بسم اللہ الرحمن الرحیم
( پہلی قسط )
تحریر:۔ سید ہاشم نظام ندوی
”پھول“نسبت بچوں کی طرف کی گئی تو بن گیا ”بچوں کا پھول“۔چمنِ بھٹکل میں ایک کلی چٹکی، بچوں کا”پھول“کھلا، خوشبو سے فضا معطر ہوئی، ماحول عطر بیز ہوا۔ مولانا محمد الیاس صاحب فقیہ احمدا ندوی کے زیرِ سرپرستی ،اور مولانا عبدالحمیدصاحب رکن الدین ندوی کے ساتھ مولوی عبد اللہ دامدا ابو ندویؔکے زیرِ ادارت نونہالانِ قوم کا ایک دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا، اس کے نائبین اور جملہ رفقا ومعاونین نے اپنی اپنی ذمے داریاں نبھائی اس طرح فرزندانِ جامعہ اسلامیہ بھٹکل نےاپنے اساتذہ ورفقاء اور سرپرستوں کے تعاون سے اس سفر کا آغاز کیا، جومحض توفیقِ الہی کے بعد فضلائے جامعہ اور چند درد مندانِ قوم کے عملِ پیہم سے انتہائی کم مدت میں کامیابی سے ہمکنارہوا۔
یقینا اس ماہنامے " بچوں کا پھول" کے کھلنے سے آسمانِ اردو پر ایک نیا آفتاب طلوع ہوا، قارئینِ ادبِ اطفال کی امیدوں کے چمن میں بہار آگئی، ارمانوں کے پھول کھلے، گلہائے رنگا رنگ سے گلشنِ علم وفکر کی رونق دو چند ہوگئی۔ جوانوں میں عقابی روح بیدار ہوئی اور "اردو ادب" فروغ پانے لگا۔ بچوں کے کتب خانوں میں اضافہ ہونے لگا۔ جس کے ذریعے اردو کی بقا وفروغ اور اس کی جاں گدازی میں سرزمینِ بھٹکل نے مزیداور ایک اعزاز پایا۔
یہ ایک ”پھول“نہیں بلکہ ایک حسین گلدستہ ہے،ایک ماہنامہ نہیں بلکہ ایک تربیت گاہ ہے،ایک مجلہ نہیں بلکہ ایک دانشکدہ ہے۔ یہ صرف ادبِ اطفال تک محدود نہیں بلکہ اس سے بالواسطہ بڑے بھی فیضیاب ہو رہے ہیں، انھیں بھی علمی اور ثقافتی غذا مل رہی ہے، ان کے بھی ذوق کی تسکین ہو رہی ہے۔ گویا یہ بنام "پھول" ایک فکر ہے، ایک تحریک ہے، ایک پیغام ہے، ایک دعوت ہے، جس میں بچوں کا ادب ہے، ہماری تہذیب ہے، اپنی ثقافت ہے، اسلامی تاریخ ہے، تربیتی کہانیاں ہیں،سلف کی زندگیاں ہیں، بڑوں کے بچپن ہیں،تعمیری ادب کے تراشے ہیں، خوبصورت نقشے ہیں، سیرت کے گوشے ہیں، تاریخ کے دریچے ہیں، بزرگوں کے قصے ہیں،سچے واقعات ہیں،نکتے ہیں لطیفے ہیں،غور وفکر کے زاویے ہیں،ایمانی جذبے ہیں، جس سےجڑےبچے مستقبل کے معمار ہوں گے، آنے والے دنوں کے فنکار بنیں گے، ملتِ اسلامیہ کو اچھے سلجھے ہوئے قلم کار ملیں گے، صاحبِ فکر وفن تیار ہوں گے، پاکیزہ خیالات میں ڈھلے ہوئے نوجوان ملیں گے۔ یقینااس ”پھول“کو پڑھ کر جوبچہ جوان ہوگا وہ کِھل کر گلاب ہوگا، سچا پکا مسلمان ہو گا،اچھا شہری بنےگا،وفا دار ہندوستانی ہوگا اورمعاشرہ کا اچھا فرد بن کرسوسائیٹی کا مفید عنصر ثابت ہوگا۔
معزز قارئین :۔ بلا شبہ ہر آغاز اپنے انجام کا پتہ دیتا ہے، کامیاب حال روشن مستقبل کو بتا تاہے،چوں کہ ادارہ ادبِ اطفال کی یہ ایک پہل تھی، جو مادرِ علمی جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے فیض ہی کا تسلسل تھا۔ جس کی بنیاد اخلاص پر تھی،بڑوں کے ساتھ مشوروں پر مبنی تھی، جو ایک خوبصورت اوربہترین آغاز تھا، چند تعمیری فکر کے حامل ادب نوازوں، با صلاحیت نوخیزوں اور صالح نوجوانوں پر مشتمل یہ چھوٹا سا قافلہ آگے بڑھتے بڑھتے ایک کارواں کی شکل اختیار کر گیا، عملِ پیہم اور جہدِ مسلسل سے کامیابیاں اس کے قدم چومنے لگیں، نئے نئے شعبوں کا اضافہ ہوتا گیا، زلف اورسنورنے گی، گیسو ئے تابدار اور بھی تابدار ہوگیا،سلسلہ سے سلسلہ جڑنے لگا۔ جو آج بفضل خداوندی "ادارہ ادبِ اطفال" کی شکل میں منظم ادارے کی شکل اختیار کر چکا ہے، اس کی مختلف کمیٹیاں سرگرمِ عمل ہیں، الگ الگ شعبے جات میں ذمے داریاں تقسیم کی گئی ہیں، جس کی یہ چند جھلکیاں ہیں، بلکہ کسی کتاب کے ذیلی عناوین یا موضوعات کی فہرست اور سرخیاں ہیں۔
شعبۂ کتب خانہ :۔
کتاب ، مکتبہ ، کتب خانہ اور مدرس و مدرسہ قوموں کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں ، یہ حصولِ علم وتعلیم کے بنیادی ذرائع ہیں ۔ علم ایک نور ہے،یہی انسانیت کا حقیقی زیور ہے ۔ اگر غور کیا جائے توکتابیں اور کتب خانے انسانی زندگیوں کے عظیم سرمایے ہیں، یہیں سے علم وحکمت، فہم وفراست اور معلومات کا خزانہ ملتا ہے، فکر وفن کے راستے ملتے ہیں جس سے قومیں ترقی کرتی ہیں اور وہ تہذیب وتمدن سے آشنا ہوتی ہیں ۔ کتب خانوں کا تصور انتہائی قدیم ہے ،عہدِ قدیم سے ہی کتب خانے معاشرہ کی علمی اور فکر ی ترقی میں مددگار رہے ہیں اوراسے تخلیقی اور تعمیری رخ دینے میں اس کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قومی زندگی میں کتابوں اور کتب خانوں کی اصل اہمیتمسلمانوں کے ذریعے ہی ہوئی ہے ۔اس کے ساتھ مسلمانوں کو ایک خاص تعلق ہے۔ ہمارے آخری پیغمبر نبئ اکرم صل اللہ علیہ وسلم پر جو پہی وحی نازل ہوئی وہ یہی تھی کہ "پڑھ" ۔ اور اسی ایک لفظ کے آغاز سے آپ کو صاحبِ کتاب بننے کا شرف ملا، جس کے ذریعے آپ کی امت کو بھی ایک عظیم کتاب کا حامل اور مبلغ قرار دیا گیا، ۔ یہی وہ کتاب ہے جس میں ایک طرف سعادتوں اور برکتوں کا گنج ہائے گراں مایہ ہے۔ تو دوسری طرف اسی کی تشریح احادیثِ مبارکہ کا صاف وشفاف ذخیرہ اور اس کائنات کی معلومات کا خرانہ ہے، جن معلومات کا سلسلہ ابو البشر حضرتِ آدم علیہ السلام جا ملتا ہے،گویا دینی نقطۂ نظر سے بھی مسلمان ہی اس کا اصل وراث ہے ۔
اسی لیے جہاں جہاں مسلمانوں نے کتب خانے قائم کیے وہاں اغیار نے مختلف حیلے بہانوں اور خوں آشام حملوں کے ذریعے کتب خانوں کو نشانہ بنایا ، وہاں کا اسلامی اور تاریخی سرمایہ چوری کر کے لے گئے ، ہماری کتابوں کو یورپ کی لائبریریوںمیں منتقل کیا اورمسلمانوں کی کتابوں کو اپنی جاگیریں بتاتے رہے۔شاعرِ مشرق علامہ اقبال رحمہ اللہ نے بھی اپنے اس شعر میں انہی حقائق کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں اُن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا
ضرورت صرف اس کی نہیں ہے کہ کتب خانوں کو بنایا جائے یا ان کتابوں کی حفاظت کی جائے جو بلاشبہ ایک عظیم کام بلکہ ہمارے عظیم سرمایے کی حفاظت بھی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ان کتب خانوں کو آباد کرنے اور اس میں آکر پڑھنے والوں کے لیے ان کی ضروریات کا پورا کرنا ، ان کے لیے مطلوبہ سہولیات کا پورا کرنا بھی وقت کا اہم تقاضا ہے، جس سے افراد خواہی یا نہ خواہی کتب خانوں کا رخ کر سکیں اور اپنی علمی، ادبی اور ثقافتی تشنگی پوری کر سکیں۔
اسی کتاب اور کتب خانوں کے پیشِ نظر بچوں کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے خوبصورت اور رنگا رنگ لائبریوں کے قیام کو ادارے کی بنیادی ترجیحات میں شامل کیا گیا ہے ، بلکہ اس کے قیام کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اس طرح کی چھوٹی چھوٹی لائبریریوں اور کتب خانوں کا شہر شہر ، نگر نگر اور گاؤں گاؤں قائم کرنا بھی ہے،جس کا آغاز محسنِ قوم سابق مہتممِ جامعہ اسلامیہ مولانا عبد الباری فکردے ندوی کی طرف منسوب لائبریری سے کیا گیا اور تقریبا دو سال قبل ماہِ شعبان المعظم میں مہتممِ جامعہ مولانا مقبول احمد کوبٹے ندوی کے ہاتھوں اس کا افتتاح ہوا۔ الحمد للہ یہ ایک کامیاب تجربہ ثابت ہوا، جس سے نونہالانِ قوم خاطر خواہ فائدہ اٹھارہے ہیں، کئی بچے اس کتب خانے کی کتابوں سے استفادہ کر رہے ہیں اور بچوں کو کتاب سے مربوط کرنے کے لیے وقتا فوقتا انعامی مقابلے رکھے جاتے ہیں۔
اسی دائرے کو مزید وسعت دیتے اور اس جانب ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے بروز جمعرات بعد نماز عصر مورخہ ۱۹ نومبر سنہ ۲۰۲۰،شہر کے قدیم تاریخی سلطانی محلے میں واقع زہرہ حسن کامپلیکس کی پہلی منزل پر ایک اور کتب خانہ قائم کیا گیا، اور اس لائبریری کو بھٹکل کے عظیم شاعر جناب محمد حسین صاحب فطرت مرحوم کے نام منسوب کر کے ان کے نام کو زندۂ جاوید بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جو یقینا فکر وفن ہی کی نہیں بلکہ اس عظیم فنکار کی حقیقی قدر دانی کا ثبوت ہے۔ جس کا افتتاح جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا گجرات کے ذمے دار جناب مولانا حذیفہ بن غلام وستانوی صاحب کے دستِ مبارک سے کیا گیا ۔
ان کتب خانوں کا سلسلہ اب بھٹکل کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بھی شروع ہو چکا ہے۔جس سے اردو زبان وادب کے ذخیرےمیں قابلِ قدر اضافے ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالی اس ادارے اور اس میں کام کرنے والوں کو نظرِ بد سے بچائے، ان میں مزید اخلاص پیدا فرمائے اور انھیں استقامت کے ساتھ اپنی کوششوں میں مگن ہو کر پرورشِ لوح وقلم کی توفیق عطا فرمائے۔
فطرت لائبریر ی کےافتتاح سے ایک طرف ہمیں اس کی خوشی ہے کہ بچوں کے کتب خانوں میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہوا، تو دوسری طرف اس سے بڑھ کر اس بات سے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ فرزندانِ جامعہ اسلامیہ نے اس کتب خانہ کا انتساب کتاب دوست اور علم پرور استاذِ مکرم جناب محمد حسین صاحب فطرت کی طرف کر کے پورے طبقے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کی طرف سے فطرت کی قدر دانی اور فطرت نوازی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کے شاگردِ رشید برادرم مولوی عبد اللہ غازیؔ ندوی لکھتے ہیں: "حقیقت میں ادارہ ادب اطفال بھٹکل نے فطرتؔ صاحب کا نام رکھ کر لوگوں کو بہت سی باتوں کی طرف اشارہ دیا۔انھوں نے فطرتؔ صاحب کی شاعری سے زیادہ ان کے فکری و تربیتی پہلو کو مدنظر رکھا اور فطرتؔ صاحب کے عظیم کارنامے کو خراج عقیدت پیش کیا۔اس عظیم شاعر نے اُس دور میں صالح ادب و شاعری کی ترویج کا بیڑا اٹھایا جب شعراء کی اکثریت اور نوجوان طبقے کی ایک بڑی تعداد گانوں کی رسیا ہورہی تھی اور فلمی دنیا کا شباب سرچڑھ کر بول رہا تھا،اس زمانے میں نوجوان دلوں پر نعت نبیؐ کی پاکیزگی اور شاعری میں اسلامی رنگ و آہنگ کی اشد ضرورت تھی۔۔۔"
بھٹکل کے لیے فطرتؔ صاحب کی حیثیت محض ایک شاعر کی نہیں ہے، بلکہ ایک دبستانِ شعر وسخن اور مکتبِ فکر وفن کی ہے، آپ ایک شاعر ہی نہیں بلکہ شاعر گر تھے، ان کا گھر ہم شاگردوں کے لیے ایک مدرسے کی حیثیت رکھتا تھا۔ طلبۂ انجمن وجامعہ کے لیے اپنا قیمتی وقت فارغ کرنے کو اپنے لیے سعادت گردانتے تھے، آنے والوں کی ہمت افزائی فرماتے، انھیں آگے بڑھنے کے حوصلے فراہم کرتے تھے،زبان وادب کی اصلاح کرتے، علم دوستی آپ کی فطرت میں تھی، فکر وفن کی قدر دانی ان کا خاص وصف تھا۔ان سے تھوڑا بہت استفادہ کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ البتہ وہ شاگردانِ عزیز جنہوں نےخصوصی کسبِ فیض کیا اور کسی نہ کسی حیثیت سے شرفِ تلمذ رہا ہے ، ان میںجناب ابراہیم خلیل جوہرؔ،جناب رحمت اللہ راہیؔ، مولوی نعمانؔ اکرمی ندوی، مولوی محمد نیر ؔقمر ندوی،مولوی عبید اللہ اسحاقی ندوی، ڈاکٹرعبدالحمید اطہر رکن الدین ندوی ، مولوی شکیبؔ احمد شہ بندری ندوی، جناب اسحاقحسانؔ رکن الدین ، مولوی ابوبکرتونسے ندوی، مولوی سمعانؔ خلیفہ ندوی، مولوی سعود مجاہدؔ شنگیٹیندوی ، مولوی عبد اللہ غازیؔ دامدا ابو ندوی اور مولوی سیدحسن بافقیہ ندوی وغیرہ کے اسمائے گرامی سرِ فہرست ہیں۔ راقم الحروف نے اپنے استاذ جنابِ فطرتؔ کے انتقال پر جو مرثیہ لکھاتھا، اس کے مقطع میں جنابِ فطرتؔ کے فکر وفن کی نا قدری کا شکوہ ان دو مصرعوں میں اس طرح قلمبند کیا تھا۔
جواب دیں