از : محمد ندیم الدین قاسمی
ماہ رمضان ؛ تقویٰ، پرہیزگاری، ہمدردی، غمگساری، محبت و الفت،خیر خواہی، خدمتِ خلق،راہِ خدا میں استقامت، جذبۂ حمیت ، جذبۂ اتحاد،اپنے گناہوں سے توبہ کرکے اللہ اور رسولؐ سے بے انتہا لو لگانے کا مہینہ ہے، یہ روحانیت اور نیکیوں کا موسمِ بہار ہے ، اس میں گناہ جھڑتے ہیں ، خیر وبھلائی کی تازہ کونپلیں پھوٹتی ہیں، مغفرت کی ہوائیں تیز چلتی ہیں ، رحمت کی پھوار برستی ہے ، نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی عملی مشق ہوتی ہے ، یہ آخرت کی کمائی اور نیکیاں سمیٹنے کا خاص سیزن ہے ، یہ دریائے رحمت کے جوش اور انوار وبرکات کے شباب کا مہینہ ہے ، یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہر رات اللہ کا منادی پکارتا ہے : یا باغی الخیر اقبل، ویا باغی الشر اقصر۔
ترجمہ: اے خیر ونیکی کے متلاشی ! آگے بڑھ اور اے شر وبدی کے خواہش مند ! رک جا ۔
اس لئے اب اگر ہم رمضان میں چند چیزوں کا اہتمام کریں گے تو ان شاء اللہ یہ رمضان ،زندگی کا ایک بہترین رمضان ثابت ہوگا ۔
(1)معاصی سےتوبہ کریں
گناہ اور قصور تو انسان کی صفت ہے، اس سے گناہ ہوہی جاتے ہیں ؛اس لیے اس ماہِ مبارک میں اپنے تمام گناہوں سے خلوصِ دل کے ساتھ توبہ کریں اور ندامت کے آنسو بہاکر اللہ سے معافی مانگیں ،وہ یقینا معاف کرے گا اور خطاؤں کو بخش دے گا۔علامہ آلوسیؒ نے تفسیر روح المعانی میں "سورۂ قدر"کے ذیل میں ایک روایت نقل کی ہے، جس سے گنہگاروں کی ندامت اور شرمندگی کی غیرمعمولی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ گنہگاروں کا رونا، آہ کرنا، گڑگڑانا مجھے تسبیح پڑھنے والوں کی "سبحان اللہ " کی آوازوں سے زیادہ محبوب ہے۔
(2)معاصی سے بچنے کا خوب اہتمام کریں
روزہ صرف بھوکہ ،پیاسہ رہنے کا ہی نام نہیں ؛ بلکہ گناہوں سے اجتناب ہو یہی حقیقی روزہ ہے، جھوٹ ،غیبت،بدگوئی اورگالی گلوچ ،دھوکہ فریب، اور اس قسم کی تمام بے ہودگیوں اور بدعملیوں سے بھی اجتناب یہی روزہ کا اصل مقصد ہے؛اس لیے کہ نبیﷺ نے فرمایا:من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه (صحیح بخاری، رقم:1903)
"جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا،تواللہ تعالیٰ کو کوئی حاجت نہیں کہ یہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑے"۔
(3)تہجد کی پابندی کریں
کوشش کریں کہ سحر میں کچھ وقت اللہ کے ساتھ لگائیں، یہ خدا سے راز ونیاز کا اور دعا کی قبولیت کا بہترین وقت ہے ، حدیث میں ہے : ينزل ربنا تبارك وتعالى إلى السماء الدنيا كل ليلة حين يبقى ثلث الليل الآخر فيقول: من يدعوني فأستجيب له، من يسألني فأعطيه، من يستغفرني فأغفر له، حتى ينفجر الفجر۔( بخاری)
ترجمہ : ہمارا پروردگار ہر رات کے آخری حصہ میں آسمانِ دنیا پر آکر فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے دعا کرے، میں اس کی دعا قبول کروں ، کوئی ہے مجھ سے مانگنے والا ؟ جو مجھ سے مانگے، میں اس کو دوں، کوئی ہے روزی کا طلب گار؟ جو مجھ سے روزی مانگے، میں اس کو روزی دوں۔اس کی فضیلت ذکر کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا : مومن کی بزرگی "قیام اللیل" میں ہے اور عزت لوگوں سے استغناء میں ہے۔ (سنن الترمذی، 2 : 194، : 3549)۔ بندہ جب اپنے رب سے تعلق آشنائی، محکم و پختہ تر کر لیتا ہے تو اس کی زندگی علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر کی عملی تفسیر بن جاتی ہے
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی ۔
(4)روزوں کی پابندی کریں
اس ماہ مبارک میں سب سے اہم عمل،روزہ رکھنا ہے،حدیث میں ہے :
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحیح بخاری،رقم:1901)
"جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے(یعنی اخلاص سے)رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔حکیم الامتؒ بہشتی زیور میں روزہ کے باب میں لکھتے ہیں کہ روزہ داروں کو اللہ قیامت کے دن عرش کے نیچے بلائیں گے، اور فرمائیں گے کہ اے روزہ رکھنے والو! تم ہمارے مہمان ہو؛کیوں کہ تم نے اپنا پیٹ جلایا تھا ، کھانا ہوتے ہوئے بھی ہمارے خوف سے نہیں کھایا تھا ، تم ہمارے عرش کے نیچے آجاؤ ،تمہارے لئے دسترخوان بچھایا جائے گا۔
(5)صدقہ وخیرات کریں۔
صدقہ وخیرات کثرت سے کریں ،حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں :كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -اجود الناس وَكَانَ اجود مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْانَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -اجود بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ. (مسلم ، رقم 2208)
ترجمہ :رسول اکرمﷺ بھلائی کے کاموں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے اور آپ کی سب سے زیادہ سخاوت رمضان کے مہینے میں ہوتی تھی۔۔۔اس مہینے میں(قرآن کا دور کرنے کے لئے) آپ سے جب جبرئیل علیہ السلام ملتے،تو آپ کی سخاوت اتنی زیادہ اور اس طرح عام ہوتی جیسے تیز ہوا ہوتی ہے ؛بلکہ اس سے بھی زیادہ"۔
اللہ کی رضا جوئی کے لیے فقراء ، مساکین ،یتیموں ، معاشرے کے معذور اور بے سہارا افراد کی ضروریات پر خرچ کریں؛لیکن خدا کے واسطے تصویر کشی اور سیلفی لے کر ان کی غیرت کا جنازہ نہ نکالیں۔
(6)تلاوت کثرت سے کریں
یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا ؛ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم اور رمضان المبارک آپس میں لازم ملزوم ہیں اور ان کا یہ جوڑ اس قدر مضبوط ہے کہ نہ صرف یہ کہ رمضان المبارک میں قرآن کریم اتارا گیا ؛بلکہ اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ کی یہ مقدس کتاب پڑھی بھی سب سے زیادہ جاتی ہے۔امام رازیؒ لکھتے ہیں : روزہ اور قرآن کریم کے درمیان گہرا تعلق ہے ، جب مہینہ نزول قرآن کے ساتھ خاص کیا گیا تو ضروری تھا کہ یہ مہینہ روزوں کے ساتھ بھی خاص ہو۔( تفسیر کبیر ۳/ ۹۸) تمام اہل اللہ کا تجربہ ہے کہ دل کی صفائی ،ایمانی کیفیت میں زیادتی اور انسان میں استقامت کی صفات پیدا کرنے میں سب سے زیادہ پُر اثر اور اہم ترین عمل ، قرآنِ کریم کی تلاوت ہے ۔ اللہ کا ارشاد ہے :
ترجمہ :جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں ، اور جنھوں نے نماز کی پابندی رکھی ہے اور ہم نے انھیں جو رزق دیا ہے ، اُس میں سے وہ (نیک کاموں میں ) خفیہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں ، وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں ، جو کبھی نقصان نہیں اٹھائے گی۔ ان کے اعمال کا انھیں پورا اجر وثواب دیا جائے گا۔(فاطر : 29)
لہٰذا اس ماہ میں کثرت سے تلاوتِ قرآن میں مشغول رہنا چاہیے،نیکیوں کے اس موسمِ گلِ رنگ سے فائدہ اٹھانا چاہیے، اگر اس ماہ بھی ہم معاصی سے باز نہ آئیں ، رحمتوں کی یہ فصلِ بہار ، ہمارے دامن میں اجالا نہ کرسکے ، ان بابرکت ایام میں بھی ہم اپنے کرتوتوں کی سیاہ روش تیاگنے پر تیار نہ ہوں ، تو افسوس ہے ہماری بدبختی اور شقاوت پر ! حضرت جبرئیلؑ نے ایسے نامراد کی تباہی اور بربادی کی بدعا فرمائی اور زبانِ رسالت نے اس پر آمین کہا۔
اللہ ہمیں اس ماہِ مبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں