قران اور سیرت کی تعلیمات میں وہ قوت ہے جس کے آگے ناقابل تسخیر چٹانیں بھی موم ہوسکتی ہیں۔ آج دنیا میں ایک بھی ملک ایسانہیں جہاں مسلمان موجود نہ ہوں۔ حالانکہ ابتدائی ایام میں ہی اسلام دنیا کے بیشتر خطوں میں پہنچ چکا تھا اور اپنے اثرات مرتب کرنے لگا تھا۔اسلام کے ماننے والے دنیا کے جس گوشے میں گئے اپنے ساتھ عملی اسلام لے کر گئے۔ ان کی زندگی اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی اور ان کی نشست وبرخواست میں سیرت نبوی کی جھلک تھی جس نے دنیا کو گرویدہ کیا اور انھیں اسلام سے قریب لانے میں مدد کی۔ یہ خیال کہ اسلام کی اشاعت مسلم حکمرانوں کی زور زبردستی کے نتیجے میں ہوئی سراسر غلط ہے اور اس کی بنیاد میں اسلام دشمن مورخین ہیں جنھوں نے اسلام کو ایک ظالم وجابر مذہب کے طور پر پیش کیا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اکثربادشاہوں نے صرف اپنے اقتدار کو نظر میں رکھ کر کام کیا۔ انھیں اسلام سے کچھ خاص لینا دینا نہیں تھا۔البتہ خلفاء راشدین اور ان کے چند پیروکاروں نے اپنے کردار کے ذریعے اسلام کی تبلیغ کا کام کیا تھا۔تاریخ اسلام میں ایسے واقعات کی کمی نہیں جب مسلمان اپنے دشمنوں سے بدلہ لے سکتے تھے اور اس زمانے کے جنگی دستور کے مطابق ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ سکتے تھے مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ انھوں نے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کی عملی تفسیر بن کر رحم وکرم کے دریا بہائے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اخلاق مروت کا برتاؤ کیا، جس نے انھیں اسلام سے قریب تر کیا۔ ایسے واقعات سے اسلام کی تاریخ بھری ہے مگر ہم یہاں مستند تاریخی کتابوں سے صرف
چند واقعات کا بیان کرتے ہیں۔
خلیف�ۂ اسلام اور فتح بیت المقدس
بیت المقدس کی تاریخ خونریز واقعات سے بھری ہوئی ہے اور انبیاء کرام کی اس باعظمت ومحترم سرزمین کو بار بار ظالم حکمرانوں نے اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں پہلی بار مسلمانوں کے قدم یہاں پڑے اور پہلی بار ایسا ہوا کہ یہ سرزمین بغیر ایک قطرہ، خون بہائے فتح ہوگئی۔ ’’فتوح البلدان ‘‘ کے مطابق جب آس پاس کے شہر فتح ہوگئے تو مسلمانوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا۔آگے کا بیان مولانا شبلی نعمانی کی ’’الفاروق‘‘ (اول)کے الفاظ میں یوں ہے:
’’عیسائی قلعہ میں بند ہو کر لڑتے رہے۔ اس وقت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کے انتہائی اضلاع قسرین وغیرہ فتح کر چکے تھے۔ چنانچہ ادھر سے فرصت پا کر بیت المقدس کا رخ کیا۔ عیسائیوں نے ہمت ہار کر صلح کی درخواست کی۔ اور مزید اطمینان کے لئے یہ شرط اضافہ کی کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود یہاں آئیں اور معاہدہ صلح ان کے ہاتھوں سے لکھا جائے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھا کہ بیت المقدس کی فتح آپ کی تشریف آوری پر موقوف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام معزز صحابہ کو جمع کیااور مشورت کی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ عیسائی مرعوب اور شکستہ دل ہو چکے ہیں۔ آپ ان کی درخواست کو رد کر دیں تو ان کو اور بھی ذلت ہو گی اور یہ سمجھ کر کہ مسلمان ان کو بالکل حقیر سمجھتے ہیں، بغیر شرط کے ہتھیار ڈال دیں گے۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے خلاف رائے دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان ہی کی رائے کو پسند کیا اور سفر کی تیاریاں کیں (یہ طبری کی روایت ہے )۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نائب مقرر کر کے خلافت کے کاروبار ان کے سپرد کیے (فتوح البلدان )۔ اور رجب 16 ہجری میں مدینہ سے روانہ ہوئے۔‘‘
’’بیت المقدس قریب آیا تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سرداران فوج استقبال کو آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لباس اور ساز و سامان جس معمولی حیثیت کا تھا۔ اس کو دیکھ کر مسلمانوں کو شرم آتی تھی کہ عیسائی اپنے دل میں کیا کہیں گے۔ چنانچہ لوگوں نے ترکی گھوڑا اور قیمتی پوشاک حاضر کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خدا نے ہم کو جو عزت دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے اور ہمارے لئے یہی بس ہے۔‘‘
بیت المقدس کے غیر مسلموں کو حضرت عمر نے جو معاہدہ لکھ کر دیا اس میں انھیں امان دی گئی تھی اور انھیں اپنے مذہب پر عمل کی آزادی تھی۔ مسلمانوں کا حسن سلوک دیکھ کر بڑی تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے۔یہی منظر اس وقت بھی تاریخ کی نگاہوں نے دیکھا جب سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس شہر کو دوبارہ فتح کیا۔ اصل میں یہی اخلاق کی تلوار تھی جس نے کافر کو نہیں کفر کوکاٹ ڈالا اور اسے ہمیشہ کے لئے اسلام کا داعی بنادیا۔اس دور میں مسلمان جس طرف جاتے اپنے اخلاق وکردار سے اسلام کی دعوت دیتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو اس کے لئے کچھ خاص قاعدے بھی مقرر فرمائے تھے۔ یہی سبب ہے کہ اس دور میں نہ صرف اسلامی فتوحات کا دائرہ بڑھا بلکہ اسلام کی اشاعت بھی خوب خوب ہوئی۔
جب مسلمان کو دیکھ کر لوگ مسلمان ہوجاتے تھے
عہد صحابہ میں اسلامی فوجیں جس ملک میں جاتی تھیں اسے دیکھنے کے لئے لوگوں کا ہجوم امنڈ پڑتا تھا۔ سبب یہ تھا کہ عرب کے چندبے سروسامان بادیہ نشیں دنیا کی تسخیر کو اٹھے تھے اور یہ خبر سب کے لئے حیرت اور استعجاب سے بھری ہوئی تھی۔ جب مفتوحہ علاقوں کے شہریوں کو ان سے ملنے جلنے کا اتفاق ہوتا تھا تو ایک ایک مسلمان سچائی ،ایمانداری، سادگی اور پاکیزگی کی تصویر نظر آتا تھا۔ یہ باتیں لوگوں کو متاثر کرتی تھیں۔ تاریخی کتابوں میں ہے کہ رومیوں کا سفیر جارج جب حضرت ابو عبیدہ بن جراح کی فوج میں گیا تو مسلمانوں کے طور طریقے کو دیکھ کر بہت متاثر ہوااور اپنے جذبات کو روک نہیں سکا۔ آخر کار وہ اپنی قوم اوراہل خاندان سے الگ ہو کر مسلمان ہو گیا۔اسی طرح شطا جو مصر کی حکومت کا بہت بڑا رئیس تھا،جب مسلمانوں کے حالات سنے اور ان کے اخلاق وکردار کی باتیں اس کے سامنے آئیں تو غائبانہ طور پر ہی وہ اسلام کا گرویدہ ہو گیااورایک وقت وہ آیا جب دو ہزار آدمیوں کے ساتھ مسلمان ہو گیا۔ (تاریخ مقریزی صفحہ 226)
ایرانیوں کا قبول اسلام
جب مسلمانوں کا مقابلہ ایران کے پارسیوں سے شروع ہوا تو اس جنگ کی ایک سردار نے مخالفت کی اور جب فوج کی جانب سے لڑائی پر اصرار کیا گیا تو وہ بھاگ نکلا۔فوج کے سردار نے جب اسے گرفتار کر کے بھاگنے کی سزا دینی چاہی تو اس نے ایک پتھر کی چٹان کو تیر سے توڑ کر کہا کہ یہ ’’ تیر بھی جن لوگوں پر اثر نہیں کرتے خدا ان کے ساتھ ہے۔ اور ان سے لڑنا بیکار ہے۔‘‘ (تاریخِ طبری، واقعات جنگ فارس)اسی طرح جب مسلمانوں نے قادسیہ میں معرکہ کیا تو چار ہزار ویلم کی فوج جو خسرو پرویز کی تربیت یافتہ تھی اور’شاہی رسالہ‘ کہلاتی تھی، کل کی کل مسلمان ہو گئی۔ (فتوح البلدان صفحہ 280)۔
ایران کے یزدگرد کا ایک افسر سیاہ نام کا تھا۔یہ فوجی افسر بڑے بڑے فوجی سپہ سالاروں کے ساتھ تستر کے مقام پر مقیم تھا اور مقابلے کے لئے اسلامی فوجوں کاانتظار کر رہا تھا۔ اس نے ایک دن اپنے تمام ہمراہیوں کو جمع کر کے کہا کہ ہم لوگ جو پہلے کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ (مسلمان ) ہمارے ملک پر غالب آ جائیں گے، یہ بات روز بروز سچ ثابت ہوتی جارہی ہے لہٰذابہتر یہ ہے کہ ہم لوگ اسلام قبول کر لیں۔اس کی اس رائے کو اس کے ساتھیوں نے پسند کیا اور پوری فوج مسلمان ہوگئی۔یہ لوگ اساورہ کہلاتے تھے۔ ان کے اسلام لانے پر سیابجہ، زط، (جاٹ)اندغار بھی مسلمان ہو گئے۔غور طلب ہے کہ تینوں قومیں اصل میں برصغیر ہندوپاک کی رہنے والی تھیں اور ان میں سے بیشتر لوگ ایران کی فوج میں ملازمت کیا کرتے تھے۔
مذہب میں جبرنہیں
اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کا مذہب جبری طور پر تبدیل کرایا جائے۔یہی سبب ہے کہ جو علاقے بھی عہد صحابہ میں فتح ہوتے اس کے شہریوں کو جو امان نامہ لکھ کردیا جاتا اس میں اس بات کا ذکر ہوتا کہ کسی بھی شخص کے مذہب سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔اس کی عبارت یوں ہوتی:
‘‘ان کا مذہب نہ بدلا جائے گا اور ان کے مذہبی امور میں کچھ دست اندازی نہ کی جائے گی۔ ‘‘(طبری صفحہ 2633)۔
جرجان کی فتح کے وقت یہ معاہدہ لکھا گیا۔
’’ ان کے جان و مال اور مذہب و شریعت کو امن ہے اور اس میں سے کسی شے میں تغیر نہ کیا جائے گا۔ ‘‘ (طبری صفحہ 2658)۔
آذر بائیجان کے معاہدہ میں یہ تصریح تھی۔
’’جان مال، مذہب اور شریعت کو امان ہے۔ ‘‘ (طبری صفحہ 2662)۔
موقان کے معاہدہ میں یہ الفاظ تھے۔
‘‘جان، مال، مذہب اور شریعت کو امان ہے۔ ‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام کی اشاعت کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے اور جہاں کہیں بھی لشکر بھیجتے اس بات کی تاکید بھی کی جاتی کہ اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچایا جائے مگر جبری طور پر اشاعت اسلام کے خلاف تھے۔ان کے پاس ایک عیسائی غلام تھا،جس کا نام استق تھا۔ آپ اسے ہمیشہ اسلام قبول کرنے کی ترغیب دلاتے رہے مگر وہ انکار کرتا رہا۔ آخرکار آپ نے تو فرمایا لا اکراہ فی الدین یعنی مذہب میں زبردستی نہیں ہے۔ (کنز العمال بحوالہ طبقات ابن سعد جلد پنجم صفحہ 249)۔
جواب دیں