حالانکہ ۱۹۵۲ء میں ملک کے ایک تہائی حصہ میں نشہ بندی لاگو تھی لیکن آج ایک دو ریاستوں کے سواپورے ملک میں نشہ بندی کا خاتمہ ہوچکا ہے اور آزادی کے وقت جن شراب بنانے کے کارخانوں کی تعداد ۸۳ تھی آج تین ہزار کے قابل لحاظ عدد کو پار کرچکے ہیں اور ہر سال ان کارخانوں میں تیار کی گئی شراب جو یقینا۵۰ ارب روپے کی ہوتی ہے پوری آزادی سے استعمال کی جارہی ہے اور صرف اسی سے ہر سال حکومت کو اربوں روپے کی آمدنی ہورہی ہے۔
خمر یات اور منشیات کا یہ بڑھتا ہوا سیلاب جہاں ملک کی اخلاقی قدروں کو پامال کررہا ہے وہیں حکمراں طبقہ کی اس خود غرضی اور مفاد پرستی کو بھی نمایاں کرتا ہے جس کے تحت اس نے اپنے حقیر مالی مفادات پر قوم کے اخلاق اور کردار کو بھینٹ چڑھادیا ہے۔ گذشتہ چھ دہائیوں کے دوران یہی ستم نہیں ہوا کہ حکومت اور شراب کے تاجروں نے عوام کے سرمایہ اور صحت سے کھیل کر خوب چاندی بنائی ہو بلکہ یہ بھی ہوا ہے کہ اس کے وسیلے سے کالی دولت ملک کی اقتصادیات کے رگ وپے میں دوڑنے لگی ہے۔
اس کے علاوہ دوسری سنگین حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے کاربار کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان تمام اصول وقواعد کو نہایت بے شرمی سے توڑ دیا گیا ہے جو مسجدوں، مندروں، گردواروں، تعلیمی اداروں اور دیگر ایسے مقامات کے نزدیک جہاں خواتین کی آمد ورفت رہتی ہے شراب خانے قائم کرنے اور دوکانیں لگانے کی اجازت نہیں دیتے، مگر رائے عامہ کی مرضی کے خلاف کسی کا اثر ورسوخ وہاں کام آجاتا ہے اور نتیجہ میں جسم پر کوڑہ کے زخم کی طرح نظر آنے والے شراب خانے اور دوکانیں وہاں کام کرنے لگتی ہیں اور وہ سب سے زیادہ غریبوں یا نچلے متوسط طبقہ کے اخلاق وکردار نیز اقتصادیات کی تباہی کا باعث بنتے ہیں اس کے علاوہ متمول طبقہ ہی نہیں پسماندہ طبقات بالخصوص قبائل بھی منشیات کی اس لعنت میں بری طرح گھرتے جارہے ہیں، لہذا گذشتہ دنوں اس خبر نے ملک کے اخبارات میں نمایاں جگہ پاکر سب کو حیران کردیاتھا کہ مدھیہ پردیش کے بستر اور جھابوا جیسے پچھڑے اضلاع کی آدیباسی لڑکیوں نے شغل مے نوشی میں بڑے بڑے شہروں کے لڑکوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جبکہ بڑے شہروں میں بھی نشہ بازوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور صرف ممبئی کے اسکولوں اور کالجوں کے طلباء وطالبات میں روز افزوں نشہ کی لت کو دیکھتے ہوئے ممبئی یونیورسٹی نے اس کا جائزہ لینے کے لئے ایک خصوصی شعبہ قائم کیا ہے جس نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایسے نوجوان طلباء اور طالبات کی ممبئی عظمیٰ میں تعداد ایک لاکھ سے کہیں زیادہ ہے۔
اس سے زیادہ سنگین صورت حال دارالحکومت نئی دہلی کی ہے جہاں کئے گئے ایک سروے کے مطابق صرف نئی دہلی میں ایک لاکھ سے زائد طلباء اور طالبات نشہ کی عادت میں مستقل گرفتار ہیں اور ان میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ پھر نشہ کی لت نے کیوں کہ ہمارے سماج میں ایک فیشن اور اس سے بڑھ کر عادت کا درجہ حاصل کرلیا ہے اس لئے اس کے حصول یا فراہمی میں بدعنوانیاں بھی بڑھتی جارہی ہیں، جس کا ایک ثبوت ممبئی، بڑودہ، بھونیشور، احمدآباد اور اندور وغیرہ کے وہ حادثے ہیں جن میں زہریلی شراب پی کر اب تک ہزاروں افراد موت کی نیند سوچکے ہیں۔
جہاں تک اس لعنت کے انسداد کا سوال ہے تو افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ جس شدت سے یہ برائی نوجوان نسل میں پھیل رہی ہے اس شدت سے اس کو روکنے کی نہ تو حکومت کو فکر ہے نہ نئی نسل کے سرپرستوں کے پاس وقت ہے کہ وہ دیکھیں کہ انکے چہیتے کیا گل کھلا رہے ہیں۔ حالانکہ اس کے لئے سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور سرپرست دونوں اس پر خصوصی توجہ دیں خاص طور پر جن ریاستوں میں بھارتیہ جنتاپارٹی کی ریاستی حکومتیں کام کررہی ہیں اور وہاں ہندو تہذیب واخلاقیات کے تحفظ کی دہائی دی جارہی ہے کم از کم وہاں شراب بندی ہی کردی جائے ۔ تو اس سے روکنے والا انہیں کون ہوگا۔سنگھ پریوار کا ہی ایک حصہ شیوسینا اور اس کے سربراہ آنجہانی بال ٹھاکرے کے بارے میں یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ وہ شراب نوشی کے مکمل امتناع کے حامی نہیں تھے اسی لئے مہاراشٹر میں ان کے دور حکومت میں گجرات اور آندھرا پردیش کی طرح شراب پر پابندی عائد نہ ہوسکی تھی۔ حکمرانوں اور سیاست دانوں کا مفاد پرستی پر مبنی یہی رویہ ہے جو ہندوستان میں منشیات کے سیلاب میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔
جواب دیں