دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دئے گھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے اٹھارہویں صدی کے سائنسی انقلاب سے پہلے تک یوروپ کے لئے بھی مذہب اور کلیسا کے احکامات عبادت میں شمار ہوتے تھے اور انہوں نے بھی اپنے اس عقیدہ کی بالا دستی کیلئے سمندروں اور پہاڑوں کو چیرتے ہوئے دنیا کی نصف آبادی پر حکومت کی اور ایک وقت میں برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ اپنے فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہتا تھاکہ سورج ہمارے ملک سے نکل کر ہمارے ملک میں ہی ڈوبتا ہے۔بیشک مغرب کو اس بات پر فخر کرنے کا حق حاصل ہے کہ انہوں نے نہ صرف خشکی اور تری میں اپنے گھوڑوں کو اتارابلکہ آسمانوں میں طیاروں اور سیاروں کی شکل میں انہی کے گھوڑے دوڑ رہے ہیں۔مگر اٹھارہویں صدی کے سائنسی انقلاب نے نہ صرف بہت ہی تیزی کے ساتھ اپنے مذہب اور عقیدہ سے بہت ہی دور کر دیابلکہ ترقی اور ٹکنالوجی کی رفتار نے انہیں اتنا مغرور بنا دیاکہ انہوں نے انسانی تخلیق اور معاشرے میں فطرت کے وجود اور اس کے قانون سے ہی انکار کر دیا۔سیاست اور قانون میں کلیسا کی جگہ کارپوریٹ نے حاصل کر لی اور اقوام مغرب کے لئے اٹھاہویں صدی کے موجد ڈارون مارکس نیوٹن اور آئنسٹائن نے خدا کا درجہ اختیار کر لیا ۔مغرب کے ان خداؤں نے اپنی قوم کو زمین سے آسمان پر پہونچا دیا مگر ان کو اس ترقی اور کامیابی میں حقیقی رومانس اور ٹھہراؤ پیدا کرنے کے لئے ایک معتدل سیاسی نظام کا ہونا بھی توضرور ی تھا۔سیاسی نظام سے مراد یہ نہیں کہ آپ طاقت ور ہیں تو لوگوں کے حاکم بن جائیں اور اپنی مرضی کا حکم جبراً تھوپتے جائیں۔سیاسی نظام کا مطلب ہے کہ انسانوں کی سماجی معاشرت اور معاشی نظام میں ہم آہنگی اور اعتدال کی کیفیت پیدا کرنے کے لئے کوئی ایسا اصول اور پیمانہ ہونا چاہئے جو انسانوں کو اخلاقی تربیت کے ذریعہ اسے انسان ہونے کا مطلب اور مقصد بتائے اور اس کے اندر انسانوں سے محبت و وفاداری اور ایمانداری کا جذبہ بھی پیدا ہو۔ہماری دنیا کی ایک تاریخی سچائی یہ بھی ہے کہ انسان کتنا بھی ترقی کر لے ہر انسان کو امیر اور ترقی یافتہ نہیں بنا سکتاوہ امیری اور غریبی ترقی اور پسماندگی کے فرق کو بھی مٹانے سے قاصر ہے ۔اور اسی کا نام فطرت ہے اور نظام فطرت میں کبھی بھی زلزلے ،طوفان ،سیلاب ،قحط اور حادثات کی صورتحال اپنے آپ پیدا ہوتے رہتے ہیں جس پر قابو پانا انسان کے اپنے تمام اختیارات سے باہر ہے اسی لئے ایسی نا گہانی صورتحال میں لوٹ مار ،چھینا جھپٹی اور فساد کی کیفیت نہ پیدا ہو انسان صبر و ضبط اور ایک دوسرے کے ساتھ صلہ رحمی کا مظاہرہ کرے یہ بات صرف ایک مذہبی حکومت کے ذریعہ ،تعلیمی نصاب کے ذریعہ انسانوں کو ذہن نشین کرائی جا سکتی ہے۔کہ تم ایک ماں باپ کی اولاد ہو تم ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہو اور تمہارے اس خاندان کا بھی ایک خالق ہے جس نے اس پوری کائنات کو پیدا کیا ہے اور دنیا کی نعمتوں سے محروم رہ جانے والوں صبر کرنے والوں کے لئے اس نے آ خرت کے دن انعام کا وعدہ کیا ہے ۔جیسا کہ ہم نے لکھا ہے کہ اقوامِ مغرب نے ترقی تو کرلی مگر وہ ڈارون فرائیڈ اور مارکس کے نظریہ ارتقاء پر یقین کرتے ہوئے اپنے عیش و آرام کا سارا فیصلہ اسی دنیا میں کر لینا چاہتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ جہاں خالق اور خلق کا تصور ہی نہ ہووہاں اخلاق و اقدار اور صبر و ضبط کے مظاہرے کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔چنانچہ ہم نے دیکھا کہ اس انقلاب نے عوام پر ایک بادشاہ کی جگہ کئی بادشاہ مسلط کر دئیے ۔مغرب نے کلیسا کے ایک سیاسی نظام کا انکار کیا تو اس کے بعدتکونی سیاست کی لعنت میں مبتلا ہو گیا ۔یعنی کبھی کمیونسٹ اور شوسلسٹ تحریک نے انہیں دھوکہ دیاکبھی جمہوریت کے نام پر بیوقوف بنایا گیاتو کبھی ہٹلر اور مسولینی دو بار اقوام مغرب کو قومیت کے جذبہ کے تحت متحد کرنے کی ناکام کوشش کی مگر اس کا نتیجہ کیا ہوا مغرب دو عظیم عالمی جنگ میں مبتلا ہو کر اپنے ہی ڈیڑھ سے دو کروڑ انسانوں کو نظرِ آتش کر چکا۔ایسا بھی نہیں کہ اس دوران ان طاقتوں نے اتحاد و اتفاق کی بات نہیں کی مگر جب دل میں خلش اور کینہ ہو اور اتحاد کا کوئی ٹھوس نظریہ بھی نہ رہے تو اس کاخاتمہ بھی فساد پر ہی ہو گا۔اور وہی ہوا بھی،دوسری عالمی جنگ میں کمیونسٹوں اور سیکولر سٹوں (لبرلسٹ) کے اتحاد نے جرمن اور جاپان کی قوم پرست حکومتوں کو جھکنے پر مجبور تو کر دیامگر ان دونوں طاقتوں کا اپنا اتحاد بھی صرف وقتی ہی ثابت ہوا بلکہ یوں کہا جائے کہ انہوں نے سابقہ دونوں عالمی جنگوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی جنگی حکمتِ عملی کو تو ضرور تبدیل کر دیا مگر اپنے غلبہ اور بالا دستی کی ذہنیت سے دستبردار نہیں ہوئے اور ۸۰کی دہائی میں افغانستان کے میدان میں کمیونسٹ روس اور لبرل امریکہ نے سرد جنگ کی شکل میں تیسری عالمی جنگ کا اعلان کر دیا ۔وہ لوگ جنہوں نے لینن اور اسٹالن کو اپنا خدا مان لیا تھا اور انہیں یقین ہو چکا تھا کہ اب اشتراکیت ہی دنیا کا نیا مذہب ہو گاافغانستان کے ملا ؤں نے ان کا سارا بھرم توڑ دیا۔ اور خود لینن اور اسٹالن کے اپنے ہی بندوں نے ان کے مجسموں کو اپنے ہی ہاتھوں سے چور چور کر دیا۔اشتراکیت کی اس ناکامی کے بعد امریکہ اور مغرب دوبارہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیا د پر انسانوں کے بھرم کو زندہ تو ضرور رکھا ہے مگر دنیا کے عام انسانوں کی بے چینی کا حل تلاش کرنے میں یہ نظام بھی ناکام ہو چکا ہے۔اٹھارہویں صدی کے مادی اور سائنسی انقلاب نے یوروپ کو زمین سے آسمان پر تو پہونچا دیا مگر اس انقلابی سفر کے دوران انہوں نے جو سب سے بڑا سرمایہ کھویا ہے وہ ان کے آباء و اجداد کی سوچ اور فکر ہے۔یوروپ اب تقریباً یہ بھول چکا ہے کہ انہوں نے کبھی عرب مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کا آغاز اور خاتمہ بھی کیا تھایا اگر انہیں یا د بھی ہے تو وہ جنت نظیر یوروپ کے سر سبزو شاداب علاقوں کو چھوڑ کر صحرائے شام میں عیسیٰ مسیحؑ کی آمد کا انتظار بھی نہیں کرنا چاہتے ۔شاید اسی لئے انہوں نے شام اورفلسطین کو دوبارہ حاصل کرنے کے بعد بھی اسے یہودیوں کو سونپ دیا اور خود یوروپ واپس لوٹ گئے۔اس کے بر عکس مسلمانوں میں ابھی بھی ایسی تحریکیں ہیں جو قدیم اسلامی سیاست اور ریاست کے تصور کو زندہ رکھے ہوئی ہیں اور وہ اپنے اس عزم پر قائم بھی ہیں ۔سرد جنگ کے دوران افغانستان میں مغربی طاقتوں نے مجاہدین کے اس عزم اور حوصلے کا مشاہدہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کمیونزم کے زوال کے بعد مغرب کو اب اصل خطرہ اسلام سے ہے۔ ’’تہذیب کے تصادم ‘‘کے مصنف سموئیل ہٹنگٹن نے مغرب کو اسی خطرہ سے آگاہ کیا تھاکہ دنیا کے تمام مذاہب اور پیرو کار اپنے دین کی اصل روح اور مقصد سے ہٹ کر رسم و رواج کے قائل ہو چکے ہیں مگر اسلامی تحریکیں آج بھی ڈیموکریسی کے لئے بہت بڑا چیلنج ہیں جو ایک زبردست تصادم کی صورت میں ضرور ظاہر ہو گا۔اسی کی پیشن گوئی ۲۰۱۴ ء میں حقیقت کی شکل اختیار کر گئی اور اس وقت چین سے لیکر چیچنیا اور مشرقِ وسطیٰ سے لیکر افریقہ کے دور دراز علاقوں میں تصادم جاری ہے جہاں خود مسلم ممالک اور ان کے حکمراں بھی مادہ پرست مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر وہی کر رہے ہیں جو فرعون نے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے ساتھ کیا تھااور مشرکین مکہ نے رسولؐ اور ان کے ساتھیوں کو شعب ابی طالب میں قید کر کے ان پر اپنی تحریک سے باز آنے کا دباؤ ڈالا تھا۔جس طرح ماضی میں وقت کے فرعون ، مشرکین مکہ اور یزید اپنی مادہ پرستانہ سوچ کی وجہ سے اصلاح پسندوں کے دشمن تھے ۔موجودہ دور کے تصادم کو صلیب اور اسلام یا مغرب اور اسلام (جبکہ اس تصادم میں مسلم ممالک ہی مغرب کے ساتھ ہیں) ان کے درمیان تصادم کا نام دینے سے بہتر ہے کہ اسے مادیت اور اسلام کا ٹکراؤ کہا جائے۔بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ اصلاح پسندوں کا ٹکراؤ دنیا کے عام انسانوں سے نہیں بلکہ سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کے ناپاک اتحاد سے ہے۔جنہوں نے حکومت اور سیاست کو بھی کار پوریٹ کی شکل دے دی ہے۔مادیت اور کارپوریٹ کا یہی وہ دجالی فتنہ ہے جس نے اقوام مغرب کے ساتھ ساتھ مسلم حکمرانوں کو بھی اپنے جال میں قید کر رکھا ہے اور اکثر علماء دین کی جماعت بھی جو دجالی فتنہ پر بحث تو کرتے ہیں مگر اصل دجالوں کے ساتھ ہیں اور معاصر فی سبیل اللہ کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ،خوارج،تکفیری اور فسادی کہہ کر پکارا جاتا ہے۔کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ آج ہم جن کے قصے ، کہانیوں کو احترام سے پڑھتے اور سنتے ہیں اور ماتم کرتے ہیں کربلا کے میدان میں اسی قافلۂ حجاز کو تنہا چھوڑ دیاگیا اور وقت کے امام ابو حنیفہؒ اور حنبل ؒ ہی نے تنہا اپنے حکمرانوں کی اذیت کا سامنا کیا تھااور اکثریت ان کے ساتھ نہیں تھی یا خاموش تھی آج بھی ہم اس قافلۂ حجاز کے دشمن ہیں یا خاموش ہیں۔(یو این این)
جواب دیں