رمضان اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن کریم کو نازل فرمایاہے،جس کتاب نے دنیا کو زندگی کا ایک نیا شعور،ربانی طریقۂ معاشرت اوراخلاقیات و اعمال کے الہامی اصول سے روشناس کرایا۔اس مہینے میں ہی اسلام کی اولین جنگ غزوۂ بدرکا معرکہ پیش آیا،جس میں مسلمانوں کو معجزاتی و کرشمائی فتح نصیب ہوئی اور جس کے بعد دنیا کے نقشے پرایک خدا کو ماننے والی ایک عظیم الشان امت کا با معنیٰ وجودہوا۔الغرض اس مہینے کی بے شمار فضیلتیں اور اہمیت کے بہت سارے اسباب ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہمارے نبیﷺاس مہینے میں اورمہینوں کے بالمقابل بہت زیادہ عبادت بھی کیا کرتے تھے اور اپنے اصحاب کو بھی اس کی تلقین کیا کرتے تھے۔آپ ؐاس مہینے میں فقراء اور غرباء کی دستگیری میں بھی پہلے سے زیادہ اضافہ فرمادیتے اوربخاری کی حدیث کے مطابق آپ کی سخاوت اس مہینے میں تیزو تند آندھی کی طرح چلتی تھی یعنی آپ ضرورت مندوں پر بے تحاشا خرچ کیا کرتے تھے۔اللہ کی زیادہ سے زیادہ رحمت کے حصول کے لیے ہی آپؐ نے دن کے روزے علاوہ اپنی امت کے لیے تراویح کی نمازکو مشروع فرمایا،تاکہ زیادہ سے زیادہ سجدوں کے ذریعے مسلمان اپنے رب کا قرب حاصل کر سکیں۔آپؐؐنے فرمایا کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے روزانہ فرشتے آسمانِ دنیا پر اترتے اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ’’اے خیر کے طلب گاراللہ کی بارگاہ کی طرف متوجہ ہواوراے شراور برائیوں کے عادی انسان اپنی برائیوں سے رک جا‘‘اب جولوگ واقعتاً خیر کے طالب ہوتے اور اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور مغفرت کے حق دار بننا چاہتے ہیں،وہ اس بابرکت مہینے میں اپنے گناہوں سے توبہ کرکے صدقِ نیت کے ساتھ حصولِ ثواب اور طلبِ رحمت کی نیت سے دن کا روزہ بھی رکھتے ہیں اور رات میں تراویح اور دیگر نوافل کی بھی ادائیگی کرتے ہیں،وہ اپنے دن کو برائیوں سے محفوظ رکھتے اور اپنی راتوں کوبھی اللہ کی یاد اور اس کے ذکر میں بسر کرتے ہیں اور اس طرح جب پورا مہینہ گزرجاتا ہے ،تو وہ ایسے ہوتے ہیں،گویا ابھی اپنی ماں کی پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں،گناہوں سے دھلے دھلائے ،پاک صاف،ہر طرح کی آلایش سے منزہ۔
لہذا ہم سب کو اس بابرکت مہینے کی آمد سے پہلے جہاں اس کے استقبال کے لیے تیاری کرنی ہے،وہیں اس کے آنے سے پہلے پہلے ہمیں اپنے سابقہ تمام تر گناہوں سے توبہ و استغفار بھی ضرور کرلینا چاہیے۔توبہ ایک پسندیدہ عمل ہے اور اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے بندوں کوبہت پسند کرتا ہے،انسان کی تو فطرت میں نیکی کے ساتھ برائی اور اطاعت کے ساتھ نافرمانی اورسرکشی کا مادہ رکھا ہوا ہے،مگر اللہ کے نزدیک قابلِ رحم و کرم انسان وہ ہے،جو گناہ سرزدہوجانے کے بعد فوراً توبہ کرلے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بھی بار بار انسانوں کو توبہ کی تلقین کی ہے اور ہمارے نبی ﷺنے بھی مختلف مواقع پر توبہ و استغفار کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اللہ کے حضورگڑگڑانے اور اپنے گناہوں سے استغفار اور توبہ کرتے رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’مومنو! اللہ کے آگے صاف دل سے توبہ کرو، امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ تم سے دُور کر دے گا اور تم کوباغہائے بہشت میں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں، داخل کرے گا ، اس دن اللہ پیغمبر کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں ،رسوا نہیں کرے گا (بلکہ) ان کا نورِ ایمان ان کے آگے اور داہنی طرف (روشنی کرتا ہوا) چل رہا ہو گا اور وہ اللہ سے التجا کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہمارا نور ہمارے لئے پورا کر دے اور ہمیں معاف فرما ،بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ (التحریم: 8)توبہ و استغفارکی اسی غیر معمولی اہمیت اورعنداللہ توبہ کرنے والے انسان کی قدرومنزلت کی وجہ سے نبی اکرمﷺباوجودیکہ معصوم عن الخطاتھے اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے ساری اگلی پچھلی خطاؤں کو بخش دیاتھا،آپ ایک دن میں سوسومرتبہ توبہ کیا کرتے،حضرت عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو، کیوں کہ میں دن میں اللہ سے سومرتبہ توبہ کرتا ہوں‘‘۔ (صحیح مسلم: 2702)
’’توبہ‘‘گناہوں کی قباحت کی وجہ سے ان سے باز رہنااوراپنے کئے پرشرمندہ ہوکرآئندہ نہ کرنے کے عزم کانام ہے، نیز اس میںیہ بھی شامل ہے کہ اگرکسی کاحق ماراہے تویاتواسے لوٹادے یاپھراس سے معافی مانگے۔یہ اللہ تعالیٰ کابڑاکرم واحسان ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے قیامت تک توبہ کادروازہ کھلارکھاہے؛ چنانچہ حضرت ابوموسیٰؓ حضورﷺ کاارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ رات میں اپناہاتھ دراز کرتا ہے؛ تاکہ دن کا گناہ گارتوبہ کرلے اوردن کواپناہاتھ پھیلاتاہے؛ تاکہ رات کا گناہ گار توبہ کرلے؛ (یہ سلسلہ چلتا رہے گا)یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے‘‘۔(صحیح مسلم: 2759)بل کہ حدیث سے تویہ معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے توبہ سے خوش ہوتاہے اوربندہ کے اس عمل کو پسند کرتا ہے، خود اللہ تعالیٰ کاارشادہے: ’’بلاشبہ اللہ تعالی توبہ کرنے والے کوپسند کرتاہے‘‘۔(البقرۃ: 222)
توبہ کرنے والے سے اللہ رب العزت کی خوشی کی کیفیت کا اندازہ اس حدیثِ پاک سے لگایا جاسکتا ہے،حضوراکرم ﷺکاپاک ارشادہے: ’’جب بندہ توبہ کرتاہے تواپنے بندہ کے توبہ سے اللہ تعالیٰ اس شخص سے کہیں زیادہ خوش ہوتاہے، جس کاایسا جانور بیابان میں گم ہوجائے، جس کی پیٹھ پراس کاکھانابھی ہواورپانی بھی، وہ اس سے مایوس ہوچکاہو، اوراسی مایوسی کے عالم میں وہ کسی درخت کے سایہ میںآکرلیٹ جائے، پھرجب اس کی نیندکھلے تواچانک اپنے گم شدہ جانورکوسامنے کھڑاپائے، پھروہ جانورکی نکیل پکڑلے اورمارے خوشی کے یوں کہے: اے اللہ ! تومیرابندہ ہے اورمیں تیرارب ہوں، خوشی کی شدت میں وہ غلطی کربیٹھے‘‘۔(صحیح مسلم: 2747) اس سے پتاچلتاہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اس بندے سے حد سے زیادہ خوش ہوتے ہیں جواپنے گناہوں پرشرمندہ ہواور توبہ و استغفار کرتارہے۔لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ اپنے ان گناہوں پربھی توبہ کرتے رہیں،جویاد نہیں اورجوگناہ یاد ہوں، ان پر توخصوصی توبہ کریں، اگرکسی کا حق ماررکھاہے اوراسے لوٹانا ممکن ہے تواس کے حق کولوٹادیں،رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ رمضان ہم سے چند یوم دور ہے،توبہ کرنے میں تاخیرسے کام نہ لیں؛ کیوں کہ زندگی کاکوئی بھروسہ نہیں،پھررمضان کے مہینے میں پوری دل جمعی اور اخلاص نیت کے ساتھ اللہ کی اطاعت و عبادت میں مصروف ہوں،دن کے روزے رکھیں،زبان ،منہ اور ہاتھ وغیرہ کے گناہوں سے بچیں،راتوں میں تراویح اور نوافل کا اہتمام کریں،زیادہ سے زیادہ دعائیں مانگیں اور رحمت الہی کے طلب گار ہوں۔
جواب دیں