مولانا سیّد محمود حسنی رحمة الله عليه

 ڈاكٹر محمد اكرم ندوى

مت سہل ہميں جانو، پهرتا ہے فلك برسوں

 تب خاك كے پردے سے انساں نكلتے ہيں

 برادر مكرم مولانا سيد محمود حسن حسنى سے چند روز پہلے فون پر گفتگو ہوئى، بات زياده تر علمى وتصنيفى امور سے متعلق تهى، صحت كے بارے ميں سوال كيا تو دعا كے لیے كہا، اس طرح كى بيمارى اور مصيبت وتكليف ميں بڑے بڑوں كا حوصلہ جواب دے جاتا ہے، مگر ان كا حوصلہ لائق داد تها اور صبر وتحمل قابل رشك، كوئى شكايت نہيں، اظہار كرب نہيں، اور مايوسى كا كلمہ نہيں، بلكه ايك متشكر شريف انسان كا ركھ ركهاؤ، اس حالت ميں بهى بات خالص علمى بات كرتے، بات كيا ہوتى، "وه كہيں اور سنا كرے كوئى” كا مصداق ہوتى:

 با ايں ہمه ضعف وناتوانى

 دانى چه كارہا نه كرديم

 دو تين روز پہلے عزيز گرامى سيد خليل حسنى كا پيغام آيا كہ محمود بهائى كے لیے حرم شريف ميں دعا كروں، پرسوں برادر معظم مولانا سيد جعفر مسعود حسنى كو فون كيا، وه اس وقت اسپتال ميں محمود بهائى كے پاس تهے، كہنے لگے كہ آپ نے بہت مناسب وقت پر فون كيا، اور اس كے بعد محمود بهائى كى بيمارى پر تشويش ظاہر كى، وہيں ان كے بهائى مولانا مسعود حسنى تهے ان سے بهى بات ہوئى، ميں نے عرض كيا كہ جب محمود بهائى كى حالت كچھ بہتر ہو تو ميرا سلام عرض كرديں، اس ياد دہانى كے بعد ميں نے ان كى صحت كے لیے دعا كا اہتمام كيا اور ہم دعا كے سوا كيا كرسكتے تهے، الله تعالى كا فيصلہ بر حق ہے۔ قضا آئى اور آج (بروز جمعه 14 محرم 1444ه) صبح كے وقت انتقال كى خبر ملى، إنا لله وإنا إليه راجعون۔

 مولانا مرحوم حسنى خانواده كے چشم وچراغ تهے، ان كى والده سيده امامہ حسنى رحمة الله عليہا استاد محترم حضرت مولانا سيد محمد رابع حسنى ندوى دامت بركاتہم كے بڑے بهائى مولانا محمد ثانى حسنى رحمة الله عليه كى صاحبزادى تهيں۔ محمود بهائى كى پيدائش 28 جمادى الاولى سنه 1391ه مطابق 22 جولائى سنه 1971م كو ہوئى۔ انہوں نے اپنے گهر كے علمى، صالح اور پاكيزه ماحول ميں نشو نما پائى، مدرسہ ضياء العلوم رائے بريلى ميں ابتدائى تعليم حاصل كى، پهر ندوه سے سنہ 1990 مين عالميت، اور سنہ 1992 مين فضيلت كى، اور المعہد العالى للدعوة والفكر الاسلامى كا ايك ساله كورس مكمل كيا۔

فراغت كے بعد سے علم كو اوڑهنا بچهونا بنا ليا، مدرسه ضياء العلوم ميں مدرسى كى، دار عرفات رائے بريلى كے شعبۂ تحقيق وتصنيف سے منسلك ہو ئے، يوں اپنى صلاحيت كى پختگى اور علمى ترقى كا اہتمام كيا، اور طلبه كے افاده كا بازار گرم ركها۔

ايك عرصہ سے ندوه كے پندره روزه تعميرِ حيات كے نائب مدير تهے۔ ماہنامہ رضوان اور پيام عرفات كى مجلس ادارت كى ركنيت سنبهالى۔ علمى حلقوں ميں ان كى شہرت ايك سنجيده محقق اور متين وشائستہ فكر كے حامل مصنف كى حيثيت سے ہوئى، مين نے ان كى كئى تصنيفات پڑهى ہيں، اور ان سے حسنى خاندان كى تاريخ ونسب كے متعلق استفاده بهى كيا ہے۔ اس خاندان كى تاريخ پر اس وقت شايد ان كو ملكہ تامہ حاصل تها۔ ايك مرتبه استاد محترم حضرت مولانا سيد محمد واضح رشيد ندوى رحمة الله عليه سے ان كے آباء واجداد كے متعلق كچھ معلومات چاہى تو فرمايا كہ محمود سے رابطه كرو۔ اس موضوع پر سب سے اچهى نظر ان كى ہے۔ اس بہانہ ان سے رابطہ استوار ہوگيا، اور اكثر فون پر بات ہوتى رہتى تهى۔ ان سے ميرے تعلق كا آغاز ان كى طالب علمى كے زمانے سے رہا ہے۔ وه ہميشہ محبت اور عقيدت سے ملتے، كراچى كى مجلس نشريات اسلام كے ناظم مولانا فضل ربى ندوى صاحب رحمة الله عليه نے سنہ 1427ه مطابق سنه 2006م ميں ميرى كتاب "ندوه كا ايك دن” چهاپنى چاہى تو اس وقت محمود بهائى وہيں مقيم تهے۔ چنانچہ مولانا فضل ربى صاحب نے ان سے بهى مقدمہ لكهوايا۔ اس مقدمہ ميں انہوں ميرے ساتہ گہرے تعلق كا اظہار كيا۔ يہاں ايك مختصر اقتباس پيش ہے۔ محمود بهائى نے لكها:

"كتاب دلچسپ ہے، مؤثر ہے، معلومات افزا ہے اور ايسے طالب علم كى طرف سے ہے جو اپنى علمى اور تصنيفى خدمات كى بنا پر علمى حلقوں ميں ايك اونچا مقام پيدا كر چكے ہيں، اور ايك تاريخى كارنامہ بهى انجام دے رہے ہيں كہ وه ان خواتين اسلام كے حالات وكارناموں كو مرتب كر رہے ہيں جن كى علمى خدمات رہى ہيں اور انہيں دينى مقام بهى حاصل رہا ہے، يہ كام ان كا تقريبا چاليس جلدوں ميں عربى ميں سامنے آرہا ہے۔ اگر ايسا ہو جاتا ہے تو پهر وه ذہبى وقت كہے جائيں گے”۔

محمود بهائى نے سوانح نگارى كى ايسى مشق بهم پهنچائى تهى كہ اس صنف كے صاحب طرز مصنفين مين ان كا شمار ہونے لگا تها۔ ان كى چند كتابوں كے نام ہيں: "تاريخ اصلاح وتربيت”، "سيرت داعى اسلام: مولانا سيد عبد الله حسنى رحمة الله عليه "، "تذكرۂ مولانا زبير الحسن”، "فرشته صفت انسان: سوانح فلسفى اسلام مولانا عبد البارى ندوى”، "حيات شاه ابرار الحق” وغيره، انہوں نے "تذكرۂ مولانا محمد يونس جونپورى” لكهى تو طباعت سے پہلے پورى كتاب مجهے پڑهنے كے لیے دى، اور ميں نے ان كى طلب پر كچھ مشورے ديے جن پر انہوں نے خوشى كا اظہار كيا، اور كتاب كى اشاعت سے پہلے ان كى روشنى ميں كچه اصلاحات كيں ۔

 ان كى ايك كتاب ہے(تذكره مولانا عبد البارى ندوى بهٹكلى) جو انہوں نے مجهے تحفتًا دى، مولانا عبد البارى ندوه مين ميرے درجه كے ساتهى تهے، انهون نے جامعه اسلاميه بهٹكل كى جس طرح خدمت كى اور بهٹكل مين جس طرح اصلاح ودعوت كا كام كيا اس كى نظير نهين، مولانا كى زندگى كى جو تفصيلات آئى ہين وه قابل رشك ہين، پاك دل، پاك ذات، وپاك صفات، محمود بهائى نے ان كى سوانح لكهكر علم وانسانيت كى ايك بڑى خدمت انجام دى۔

 مرحوم متواضع، كريم النفس اور با اخلاق انسان تهے، جب بهى لكهنؤ يا رائے بريلى ميں ملاقات ہوتى بڑے تپاك سے ملتے، چہره خوشى سے كهل جاتا، اور پورے جسم سے تر وتازگى كے آثار ہويدا ہوتے، ميرى علمى سرگرميوں كے متعلق استفسار كرتے، اور اپنى تصنيفات وتحقيقات كا ذكر كرتے، كتابيں ہديه كرتے، طبيعت ان كى طرف مائل ہوتى اور ان سے ملكر بہت خوشى ہوتى، مجه سے ان كا تعلق خالص علمى تها، ورنه آج كى دنيا ميں خلوص اور علمى رشته كو كون پوچهتا ہے؟ ع سود وزياں كو نظر ميں ركهكر كرتے ہيں يارانے لوگ۔

محمود بهائى كو تصوف سے مناسبت تهى، اور اس كے اثرات كبهى كبهى ان كى تحريروں اور مكالمات سے عياں ہوتے، گرچه وه اس كى كوشش كرتے كه يه اسرار نا اہلوں سے پوشيده رہيں، يعنى "حديث دل با اہل دل گو” كى حكمت زريں پر عمل پيرا ہوتے، انہوں نے اپنے خاندان كى شريفانه روايت كى پاسدارى، دوسروں كو نفع پہنچاتے ، اور كبهى كسى كو نقصان نه پہنچاتے، جبكه دوسروں كو اذيت دينا فرومايگان زمانه كا عام شعار ہے، جو برائياں عقاب كى آنكه سے چنتے ہيں اور صبا كر رفتار سے پكڑتے ہيں، مگر مرحوم زمانه كى اس روش سے مختلف تهے، اسى لئے ان كى دوستى اور تعلق كو ہم وجه سعادت اور باعث فخر سمجهتے تهے۔ ان كا يه سانحه كم عمرى ميں پيش آيا ہے، استاد محترم حضرت مولانا رابع صاحب دامت بركاتہم كے لئے اس طرح كے حادثات كا پيہم آنا بڑا صبر آزما ہے، يه آپ كى ايمانى قوت كى دليل ہے، ہم برادر معظم مولانا سيد جعفر مسعود حسنى، مرحوم كے بهائى مولانا مسعود حسن حسنى، مولانا منصور حسن حسنى اور ديگر اہل خانه كو صدق دل سے تعزيت پيش كرتے ہيں، مرحوم كے لئے مغفرت ورحمت كى دعا كرتے ہيں، اور اپنے اس درد كا اظہار كرتے ہيں كه كس طرح اصحاب فكر وقلم يكے بعد ديگرے رخصت ہوتے جا رہے ہيں، اور ان كى جگه لينے والا كوئى نہيں: ع

 خدا رحمت كند ايں عاشقان پاك طينت را يه

 لوگ بهى اٹھ جائيں گے اس بزم وفا سے

 تم ڈهونڈنے نكلو گے مگر پا نه سكو گے

«
»

ملک کے موجودہ حالات میں گاندھی جی اور ان کے افکار کی اہمیت

علم و تحقیق کے سالار تھے مولانا سید جلال الدین عمری ؒ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے