کیا بی جے پی، مودی کے بغیر لڑسکے گی؟

حفیظ نعمانی

لیجئے دیکھتے دیکھتے اس الیکشن کا چوتھا رائونڈ بھی آج پورا ہوجائے گا اور اب آدھی سے کم سیٹیں رہ جائیں گی جو فیصلہ کریں گی کہ وزیراعظم کون ہوگا اور حکمراں پارٹی ایک ہوگی یا کئی؟ 2014 ء کی حلف برداری کے بعد جب نریندر مودی کی قیادت میں حکومت بنی تو عام خیال یہ تھا کہ الیکشن ہو نہ ہو وزیراعظم مودی جی ہی رہیں گے اور پھر الیکشن ہوا تو پھر نریندر مودی کے سر پر تاج رکھا جائے گا۔ اس کی وجہ صاف تھی کہ بی جے پی کے علاوہ کوئی پارٹی ایسی بھی نہیں تھی جس کے 50  ممبر ہوتے اور یہ 70  سال میں ملک نے پہلی بار دیکھا کہ 543  کی لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کوئی نہیں ہے۔

ہمیں بچپن سے یہ پڑھایا گیا ہے کہ جس کی بنیاد میں بے ایمانی کی اینٹیں رکھی جائیں اس عمارت میں اس لئے نہیں رہنا چاہئے کہ وہ کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔ 2014 ء کے الیکشن میں بی جے پی کی طرف سے یہ شہرت پھیلائی گئی تھی کہ ہم نے اپنے ورکروں کو منتر بتایا ہے جس کا اثر یہ ہوگا کہ بی جے پی 280  سیٹیں جیتے گی۔ برسوں سے ایسی حکمراں پارٹی جو اپنے بل پر حکومت بنا سکے ہم سب نے نہیں دیکھی تھی اسی لئے اسے ایسی ہی افواہ سمجھا گیا جیسی امت شاہ ہر الیکشن میں پھیلا دیتے ہیں اور جب ان کے اعلان کے خلاف ممبروں کی تعداد کم آتی ہے تو منھ میں مصری کی ڈلی ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن جب نتیجے آئے اور بی جے پی کو 282  سیٹیں ملیں تو ہم میں سے کسی کو یہ اندازہ نہیں ہوا کہ ووٹروں کے علاوہ بھی کوئی طاقت تھی جو کام کررہی تھی اور اس نے منھ مانگی رقم کے عوض منھ مانگے ممبر دے دیئے تھے۔ اس کا اشارہ تو سید شجاع نام کے ایک امریکہ میں مقیم ہندوستانی نے دیا اور آج پانچ سال کے بعد سیاست کے ماہروں کا متفقہ کافیصلہ ہے کہ بی جے پی 200  سیٹیں بھی نہیں لاسکے گی۔

2014ء میں نئی حکومت کا حلف لینے کے بعد اگر وہی سب کیا ہوتا جس کا ہر تقریر میں نقشہ دکھایا تھا یعنی سب کا ساتھ سب کا وکاس اور پورے ملک کو گجرات ماڈل بنانے کا وعدہ یعنی گھر گھر بجلی کھیت کھیت پانی ہر سال دو کروڑ کو روزگار پیٹرول، ڈیزل، گیس اور ہر چیز کی قیمت میں کمی اور روپئے کی حیثیت ڈالر کے قریب لانے کا وعدہ اور تمام ضروری وعدوں کے بعد اصل وعدہ اچھے دن آئیں گے۔ دنیا میں کہیں بھی الیکشن ہوتے ہیں وہ صرف اس پر ہوتے ہیں کہ حکومت بناتے وقت کیا کیا کرنے کا وعدہ کیا تھا اور ان میں کیا کردیا اور کیا رہ گیا؟

ہندوستان کا ہر شہری حیران ہے کہ وزیراعظم بجائے یہ بتانے کے کہ پانچ سال میں کتنوں کو روزگار دیا ملک کے کتنے صوبوں کو گجرات ماڈل بنایا مہنگائی کتنی کم کردی ڈالر کی قیمت میں کتنا فرق کم کردیا اور سو باتوں کی ایک بات یہ کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے زمانہ کے مقابلہ میں ہم نے دنوں کو کتنا اچھا کردیا جس کی وجہ سے کسانوں کی خودکشی میں کتنی کمی آئی ریل کا ٹکٹ کتنا سستا ہوا؟ اور سب کے اچھے دن آگئے۔

مودی جی پورا الیکشن بالا کوٹ کے چاروں طرف گھوم گھوم کر لڑرہے ہیں وہ قوم سے کہہ رہے ہیں کہ صرف یہ دیکھوکہ دہشت گردی کا منھ توڑ جواب دیا جارہا ہے یا نہیں۔ وزیراعظم اور امت شاہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو منھ توڑ جواب دیا جارہا ہے اور وزیر خارجہ وزیر دفاع اور وزیر اہلووالیہ کہہ رہے ہیں کہ بالا کوٹ میں منھ توڑ جواب دینے سے جوانوں کو روک دیا تھا اور تاکید کردی تھی کہ پاکستانی فوجی یا شہری کو مارنا نہیں۔ اور اس کا نتیجہ ہے کہ عمران خان کا منھ جتنی بار بھی ٹی وی پر نظر آتا ہے تو مودی جی کے ’’منھ توڑ‘‘ کی وجہ سے ٹیڑھا نظر نہیں آتا اور نہ پاکستان اپنے بیانات میں ہندوستان کو نامناسب الفاظ میں یاد کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بی جے پی کی طرف سے وزیراعظم اور امت شاہ ووٹ دینے والوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے ان سے کہہ رہے ہیں کہ یہ الیکشن سوال جواب کا نہیں بلکہ شہیدوں کا بدلہ لینے کا الیکشن ہے پاکستان کچھ کرے نہ کرے اسے منھ توڑ جواب دینے کا ہے بدعنوانی پر لگام لگانے کا ہے کامگار سرکار لوٹانے کا ہے شفاف ایماندار اور اپنے منھ سے اپنے کو ملک پر مرٹنے والی کہنے والی کا ہے اور ملک کے تحفظ کو یقینی بنانے کا ہے۔

گذرے ہوئے پانچ سال میں پاکستان کی سرحد پر ہمارے جوانوں نے قربانی دی لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے جوانوں سے چار گنا آتنک وادیوں کو ڈھیر کردیا۔ لیکن اگر چھتیس گڑھ کا حساب دیکھیں تو اُلٹا ہوگا کہ بی جے پی کی سرکار میں سیکڑوں جوان اور افسر شہید کردیئے گئے اور نکسلی اور مائو وادیوں کا جانی نقصان مقابلہ میں بہت کم ہوا پھر ہم کیسے مان لیں کہ دہشت گردوں کا منھ توڑ جواب دیا گیا ہے؟

الیکشن کے تیسرے رائونڈ کے بعد یہ باتیں ہونے لگی تھیں کہ کتنی سیٹیں ملیں گی تب مودی جی کو دوبارہ وزیر اعظم بنایا جائے گا اور کتنی کم ہونے کی وجہ سے لیڈر تبدیل کردیا جائے گا اور کتنی کم ہونے کی وجہ سے حزب مخالف کو دعوت دی جائے گی کہ وہ بنا سکیں تو بنائیں۔ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ موہن بھاگوت صاحب ایسے آدمی کو دوسرا موقع ہرگز نہیں دیں گے جس نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسی بھیانک غلطی کی اور آخر تک یہ نہیں مانا کہ صرف ان غلطیوں کی وجہ سے ملک تباہ ہوگیا اور جتنی مخالفت ہوئی ہے وہ ان دونوں فیصلوں اور روزگار نہ دینے کی وجہ سے ہوئی ہے اگر یہ دو فیصلے نہ کرتے تو بی جے پی 20  سال حکومت کرتی۔ ہم تو حیران ہیں کہ جس آدمی نے بی جے پی کو برباد کردیا وہ اب تک کیسے وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھا ہوا ہے؟

مضمو ن نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 

01 مئی 2019(فکروخبر

«
»

رمضان کے مہینے کا استقبال کیسے کریں؟

بابری مسجد کا انہدام۔ پرگیہ ٹھاکر کے فخریہ کلمات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے