مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون دستورِ ہند کے منافی

اسی طرح عیسائی بھی جب ہندوستان میں داخل ہوئے تو انہوں نے یہاں کے باشندوں کو اپنے قریب لانے کے لئے خدمت کے ہتھیار کا استعمال کیا جس سے متاثر ہوکر لوگ مسیحی مذہب اپنانے لگے لیکن مسلمان ہوںیا عیسائی ان کے قبول اسلام کی رفتار کبھی اتنی زیادہ نہیں رہی کہ ہندو اکثریت کے اقلیت میں تبدیل ہوجانے کا خطرہ پید اہوجاتا۔
تبدیلی مذہب کی ایک اور وجہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے ذریعہ دلتوں کا استحصال ہے، ہندوستانی سماج کے اکثریتی طبقہ میں چھوت چھات کا مرض شروع سے عام رہا ہے اور وقت کے ساتھ اس میں کمی آنے کے بجائے شدت پیدا ہورہی ہے جس کے ردعمل میں آزادی کے۶۷ سال کے دوران بارہا پچھڑی ذات کے ہندوؤں نے اجتماعی طور پر اپنا مذہب تبدیل کرکے احتجاج کا طریقہ اپنایا ہے جیساکہ ۱۹۸۰ء کی دہائی کے دوران تامل ناڈو کے میناکشی پورم کے دلت ہندوؤں کا رویہ سامنے آیا کہ انہوں نے اپنی عزت نفس کے تحفظ کے لئے اسلام قبول کرلیا۔ جس پر اصلاحِ حال کی فکر کے بجائے مقامی اعلیٰ ذات والوں نے آنکھیں بند کرکے معاملہ کو سیاسی رنگ دے دیا گیا اور مذہب کی تبدیلی میں بیرونی سرمایہ کے عمل دخل کی کہانی گڑھ لی گئی، اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ سماجی محرومیوں اور استحصال کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہا اور مذہب کی تبدیلی کے واقعات ہوتے رہے، ڈاکٹر امبیڈکر اور ان کے طبقاتی ہمنواؤں کا بدھ مذہب اختیار کرنے کا فیصلہ بھی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی طرف سے دلتوں کے استحصال کا ردعمل تھا مگر کیونکہ بدھ مت کے ماننے والوں کی تعداد ہندوستان میں بہت کم ہے اور قومی سیاست میں اس وقت تعصب وتنگ نظری کی فضا بھی آج کل جیسی نہیں تھی، اس لئے معاملہ نے زیادہ طول نہ پکڑا، بعد میں اترپردیش کے میرٹھ، راجستھان کے چکواڑھ، ہریانہ کے جھنجھر، دارالحکومت دلی اور دیگر کئی علاقوں میں تبدیلی مذہب کے مزید واقعات ہوتے رہے، ان سب کے پس پشت بھی انصاف کے حصول میں ناکام اور ظلم وستم کے شکار دلتوں کی برہمی کارفرما تھی۔ ان دلتوں کی جوسناتن دھرم کے مطابق نچلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں بھگوان کرشن نے پیدا کیا ہے۔
ایسا شخص جو ایک مرتبہ کسی اچھوت ذات میں پیدا ہوجائے وہ مذکورہ مذہب کے مطابق پوری زندگی اچھوت ہی رہتا ہے یعنی اعلیٰ ذات کے ہندو اسے چھو نہیں سکتے بلکہ ان پر ہر طرح کے ظلم کو روا رکھتے ہیں جس کا ثبوت شیڈولڈ کاسٹس اور شیڈولڈ ٹرائبس کمیشن کی ایک رپورٹ ہے، اس میں بتایاگیا ہے کہ صرف ایک سال کے دوران ۲۳ہزار ۷۴۲ دلتوں پر مظالم کے مقدمات اعلیٰ ذات کے لوگوں پر درج کئے گئے، ان میں سے ۱۰۳۴ معاملے دلت خواتین کی عصمت دری اور ۳۲۴۱ مقدمات دلتوں کے قتل کے تھے، ان اعداد وشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ یومیہ تین وارداتیں دلت عورتوں کی عصمت دری اور ۹واقعات دلتوں کے قتل کے اس ملک میں ہوتے رہے ہیں اور یہ وہ معاملے ہیں جن کا پولس ریکارڈ میں باقاعدہ اندراج ہے، ان کے علاوہ جو شکایات پولس میں درج نہیں ہوسکیں ان کی تعداد بھی اس سے کم نہیں ہوگی۔
جب غریب ومفلس دلت اونچی ذات کے ہندوؤں سے اپنے اوپر ہورہے مظالم کا بدلہ نہیں لے سکتے تو ان کے سامنے بغاوت کا ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ ہندو مذہب سے گلوخلاصی اختیار کرکے بدھ مت ، مسیحیت، اسلام یا سکھ مذہب میں پناہ لے لیں، ایسے واقعات کو زور زبردستی یا لالچ کے ذریعہ مذہب تبدیل کرنا قرار نہیں دیا جاسکتا، نہ قانون بناکر ان پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے، اڑیسہ اور مدھیہ پردیش میں ایسے ہی قانون پہلے سے نافذ ہیں، تامل ناڈو میں ۲۰۰۲ء کے درمیان ’’امتناع تبدیلی مذہب قانون‘‘ بن چکا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی راجستھان ریاست سے بھی ۲۰۰۶ء میں ایسی اطلاعات ملی تھیں کہ وہاں بھی مذہب کی تبدیلی کو مکمل طور پر ممنوع قرار دے دیا جائے گا لیکن اس وقت اس بل پر گورنر کی منظوری نہ مل سکی کیونکہ اس کا مقصد مذہب کی تبدیلی پر قدغن لگانا تھا اور اس کے لئے ایس پی کو مجاز قرار دینا تھا کہ وہ تبدیلی مذہب کی شکایت پر تحقیقات کرواکر کلکٹر کی منظوری سے مقدمہ چلا سکتا ہے اور اگر عقیدہ مذہب کی تبدیلی کا الزام ثابت ہوگیا تو متعلقہ شخص یا گروہ کو دو سے پانچ سال تک کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔اسی بل کے تحت جن لوگوں نے پہلے اپنا مذہب تبدیل کیا تھا ان کی پرانے مذہب پر واپسی کے لئے خصوصی مہم چلانے کی گنجائش بھی تھی۔اس سے ملتا جلتا ایک قانون مدھیہ پردیش میں بھی موجودہ حکومت نے نافذ کررکھا ہے، جس کے تحت حال میں شیوپوری ضلع کے نومسلموں کو شدت پسند ہندؤں نے عتاب کا شکار بنایا اور کلکٹر نے ان کی مدد کی ہے۔یہ قانون نہ صرف ملک کے دستور وآئین کے آرٹیکل ۲۵ کے خلاف ہے بلکہ غیر سیکولر اور جمہوریت مخالفت بھی ہے، اسی طرح حقوق انسانی کے جس عالمی منشور کو ۱۹۴۸ء میں منظور کیا گیا اس کی بھی مذکورہ قوانین سے خلاف ورزی ہوتی ہے ملک کے دستو رنے مذہب اور اس کی اشاعت کی جوآزادی دے رکھی ہے یہ قانون اس کے بھی خلاف ہے۔ جہاں تک خوف ولالچ سے مذہب تبدیل کرانے کا تعلق ہے تو موجودہ زمانے میں اس کا قطعی امکان نہیں، آج ضرورت ایسے قانون بنانے کے بجائے مظلوموں کو انصاف دلانے اور سماج کی دوسری خامیوں کو دور کرنے کی ہے تاکہ کوئی بھی ظلم وزیادتی کے ردعمل کے طور پر اپنا مذہب تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے۔

«
»

حج کے نام پر ایرانڈیا کو سبسڈی دینا بند کیا جائے

بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے