بھارت سے افریقہ تک ہر جگہ مسلم محلے ایک جیسے کیوں نظر آتے ہیں؟ جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ کے وزیروں نے اپنے ہاتھوں میں جھاڑو اٹھایا ہے ،اسی طرح ہمارے علماء دین، ائمۂ مساجد اور قوم کے علماء و دانشور نہیں اٹھا سکتے؟ کیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، جماعت اسلامی ہند، جمعیہ علماء ہند،جمعیۃ اہل حدیث ، آل انڈیاملی کونسل، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ،تبلیغی جماعت، امارت شرعیہ، ادارہ شرعیہ اور ان جیسی دوسری ملی جماعتیں اس کام پر کمر نہیں باندھ سکتیں؟ ہماری ملی جماعتیں کتنی متحر ک ہیں اور کتناکام کر رہی ہیں یہ ہم سب جانتے ہیں لیکن اگر وہ مسلم محلوں کو بھی صاف ستھرا کرا سکیں تو یہ ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔ اس سے نہ صرف ہم اپنی صحت، اپنے بچوں کی صحت کو ٹھیک رکھ پائینگے بلکہ اسلام کا ایک بھولا ہوا سبق بھی قوم کو یاد دلاسکیں گے۔ ہم بات بات میں حکومت کی لاپرواہی اور عدم توجہی کا رونا روتے ہیں مگر کیا یہ سچ نہیں کہ جو کام ہمارے اپنے کرنے کا ہے وہ بھی ہم دھیان سے نہیں کرتے؟
شکوۂ ظلمت شب سے کہیں اچھا ہوتا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
’’سوچھ بھارت ابھیان‘‘ اور ہماری عادتیں
پورے ملک میں صفائی مہم چل رہی ہے اور کوشش ہورہی ہے کہ سرکاری دفاتر سے لے کر رہائشی محلوں تک ہر جگہ کو صاف ستھرا کیا جائے۔ ’’سوچھ بھارت ابھیان‘‘ کے نام سے اس مہم کو خود وزیر اعظم نریندر مودی نے شروع کیا ہے اور اپنے وزیروں کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس مہم سے جوڑنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ ایک طبقہ کا ماننا ہے کہ یہ سب وہ ملک کے اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ پھیرنے کے لئے کر رہے ہیں۔ ممکن ہے ان کی بات درست ہو مگر صفائی مہم کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے صفائی مہم چلائی تھی جس کا ذکر انھوں نے اپنی خودنوشت سوانح عمری میں کیا ہے۔ انھوں نے کانگریس کے سملین میں بھی اپنے ہاتھوں میں صفائی کا کام لیا تھا اور ایک موقع پر تو انھوں نے عوامی بیت الخلاء کی صفائی کا کام کیا تھا۔ آج ایک بار پھر اسی مہم کی شروعات نریندر مودی نے کی ہے مگر اس کی کامیابی میں ہمیں ہی نہیں ان سبھی لوگوں کو شک ہے جو ہندوستانیوں کی عادات اور طرز زندگی سے واقف ہیں۔ ہم صدیوں سے کھیتوں اور کھلیانوں میں رفع حاجت کے لئے جاتے رہے ہیں۔اچھے اچھے مکانات میں بھی بیت الخلاء بنوانا یہاں روایتی طور پر برا مانا جاتا رہا ہے لہٰذا آج بھی دیہاتوں میں اسے اچھا نہیں مانا جاتا کہ کوئی اپنے مکان میں بیت الخلا بنوائے۔ ان لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر بیت الخلا ہوگا تو گندہ بھی ہوگا اور گندگی کے بغیر اس کا تصور ممکن نہیں ہے۔ حالانکہ شہروں کے تمام فلیٹوں میں ٹوائلیٹ ہوتے ہیں اور بیڈ روم سے اٹیچ ہوتے ہیں اور صاف ستھرے بھی ہوتے ہیں۔ بھارت کی ریلوے دنیا کی سب سے لمبی ریلوے لائنیں رکھتی ہے اور یہ لائنیں دنیا کی ایک بڑی آبادی کے رفع حاجت کی ضرورت پوری کرتی ہیں ۔مسافروں کی نگاہیں خواہ شرم سے جھک جائیں مگر ان لوگوں کی نہیں جھکتیں جو پٹریوں کے کنارے برہنہ بیٹھے ہوتے ہیں۔شہروں اور دیہاتوں میں سرکار کی طرف سے جو ٹوائلیٹ بنائے گئے ہیں وہ عوام کے لئے ناکافی ہیں اور خواتین کے لئے تو خطرناک بھی ہیں۔ یونہی ہمارے ملک میں جگہ جگہ کوڑے دان رکھنے کا رواج نہیں ہے لہٰذا اگر کوئی کوڑے دان میں ڈالنا بھی چاہے تو نہیں ڈال سکتا۔ کچھ لوگ سڑکوں پر ڈال دیتے ہیں تو کچھ کسی مخصوص جگہ پر وڑے ڈالتے ہیں جو کوڑے پھینکنے کے لئے ہی بنائی جاتی ہے، مگر سسٹم درست نہ ہونے کے سبب کوڑے کا انبار ہوتا ہے اور بدبو دور تک پھیلی ہوتی ہے۔ ادھر ادھر تھوک دینا ہم ہندوستانیوں کی عادت کا حصہ ہے اور تمباکو،گٹکے کھانا بھی ہم نہیں چھوڑ سکتے۔ ایسے حالات میں سرکار کی طرف سے صرف بیداری مہم چلانا کتنا کارگر ہوگا، سوچنے والی بات ہے۔یہی ہندوستانی جب عرب ممالک میں جاتے ہیں یا یوروپ میں جاتے ہیں تو گندگی نہیں پھیلاتے کیونکہ اس صورت میں ان پر بھاری جرمانہ کیا جاتا ہے مگر یہاں سب چلتا ہے۔ یہ تو عام ہندوستانیوں کی عادت ہے مگر مسلم محلے تو اس معاملے میں دوسروں سے بازی مار لیتے ہیں اور دوسرے محلوں کے مقابلے یہاں گندگی کا زیادہ انبار دیکھا جاتا ہے۔ یہ کام ہم خود کرسکتے تھے اور تھوڑی سی احتیاط و ذمہ داری کا اگر ثبوت دیتے تو ہم اپنے محلے تو صاف رکھ ہی سکتے تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔
اسلام کی نظر میں پاکیزگی کی اہمیت
دنیا کے مختلف ملکوں کی سیاحت کرچکے ایک مسلمان عالم دین کا کہنا ہے کہ میں دنیا کے جس ملک میں بھی جاتا ہوں مجھے مسلمانوں کے محلے ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ مجھے جیسی پرانی دلی نظر آئی بالکل ویسا ہی یروشلم کا مسلم علاقہ بھی لگا۔ ایک دوسرے مسلم سیاح کا کہنا تھا کہ مجھے جس طرح کلکتہ کے مسلم محلوں میں دیر رات تک لوگ جاگتے اور سڑکوں پر کباب کھاتے نظر آتے ہیں اسی طرح کا منظر میں نے ترکی میں بھی دیکھا۔ ہمیں معلوم نہیں کہ آخر مسلمانوں کی ایسی ذہنیت کیسے بن گئی ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ آج جس قسم کی باتیں ان کی روز مرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں ان کا اسلام یا قرآن و حدیث سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسلام نے پاکیزگی کا درس دیا ہے اور اسلامی تعلیمات کا ہی اثر تھا کہ عرب کے غیر مہذب بدووں نے تہذیب و تمدن سے آراستہ ہوکر دنیا کی رہبری کا فریضہ انجام دیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہری صفائی کو آدھا ایمان قرار دیا ہے۔ گویا جسمانی صفائی اگر آدھا ایمان ہے تو باقی ایمان روحانی پاکیزگی ہے۔ انسان کے دل کی کفر وشرک کی گندگی سے پاکی آدھا ایمان ہے اور ظاہری ستھرائی باقی ایمان ہے۔ ایسا پاکیزہ درس اور صفائی و ستھرائی کا سبق کسی دوسرے مذہب میں شاید ہی ملے۔وضو کے دوران اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو دعا پڑھاکرتے تھے اور مسلمانوں کو جس کا حکم دیا ہے اس کے آخری الفاظ ہیں، واجعلنی من المتطہرین۔ یعنی اے اللہ مجھے ان لوگوں میں شامل فرما جو بہت زیادہ پاک و صاف رہنے والے ہیں۔(ترمذی)
صفائی کا حکم کس قدر اہمیت کا حامل ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا حکم پنج وقتہ ہے۔ یعنی جب جب مومن نماز ادا کرے ،وضو بھی کرے اور اس وضو کے ساتھ مسواک کرنا سنت قرار دیا گیا ۔یہ عمل رسول اللہ کو اس قدر پسند تھا کہ آپ نے مرض الموت میں بھی اسے کیااور انتقال سے تھوڑی دیر قبل کیا۔ فرمایا کرتے تھے کہ اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتا تو ہر نماز سے قبل مسواک کا حکم دیتا۔ ایک بار کچھ لوگ آپ کی خدمت میں آئے ،جن کے دانت پیلے ہورہے تھے تو انھیں تاکید فرمائی کہ مسواک کیا کریں۔یونہی کئی مقامات پرناپاکی کے بعد غسل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
کاش ہم بھی اپنے ہاتھ میں جھاڑو تھام لیں
اسلام نے صفائی ، ستھرائی کو دین وایمان سے جوڑا ہے۔ یہی سبب ہے جو دینی لٹریچر مدرسوں میں پڑھایا جاتا ہے اس میں طہارت کا بیان بھی ہوتا ہے۔ فقہ کی کتابوں میں ہزاروں صفحات اسی موضوع پر مشتمل ہوتے ہیں مگر کتنی عجیب بات ہے کہ اس باب میں مسلمانوں کے ہاں سب سے زیادہ فقدان دکھائی دیتا ہے۔عام طور پر مسلمان ستھرائی کے اس سبق کو بس جسمانی پاکیزگی تک محدود رکھتے ہیں اور اس کی روح میں اترنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جو مذہب جسمانی صفائی کی اس قدر تاکید کرتا ہے کیا وہ اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کہ مسلمان اپنے محلوں کو گندہ رکھیں اور کوڑا کرکٹ سڑکوں پر ڈال دیں۔ دلی ہو یا ممبئی ،کلکتہ ہو حیدر آباد۔ ملک کا کوئی چھوٹا شہر ہو یا بڑا اگر مسلمان وہاں بستے ہیں تو اس کی شناخت گندگی سے کی جاسکتی ہے۔ گوشت کی دکانیں ضرور ہونگی، جہاں سے تعفن پھوٹ رہی ہوگی۔ ہوٹل ضرور ہونگے جن کے کچن کو اگر دیکھ لیں تو قے آجائے گی۔ سڑکوں اور فٹ پاتھ پر دکانداروں کا قبضہ ہوگا جس سے راستہ چلنے والوں کو بھی پریشانی ہوتی ہوگی۔ یہ مسلمان محلوں کی پہچان ہے۔ یہ تمام مسائل وہ ہیں جنھیں ہم خود بھی مل بیٹھ کر اور سمجھداری سے حل کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے کسی
حکومت کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے لہٰذا تمام مسائل کی طرح ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حکومت ہمارے ساتھ سوتیلا برتاؤ کرتی ہے۔ہماری مسجدوں میں تقریریں ہر جمعہ کو ضرور سنائی دیتی ہیں مگر محلوں کی صفائی کی تاکید شاید ہی کسی امام کی تقریر میں ہوتی ہوگی۔ ہماری بعض دینی جماعتوں کے مبلغین ساری دنیامیں گھوم گھوم کر نماز کی دعوت دیتے پھرتے ہیں مگر کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ کسی مبلغ نے محلوں کی صفائی کابھولا ہوا سبق مسلمانوں کو یاد دلانے کی کوشش کی ہو۔آخر ہمارا پورا زور نصف ایمان پر ہی کیوں ہوتا ہے اور باقی نصف ایمان کو کیوں فراموش کرجاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی یہ خیال ذہن میں بیٹھ چکا ہے کہ صفائی کا کام سماج کے سب سے نچلے طبقے کو کرنا چاہئے،اسی لئے نہ تو ہم صفائی کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی کبھی اپنے ہاتھ میں جھاڑو اٹھاتے ہیں۔ حالانکہ صوفیہ اپنے مریدین اور خلفاء کو تزکیہ نفس کے لئے اکثر اسی قسم کا کام کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ اس سے آدمی کے دل کے اندر سے فخر وغرور نکل جاتا ہے اور عجز وانکساری آجاتی ہے۔ کاش ہمارے علماء، ائمہ مساجد،رہبران قوم اور سماج کے سرکردہ حضرات اپنے ہاتھوں میں جھاڑو تھام لیں اور محلے کے ساتھ ساتھ اپنے دل سے کبروغرور کی صفائی بھی کرڈالیں۔
جواب دیں