موجودہ حالات ،علماء کی توہین وگستاخی اور مناسب طرزعمل

عبیداختر رحمانی

اللہ تبارک وتعالیٰ نےانسانوں میں صرف رنگ ونسل اورقبیلہ وخاندان کا فرق ہی نہیں رکھاہے ،بلکہ عقل اورفہم میں بھی ہرایک دوسرے سے جداہے، اسی کے ساتھ ہرایک کی طبیعت اورمزاج بھی الگ ہے،کوئی سخت گیر ہے، کوئی نرم طبع ہے، کوئی بہتر منتظم ہے توکسی کو دوسروں کا دل رکھنے کا ہنر آتاہے،یہ اختلاف  تضاد کا  نہیں بلکہ تنوع کا اختلاف ہےاورانہی رنگا رنگ اورمختلف طبیعتوں اورمزاج کے افراد سے مل کر ایک خوبصورت معاشرہ اورسماج تشکیل پاتاہے اورکہنے والاکہتاہے۔

گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن

اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

طبیعت ومزاج اورفہم وعقل الگ الگ ہونے کی وجہ سے فکر وخیال کا اختلاف ہوتاہے جہاں ایک ہی مسئلہ میں ایک کی رائے دوسرے سے مختلف الگ ہوتی ہے، کہیں رایوں کا اختلاف قریب قریب ہوتاہے توکبھی بالکل متضاد اوردوسری سمت میں۔

رائے کے اختلاف کو خوش دلی سے برداشت کرنا اور اختلاف کرنے والے کااحترام برقرار رکھنا نہ صرف مہذب سماج کالازمی حصہ بلکہ اسلامی تعلیم بھی ہے، یہ عین ممکن ہے کہ رائے کایہ اختلاف کبھی بہت آگے بڑھ جائے، اس کے باوجود مخالف کا احترام یہی ہمارے اسلاف کی روایت رہی ہے۔

دورصحابہ میں اس کی مثال ہمیں حضرت علی اورحضرت معاویہ رضی اللہ عنہما میں ملتی ہے، بعد کے ادوار میں آئیں تو ائمہ کرام کے درمیان ہمیں فکر ونظر کے اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے مکمل احترام کی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں،تفصیل کی حاجت نہیں اہل علم جانتے ہیں۔

ماضی بعید نہیں، قریب کی ہی بات ہے کہ تقسیم ملک کے موضوع پر ہندوستان کے اکابر علماء دورایوں میں منقسم تھے، ایک طرف حضرت حکیم الامت تھے تودوسری جانب حضرت مدنیؒ تھے،لیکن اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے کا مکمل احترام کرتے تھے۔

آج ملک کے حالات بڑے نازک ہیں، پہلے اطراف سے مسلمانوں پر حملہ ہوتاتھا،کبھی فسادات تو کبھی اقلیتی تعلیمی اداروں کو نشانہ پرلینا اورکبھی اورکچھ،لیکن اب اس بار مسلمانوں کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگادیاگیاہے اورکوشش کی جارہی ہے کہ برسوں کی کوشش اورمحنت کافصل اب کاٹاجائے۔

ان حالات سے کیسے نمٹاجائے،برسراقتدار طبقہ اوراس کی عملی اورفکری مدد کرنے والوں کے خلاف کیالائحۂ عمل اختیار کیاجائے،اس پر مسلم معاشرے میں دو رائے ہے۔

ایک بڑے گروہ  کی رائے یہ ہے کہ مدارس کو بھی اس کے خلاف کھل کر میدان عمل میں آناچاہئے، علماء کرام نے ماضی میں کھل کراستعماری طاقتوں کو للکاراہے اور قید وبند کی سختیاں ہوں یا پھر دارورسن کا مرحلہ، انہوں نے ہمیشہ اپنے اسلاف کی تاریخ کو مزید روشن کیاہے،اس پر داغ لگنے نہیں دیاہے،آج بھی ضرورت ہے کہ ان حالات میں مدارس اورعلماء کھل کر سامنے آئیں اور حکومتی فیصلوں اوراقدامات کے خلاف احتجاج کریں۔

دوسرے فریق کی رائے یہ ہے کہ مدارس کو اس معاملہ سے دور رکھاجائے  کیونکہ مدارس اورعلماء کےکھل کر سامنے آنے سے خدشہ ہے کہ بی جے پی اس کو فرقہ پرستانہ رخ دے گی ،اورشاید غیرمسلم برادران وطن بھی کھل کر ساتھ نہ آسکیں، لہذا بہتر یہی ہے کہ اس کوغیرمذہبی افراد ہی آگے بڑھائیں ۔ 

اب ذرا اپنے خیال وفکر کو ماضی کی جانب موڑیں اورآزادی سے تھوڑاعرصہ پہلے کا تصور کریں ،تقسیم ہند کے مسئلہ پر پورے ملک میں بالخصوص مسلمانوں میں بحث چھڑی ہے اور مسلمان دو طبقوں میں تقسیم ہیں۔

ایک بڑا گروہ جس میں اکابر علماء بھی شامل ہیں، اس نظریہ کا حامل تھاکہ تقسیم ہندمسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہے،مسلمان ملک کے مختلف صوبوں اورخطوں میں ٹکروں میں بٹے ہیں، اگر دوچارحصے کو ملاکر ایک نیا ملک بنابھی لیاتو بقیہ مسلمان بے اثر اوربے وزن ہوجائیں گے ،جب کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمان زیادہ بہتر انداز میں اپنے مفادات کی حفاظت کرسکتے ہیں۔

دوسری طرف تقسیم ہند کے حامی  علماء کی رائے یہ تھی کہ تقسیم ہند میں ہی مسلمانوں کے مفادات کی زیادہ بہتر طورپر حفاظت ہوسکتی ہے اوراس کیلئے ان کے پاس اپنے دلائل تھے۔

مقصد دونوں کا ایک تھا کہ مسلمانوں کی بہتری کس میں ہے؟

لیکن بعض ناسمجھ جذباتی لوگ اورمیری اصطلاح میں حدوث البلوغ سناً وعقلاًلوگوں نے رائے کے اس اختلاف کو دین وایمان کا مسئلہ بنادیا،مخالف علماء بالخصوص تقسیم ہند کے مخالف گروہ کےعلماء پر ہرنوع کا سب وشتم کیاگیا،ان کے ساتھ زبانی وکلامی دشنام طرازی سے گزرکر ہاتھاپائی کی گئی، ان کی ڈاڑھیاں کھینچی گئیں، ان کے چہرے پر تھوکا گیا اورہرقسم کی توہین اوربے احترامی کی گئی ۔

آزادی کے وقت بھی دونوں فریق کی نیت بخیر تھی، دونوں فریق مسلمانوں کی بھلائی چاہتے تھے، دونوں چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ ہو،لیکن اس کیلئے کیاطریقہ کار اپنایاجائے،اس میں دونوں کی رائے الگ تھی۔

میرا مانناہے کہ آج بھی دونوں فریق کی نیت ان شاء اللہ اچھی ہے، دونوں ملت کا درد رکھتے ہیں اورمسلمانوں سے اس بلا کو ٹالنے کی تدبیر میں مصروف ہیں، لیکن لائحہ عمل کیااپنایاجائے،اس میں اختلاف ہے۔

کیا مقصد کے اتحاد کے ساتھ اگرطریقہ کار میں اختلاف ہو تو مخالف فکر ورائے پر سب وشتم کرناچاہئے،اسے علمی اورغیرعلمی ہرقسم کی مغلظات کا ہدف بناناچاہئے، کیااس کی پچھلی تمام خدمات صرف اس لئے یکسر بھلادینی چاہئے کہ اس کی رائے ہم سے الگ ہے؟کیایہ ایک مہذب سماج اورانسان کا رویہ ہوتاہے؟

افسوس ہے اورزیادہ افسوس ہے کہ عموماًاس معاملے میں علماء پر سب وشتم کرنے والے بیشتر وہ ہیں جو خود مدارس کے فارغین ہیں اور ان میں سے کچھ نے اب عصری تعلیمی اداروں کی اسناد بھی حاصل کررکھی ہیں،انسان اس سے زیادہ کیاگرسکتاہے اورکیاذلیل ہوسکتاہے کہ اس کو اپنے ہم پیشہ افراد ہی حقیر وذلیل نظرآئیں، اپنی ہی صف والوں کی توہین وتذلیل کرکے اسے خوشی ملتی ہو۔

مناسب طریقہ کار یہ ہے کہ جو جس رائے کو درست سمجھتاہے،اس پر عمل کرے، اوردوسروں کو بھی اپنی رائے کے مطابق عمل کرنے دے،یہ تو ہوسکتاہے کہ آپ مضامین لکھ کر ،دلائل کے ساتھ ثابت کریں کہ آپ نے جولائحہ عمل اپنایاہے، وہ موجودہ حالت میں بہتر ہے اورفریق مخالف کی رائے درست نہیں ہے، لیکن میری ہی رائے درست ہے،میں ہی درست ہوں کا رویہ کیسے درست ماناجاسکتاہے؟

آخر فقہ میں بھی توہم مان کرچلتے ہیں کہ ہمارامسلک درست ہے اورخطا کا احتمال ہے اوردوسرے کا مسلک خطاپر مبنی ہے لیکن درستگی کا احتمال ہے توخدارا اس میں بھی یہی رویہ اپنالیں ،اپنی رائے کو درست سمجھیں لیکن اس کا بھی احتمال رکھیں کہ ہوسکتاہے کہ ہم غلط ہوں ،ہماری فکر غلط ہو، ہمارالائحہ عمل غلط ہو اور دوسرے کی رائے کو غلط سمجھنے کے ساتھ تھوڑا احتمال اس کابھی رکھیں کہ ہوسکتاہے کہ اسی کا طریقہ کار درست ہو، ان حالات میں انہی کا طرزعمل بہترہو۔

ایک بات اسی تعلق سے اوربھی کہنے کی ہے، بعض لوگوں کا اس پر اصرار ہے کہ تمام علماء ضرور احتجاج میں شامل ہوں، پوری سرگرمی سے اس تحریک میں حصہ لیں، جہاں احتجاج چل رہاہے، وہاں جائیں،یہ بھی نامناسب طرزعمل ہے ہرایک کامزاج مختلف ہوتاہے، ہرایک سے ایک سا معاملہ کرنایااس کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔

اس موقع سے حضرت امام مالک کا ایک ارشاد بہت یاد آرہاہے جوشاید اسی موقع کیلئے ہے۔

قال الحافظ ابن عبدالبر فی التمہید ھذا کتبتہ من حفظی وغاب عنی اصلی:ان عبداللہ العمری العابدکتب الی مالک یحضہ علی الانفراد والعمل ،فکتب الیہ مالک:ان اللہ قسم الاعمال کماقسم الارزاق،فرب رجل فتح لہ فی الصلا،ولم یفتح لہ فی الصوم،وآخرفتح لہ فی الصدقۃ ولم یفتح لہ فی الصوم،وآخرفتح لہ فی الجھاد فنشرالعلم من افضل اعمال البر،وقدرضیت بمافتح لی فیہ،ومااظن ماانافیہ بدون ماانت فیہ،وارجو ان یکون کلانا علی خیروبر(سیراعلام النبلا،مالک الامام /48-135)

حافظ ابن عبدالبرتمہید میں لکھتے ہیں ’یہ میں نے اپنی یادداشت سے لکھاہے اور اس کی اصل مجھ سے غائب ہوگئی ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ عبداللہ عمری جوکثرت عبادت کی وجہ سے عابد کے لقب سے مشہور تھے انہوں نے امام مالک کو خط لکھااوران کو لوگوں سے الگ تھلگ رہنے اورعبادت میں مزید وقت لگانے کی ترغیب دی۔ امام مالک نے ان کے خط کے جواب میں لکھا ’اللہ نے اعمال کورزق کی طرح تقسیم کردیا ہے۔ بعض لوگ نماز کی جانب راغب ہوتے ہیں اورروزہ رکھنے کی جانب (نوافل)وہ مائل نہین ہوتے۔اوربعض لوگ ایسے ہوتے ہیں  کہ وہ صدقہ وخیرات خوب کرتے ہیں اورروزہ زیادہ نہیں رکھتےاوربعض لوگوں کو جہادمیں وقت لگانا ہی مرغوب ہوتاہے۔تومیرے خیال میں علم کی نشرواشاعت نیکی کے بہترین کاموں میں سے ہے جس کی جانب اللہ نے میری رغبت رکھی ہے اور میراخیال ہے کہ میرامشغلہ آپ کے مشغلہ سے کم تردرجے کا نہیں ہےاورمجھے اس کی بھی امید ہے کہ ہم دونوں نیکی اوربھلائی کاکام کررہے ہیں۔

یاد رہے کہ کچھ اسی قسم کا جواب حضرت مولانا زکریا صاحب شیخ الحدیثؒ نے اسلامی سیاست (الاعتدال فی مراتب الرجال) اپنے ایک شاگرد کو دیاہے،جس نے ان سے آزادی کی لڑائی میں حصہ نہ لینے کے بارے میں سوال کیاتھا۔

«
»

سنبھل کا پکا باغ۔ دوسرا شاہین باغ

یہ داؤ بھی الٹا پڑگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے