مغربی بنگال کے دینی مدرسوں میں دہشت گردی کی ٹریننگ ہوتی ہے؟ کیا یہاں ملک مخالف سرگرمیاں چلتی ہیں؟ کیا یہاں بنگلہ دیش سے دہشت گرد پناہ لیتے ہیں؟ کیا یہاں بچوں کو برین واش کرکے انھیں تشدد کی جانب مائل کیا جاتا ہے؟ کیا کسی کے پاس ان الزامات کوثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت موجود ہے؟ اگر ہاں تو وہ جانچ ایجنسیوں کے سامنے پیش کیوں نہیں کرتا اور اگر نہیں تو پھر دینی مدرسوں کو نشانے پر کیوں رکھا گیا ہے؟انھیں بدنام کرنے کی سازشیں کیوں چل رہی ہیں؟ مغربی بنگال کے ٹی وی چینلوں اور اخبارات مدرسوں کے خلاف پروپیگنڈہ میں مصروف کیوں ہیں؟ قومی میڈیا انھیں بدنام کیوں کر رہا ہے؟آخر یہاں مدرسوں کے بہانے مسلمانوں میں دہشت پھیلانے کی کوشش کیوں چل رہی ہے؟ اس وقت یہاں کے مدرسے میڈیا، سیاسی پارٹیوں اور فرقہ پرستوں کے ساتھ ساتھ تفتیشی ایجنسیوں کی زد پر ہیں اورغیر مسلموں میں یہ بھرم پھیلانے کی کوشش ہورہی ہے کہ دینی مدرسوں میں ملک دشمن سازشیں چل رہی ہیں۔ یوں تو مغربی بنگال میں مسلمان اور مدارس اسلامیہ کے خلاف اس قسم کی سازشیں بہت پہلے سے چل رہی ہیں مگر ان دنوں بردوان کے کھاگرا گڑھ میں ایک بم دھماکے کے بہانے مدرسوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان بم دھماکوں کی تفتیش ضرور ہونی چاہئے اور جو لوگ اس کے لئے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے مگر اس بہانے سے ایک پورے تعلیمی سسٹم کو نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے۔ حال ہی میں مغربی بنگال کے گورنر کیسری ناتھ ترپاٹھی نے بھی اپنے ایک بیان میں مدرسوں کے تعلق سے شکوک کا اظہار کیا ہے اور جانچ کی بات کہی ہے جب کہ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی طرف سے اب تک کوئی بیان نہیں آیا ہے۔ حالانکہ بم دھماکوں کی جانچ اب این آئی
اے کر رہی ہے اور وہ گرفتار شدگان سے پوچھ تاچھ کے ساتھ ساتھ کئی مقامات پر چھاپے بھی مار رہی ہے، جس سے امید ہے کہ سچائی سامنے آئے گی۔ مگر اب بھی یہ سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ مذکورہ واقعے سے مدرسے کس طرح شکوک کے گھیرے میں آتے ہیں۔ کسی ایک فرد یا چند افراد کے جرم کی ذمہ داری پوری کمیونیٹی یا پورے سسٹم پر کیسے ڈالی جاسکتی ہے؟
سب سے پرانا مدرسہ بورڈ
بھارت میں مدرسہ تعلیمی سسٹم قدیم ترین سسٹم ہے۔ ہمارے ملک کا موجودہ تعلیمی نظام انگریزوں کی دین ہے مگر اس سے پہلے پورے ملک میں مدرسوں کے ذریعے ہی تعلیم ہوتی تھی اور مسلمان وغیر مسلم سبھی طلبہ یہاں سے فیضیاب ہو اکرتے تھے۔تقریباً تمام مسجدوں کے ساتھ مکتب یا مدرسے ملحق ہوتے تھے۔ مغربی بنگال میں بھی مدرسوں کا رواج بہت پرانا ہے اور مغل بادشاہوں کے پہلے ہی یہاں یہ نظام قائم ہوچکا تھا۔ غیر منقسم بنگال میں دور دور سے طلبہ تعلیم لینے آتے تھے ان میں یوپی اور بہار کے بھی ہوتے تھے۔ بہار کے معروف صوفی مخدوم شرف الدین یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بنگال میں ہی تعلیم پائی تھی ۔بھارت میں انگریزوں نے قدم رکھا تو ان کی اولین راجدھانی کلکتہ میں قائم ہوئی اور انھوں نے بھارت کو اپنے رنگ میں رنگنا شروع کیا تو ان کی نظر مدرسہ سسٹم پر بھی پڑی اور اس کی خوبیوں کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اسے ختم کرنے کے بجائے بڑھاوا دیا۔ ۱۷۸۰ء میں کلکتہ میں ایک تاریخی مدرسے کا قیام عمل میں آیا جسے کلکتہ مدرسہ، مدرسہ عالیہ یا مدرسہ کالج کہا جاتا تھا ۔ اس کے لئے انھوں نے بڑے بڑے ماہرین تعلیم کی خدمات حاصل کیں۔ اس مدرسے میں مجاہد آزادی مولانافضل حق خیرآبادی کے صاحبزادے مولانا عبدالحق خیرآبادی نے بھی ایک مدت تک تعلیم دی تھی۔ ۱۹۱۵ء میں ماہر تعلیم مولانا ابو نصر محمد وحید نے بدلتے حالات کے مطابق نئے تعلیمی سسٹم کو متعارف کرایا ۔ اسی کے ساتھ بنگال میں مدرسوں کی تعداد بڑھنے لگی جن کا الحاق اسی کلکتہ مدرسے سے ہوتا رہا اور ۱۹۴۷ء میں اس کے امتحانات کرانے کی ذمہ داری مدرسہ ایجوکیشن بورڈ نے اپنے ہاتھ میں لے لی جو پہلے ہی قائم ہوچکا تھا۔ آزادی کے بعد وقت وقت پر اس سسٹم میں تبدیلی ہوتی رہی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بنگال مدرسہ بورڈ ملک کا سب سے قدیم مدرسہ بورڈ ہے اور دیگر ریاستوں نے اسے بہت بعد میں اپنایا۔ ۱۹۹۴ء میں بایاں محاذ حکومت نے ایک نیا قانون اسمبلی میں پاس کیا جس کے تحت مدرسہ تعلیمی سسٹم میں اصلاحات کی کوششیں کی گئی تھیں۔اس وقت مغربی بنگال تنہا ریاست ہے جہاں سرکاری مدرسوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بچے بھی زیر تعلیم نظر آتے ہیں اور اساتذہ میں بھی بیشتر غیر مسلم ہیں۔ اسی کے ساتھ موجودہ حکومت نے ایک نیا تجربہ شروع کیا ہے انگلش میڈیم مدرسے کا۔
سرکاری مدرسوں کی خستہ حالی
مغربی بنگال میں سرکاری مدرسوں کے دو نظام ہیں اور کئی اسٹنڈرڈ ہیں۔ ہائی مدرسہ ایجوکیشن سسٹم کے تحت جونیئر مدرسے، ہائی مدرسے، ہائر سکنڈری مدرسے چلتے ہیں اور اس کے تحت کل ۵۱۲ مدرسے آتے ہیں۔ جب کہ ایک دوسرے نظام سینئر مدرسہ ایجوکیشن سسٹم کے تحت عالم مدرسے اور فاضل مدرسے آتے ہیں اور اس کے تحت کل ۱۰۲ مدرسے منظور شدہ ہیں۔ بایاں محاذ سرکار کے دور میں نئے مدرسوں کو سرکاری منظوری دینے پر غیر مبینہ پابندی تھی لہٰذا نئے مدرسوں کو منطوری نہیں ملتی تھی بلکہ پرانے مدرسوں کو بھی اس بات کے لئے راضی کیاجاتا تھا کہ وہ خود کو اسکول میں تبدیل کرلیں۔ انھیں لالچ دی جاتی تھی کہ اگر انھوں نے ادارے کی اقلیتی حیثیت کو ختم کرنے کی اجازت دے دی تو مزید سہولیات دی جائینگی اور اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ کردیا جائے گا۔ ممتا بنرجی سرکار نے بڑی تعداد میں نئے مدرسوں کو منظوری دی ہے اور اس کا ٹارگیٹ ہے کہ اگلے اسمبلی الیکشن سے پہلے منظور شدہ مدرسوں کی تعداد بڑھا کر ہزار سے زیادہ کردے۔ بایاں محاذ سرکار کی مذہبی پالیسی اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ دینی تعلیم کو بڑھاوا دیا جائے لہٰذا اس نے حتی المقدور کوشش کی کہ مدرسہ تعلیمی سسٹم دم توڑ دے اور اسی پالیسی کے تحت مدرسوں میں مسلمانوں جیسا نام رکھنے والے کمیونسٹوں کو بھردیا یا پھر غیر مسلم اساتذہ کو پڑھانے کے لئے مامور کردیا گیا جس سے اسلامی تعلیم کی روح کومجروح کرنے کی کوشش ہوئی۔ یہاں بعض مدرسے ایسے بھی ہیں جہاں پچاس فیصد سے زیادہ طلبہ غیر مسلم ہیں اور بیشتر ٹیچرس غیر مسلم ہیں۔ یہاں تک کہ پرنسپل بھی مسلمان نہیں اور نہ ہی وہ اردو،عربی و اسلامیات سے واقف ہیں۔ ان مدرسوں میں نصاب تعلیم بھی اسلامی نہیں رہا بلکہ سوائے عربی اور اسلامیات کے تمام مضامین اسکول کے ہی ہیں اور صرف نام رہ گیا ہے مدرسے کا۔ مثلاً فرسٹ لینگویج میں اختیاری زبان اس طرح ہیں۔ بنگالی، انگلش، گجراتی، ہندی، جدید تبتی، نیپالی، اڑیہ، گرمکھی، تمل، تیلگو، اردو ،سنتھالی۔ حالانکہ آپ کو کسی بھی مدرسے میں یہ مضامین پڑھانے والے اساتذہ نہیں ملینگے۔ سکنڈ لینگویج، انگلش، نیپالی یا بنگلہ ہے۔ دوسرے سبجکٹ ہیں میتھ میٹکس، لائف سائنس اور فیزیکل سائنس۔ ایڈیشنل سبجکٹ ہیں تاریخ اور جغرافیہ نیز ایڈیشنل سبجکٹ ۲ میں ہیں ،کمپیوٹر، فیزیکل ایجوکیشن اور ورک ایجوکیشن۔ اگر غور کریں تو اس میں وہ سب مضامین موجود ہیں جن کی آج کے موجودہ دور میں ضرورت پڑتی ہے ، اگر کچھ نہیں ہے تو وہ ہے اسلامی تعلیم۔ جو دو سبجکٹ یعنی عربی اور اسلامیات رکھے گئے ہیں وہ صرف برائے نام رکھے گئے ہیں ، کتاب دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ صرف خانہ پری کی کوشش ہے۔ اسلامیات کے نام پر بچوں کو سورہ اخلاص، سورہ فاتحہ اور دیگر کچھ مختصر سورتیں یاد کرادی جاتی ہیں۔ اس سسٹم کو بدترین مقام پر لانے میں سابقہ کمیونسٹ حکومت کا بڑا رول ہے ۔ سابق وزیر اعلیٰ بدھا دیب بھٹاچاریہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مدرسے شدت پسندی کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کے دور حکومت میں اکثر دینی مدرسوں اور مسجدوں کی خفیہ پولس سے نگرانی کرائی جاتی تھی۔ آج یہاں حالات ایسے ہیں کہ سرکاری مدرسوں کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہوگیا ہے ااور اگر اسلام کے فروغ کا کام کر رہے ہیں تو غیر سرکاری مدرسے کر رہے ہیں جنھیں خارجی مدرسہ کہا جاتا ہے اور جو عام مسلمانوں کے چندے سے چلتے ہیں۔
غیر سرکاری مدرسوں کی خدمات
غیر سرکاری مدرسوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو مغربی بنگال کے گاؤں گاؤں میں پھیلے ہوئے ہیں اور یہاں اساتذہ وعملہ بہت ہی بے لوث طریقے سے دینی خدمت کر رہاہے۔ یہاں غریب و نادار بچوں کی تعلیم و تربیت ہوتی ہے اور ان کے لئے بغیر فیس کے نہ صرف تعلیم اور کتابوں کا انتظام کیا جاتا ہے بلکہ کھانے اور رہنے کا بھی مفت انتظام ہوتا ہے۔ ان میں بیشتر مدرسوں کے اساتذہ دارالعلوم دیوبندیا مظاہرعلوم سہارنپور سے فارغ ہیں اور یہاں کے طلبہ بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے انھیں مدرسوں میں بھیجے جاتے ہیں۔ ایسے مدارس تقریباً تمام اضلاع میں موجود ہیں۔اخراجات کے لئے عام مسلمانوں سے چندہ مانگا جاتا ہے جو پیسے یا غلے کی شکل میں مدد کرتے ہیں۔عام غریب مسلمان بھی اپنی حیثیت کے مطابق امداد کرکے ثواب کا مستحق بننا چاہتا ہے۔ ان مدرسوں کے وجود سے ہی یہاں اسلام کا نام باقی ہے اورمسجدوں کی رونق ہے۔ بنگال میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۲۶ فیصد ہے مگر وہ دوسروں کے مقابلے وہ غریب ہیں، باوجود اس کے ان کی اسلامی حمیت و غیرت نے انھیں ہمیشہ اسلام کو زندہ و تابندہ رکھنے کے لئے ابھارا ہے اور یہی سبب ہے کہ آج یہاں کے مدارس اسلام دشمنوں کے نشانے پر ہیں۔ یہ طاقتیں ایک ناخوشگوار واقعے کو بہانہ بناکر تمام مدرسوں کو شکوک کے دائرے میں لانے کی کوشش کر رہی ہیں، کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ یہ مدرسے اسلام کی حفاظت کے لئے ایک مضبوط قلعے کا کام کر رہے ہیں۔
جواب دیں