میں تقریر کے ذریعے اپنی تصویر کو ایک سیکولر لیڈر کی بنانے کی کوشش کی اور سنگھ سے ٹکڑانے کا اشارہ بھی دے دیا۔ ا نھوں نے سنگھ کے ان لیڈروں کی بھی خوب خبر لی جو ’’اناپ شناپ‘‘ بکتے ہیں۔ اس سلسلے میں دوسرے قدم کے طور پر مودی نے سنگھ کی مخالفت کے باوجود جموں وکشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ سنگھ پریوار بھی مودی کے لئے مشکلیں کھڑی کرے گا اور ان کے راستے میں کانٹے بکھیرنے کا کام کرے گا۔ وشو ہندو پریشد نے اعلان کیا ہے کہ اب وہ گوا میں ’’گھر واپسی ‘‘تحریک چلائے گا۔ یونہی دلی میں اس نے اپنے سمیلن میں ایک بار پھر رام مندر کا راگ الاپنا شروع کردیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب مودی کی سرکاری لائن کے خلاف باتیں ہیں مگر سنگھ کی طرف سے سامنے آرہی ہیں اور انھیں مودی کے راستے میں روکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ 

کشمیر میں رسک 
جموں و کشمیر کا مسئلہ بھارت اور پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے امن و امان سے مربوط رہا ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کا اثر اس پورے خطے پر پڑتا ہے، یہاں کے امن وقانون اور معیشت پر پڑتا ہے۔ آزادی اور تقسیم وطن کے بعد ہی سے یہ مسئلہ اس پورے خطے کے لئے پریشان کن رہا ہے۔ مرکز میں کانگریس ہی زیادہ تر اقتدار میں رہی ہے اور اس نے اس مسئلے کو حل کرنے کی خاطر خواہ کوشش نہیں کی مگر بی جے پی اس مسئلے میں زیادہ سنجیدہ رہی ہے۔ جب مرکز میں اٹل بہاری واجپائی کی سرکار تھی اور ریاست میں مفتی محمد سعید اقتدار میں تھے تو بھارت اور پاکستان کے بیچ مسئلے کے حل کے لئے بات چیت ہوئی تھی۔ تب کے پاکستانی ڈکٹیٹر پرویز مشرف بھارت آئے تھے اور آگرہ میں اس مسئلے پر اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی تھی۔ اٹل بہاری بھی پاکستان بس پر سوار ہوکر گئے تھے اور دونوں ملکوں میں بیچ اچھا ماحول تیار ہوا تھا۔ سرحد پر کچھ نرمی برتی جارہی تھی اور لوگوں کا آنا جانا بڑھا تھا نیز دونوں ملکوں کے بیچ تجارت میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ آج کشمیر میں بی جے پی اور پی ڈی پی کا ساتھ آنا ایک بار پھر اشارہ کر رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اب سازگار ماحول ہے۔ کشمیر کے عوام بھی مسئلے کے حل کے لئے بی جے پی سرکار کی طرف زیادہ پر امید نگاہوں سے دیکھتے رہے ہیں۔ ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات سے قبل کشمیر میں جمہوریت پسند لیڈروں سے لے کر علاحدگی پسندوں تک کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ اگر بی جے پی مرکزم میں برسراقتدار آتی ہے تو اس مسئلے کے حل کی قوی امید ہے۔ مفتی کابینہ کی تقریب حلف برداری میں لعل کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کی شرکت نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ گو آج اٹل بہاری کی سرکار نہیں ہے مگر موجودہ سرکار بھی اس مسئلے پر اسی پالیسی پر عمل پیرا ہوگی جس پر اٹل بہاری کی سرکار تھی۔ مسئلہ کشمیر سے بی جے پی کا اس لئے بھی جذباتی لگاؤ ہے کہ اس کے لیڈر اور نظریہ ساز شیاما پرساد مکھرجی کی موت یہیں ہوئی تھی اور پولس حراست میں موت ہوئی تھی۔ ان کی موت آج تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے اور اس معاملے میں موقع بموقع سیاست بھی ہوتی رہی ہے۔ 
مسئلے کے حل کے لئے مناسب وقت ہے
جموں وکشمیر میں نئی حکومت کا قیام اور اس میں بی جے پی کی شرکت سے ممکن ہے بعض لوگوں کو اختلاف ہو مگر اس کے دور رس نتائج پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پی ڈی پی اور بی جے پی دونوں نے الیکشن میں بعض ایسے ایشوز کو اٹھایا تھا جو ایک دوسرے سے ٹکراؤ پر مبنی تھے جس میں سب سے بنیادی ایشو دفعہ ۳۷۰ کا تھا۔ بی جے پی کے قومی ایجنڈے میں یہ ایشو ویسے ہی شامل جیسے رام مندر، کامن سول کوڈ وغیرہ کے متنازعہ ایشوز ہیں۔ حالانکہ وہ جانتی ہے کہ ان سب ایشوز پر عمل کبھی بھی ممکن نہیں ہے مگر اپنے ہندو ووٹروں کو رجھانے اور مسلمانوں کو ورغلانے کے لئے وہ اس قسم کے ایجنڈے اٹھاتی رہی ہے۔ اسے یہ بھی پتہ ہے کہ موجودہ حالات میں دفعہ ۳۷۰ کو ختم نہیں کیا جاسکتا ورنہ کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر برننگ ایشو بن جائے گا اور ساری دنیا کی نگاہیں اس جانب اٹھنے لگیں گی۔ موجودہ وقت میں پاکستان ہی نہیں بلکہ چین بھی اس آگ میں پٹرول ڈالنے کا کام کرسکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مفتی محمد سعید نے پہلے ہی اس سے یہ وعدہ کرالیا ہے کہ وہ اس قسم کے ایجنڈوں کو نہیں اٹھائے گی اور ایک مشترکہ پروگرام کے تحت ان کی سرکار چلے گی۔ یہاں حکومت سازی کے معاملات طے کرنے کے لئے
نریندر مودی نے رام مادھو کو بھیجا تھا جو آر ایس ایس کے آدمی ہیں مگر ان دنوں بی جے پی کے جنرل سکڑیٹری ہیں۔ یہ بھی قابل ذکر پہلو ہے کہ الیکشن مہم کے دوران مودی نے کہا تھا کہ کشمیر میں’’ باپ بیٹے‘‘ کی حکومت رہی ہے یا ’’باپ بیٹی‘‘ کی اور کشمیریوں کو چاہئے کہ وہ دونوں سے نجات پائیں مگر آج وہ بھی باپ بیٹی کی سرکار کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس لئے یہ احساس ہونے لگا ہے کہ موجودہ وقت مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بہت مناسب وقت ہے۔ مفتی محمد سعید ایک پرانے لیڈر ہیں۔ وہ کم گو ہیں مگر ان کے اندر ایک طوفان چلتا رہتا ہے۔ وہ دل سے چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہوجائے اور انھوں نے سرکار بنانے سے قبل ہی اس مسئلے پر بی جے پی کے لیڈران سے بات کی تھی، ان دنوں بھارت اور پاکستان کے بیچ اندرونی طور پر بات چیت کی کوششیں بھی شروع ہوچکی ہیں اور ہمیں امید رکھنا چاہئے کہ اس سلسلے میں کوئی مثبت خبر جلد ہی سننے میں آئے گی۔

«
»

آج کی دنیا کے قارون

آر ایس ایس اور عیسائی دنیا آمنے سامنے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے