لو پھر ماہ صیام آیا!

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

    اب انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے والی ہیں،رحمتوں کی برسات اور مغفرتوں کی سوغات لیے سارے مہینوں کا سردار آنے والاہے۔گردش لیل ونہار کے سبب مہینے تو بدلتے رہتے ہیں؛مگرجس ماہ مقدس کی آمد کا ہر مسلمان کو بے تابی و بے صبری سے انتظار رہتا ہے اسے رمضان کہاجاتاہے۔لفظ رمضان’رمض‘سے ماخوذ ہے؛جس کے معنی ہیں:جلادینے والا۔چوں کہ اسلام میں سب سے پہلے یہ مہینہ سخت ترین گرمی کے زمانہ میں آیا تھا،اس مناسبت سے اس کو رمضان کہاگیا۔بعض شارحین حدیث کے مطابق رمضان کو رمضان اس لیے کہاجاتاہے کہ اس میں باری تعالی کے الطاف و عنایات،تجلیات و برکات کی اس طرح برسات ہوتی ہے جوبندگان خدا کے گناہوں کو جلا کر خاکستر کردیتی ہے۔
رحمت حق بہانہ می جوید:
    سال بھر گناہوں کی گرد میں اٹا ہوا،معصیت کے دلدل میں پھنساہوا،نفس کی فریب کاریوں سے بدحال اور شیطان کی مکاریوں سے درماندہ، بندہئ خداکے حق میں ماہ رمضان کی مثال اس گم کردہ راہ مسافر کی ہے جو شب کی تاریکی میں منزل سے بہت دور کسی ویران صحراء میں جا پڑاہے،جہاں نہ روشنی کا کوئی گزر ہے نہ مقصود تک پہونچنے کا کوئی وسیلہ۔وہ مستقل اس تگ و دو میں ہے کہ کسی طرح جادہئ مستقیم تک پہونچ جائے؛مگر شب غم کی طولانی ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے،دن بھر کی غیر معمولی تھکاوٹ کے باوجود گوش ہائے چشم سے نیند بالکل غائب ہوچکی ہے، ظلمتوں کا یہ عالم ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہاہے۔ایسے میں ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آتا ہے اوردہشت و وحشت کے اس خوفناک ماحول میں پریشان حال مسافر قدرے آرام محسوس کرتاہے اور نمود صبح سے کچھ دیر قبل آناً فاناً نیند کی آغوش میں چلاجاتا ہے۔جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ مہلت کے طور پر اسے اک نئی صبح ملی ہے،وہ فرحاں وشاداں منزل مقصود کی سمت رواں دواں ہوتاہے اورکھلتی کلیوں،چہچہاتے پرندوں اور جہاں بھر میں بکھری رب کی نعمتوں کو دیکھ کر بے اختیار پکار اٹھتا ہے ؎
خطائیں دیکھتا بھی ہے،عطائیں کم نہیں کرتا
سمجھ میں آنہیں سکتا،وہ اتنا مہرباں کیوں ہے
خطبہئ استقبال رمضان:
    حضرت سیّدنا سلمان فارسیؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے شعبان المعظم کے آخری دن ہم سے خطاب فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ مہینہ بڑی برکت والا ہے۔ اِس ماہِ مبارک میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اِس ماہِ مبارک کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور اِس کی راتوں کا قیام (بصورت ِنمازِ تراویح) زائد عبادت ہے۔جو کوئی صاحبِ اِیمان اِس ماہِ مبارک میں رَبِّ ذوالجلا ل والاکرام کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لئے غیر فرض عبادت (یعنی سُنّت یا نفل) ادا کرے گا وہ گویا ایسے ہو گا جیسے اُس نے دوسرے مہینے میں ایک فرض ادا کیا اور جو اِس ماہِ مبارک میں ایک فرض اَدا کر ے گا وہ گویا ایسے ہے جیسے اُس نے دُوسرے مہینے میں سترّ فرض ادا کئے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم گساری کا مہینہ ہے اور یہی وہ ماہِ مبارک ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اِضافہ کیا جاتا ہے۔ اِس مہینہ میں جو صاحبِ اِیمان کسی اِیمان والے کا روزہ اِفطار کرائے گا (نیّت ثواب و رضائے اِلٰہی کے لئے) تو اُس کے لئے تین اجر ہیں -1:اُس کے لئے اُس کے گناہوں کی بخشش ہو گی -2:اُس کی گردن جہنم کی آگ سے آزاد ہوگی اور -3:اُس کو روزہ دار کی طرح ثواب ملے گا بغیر اِس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی ہو۔ (حضرت سیّدنا سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں) ہم نے بارگاہِ رسالت مآب میں عرض کیا، یارسول اللہ ہم میں سے ہر ایک کو روزہ اِفطار کرانے کا سامان میسر نہیں تو کیا غرباء اِس ثواب کوحاصل کر سکیں گے؟ رسولِ کریم نے اِرشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اُس غریب اِیمان والے کو بھی عطا فرمائے گا جو دُودھ کے ایک گھونٹ سے، یا ایک کھجور سے یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ سے روزہ دار کا روزہ اِفطار کرائے گا۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا اور جو اِیمان والا کسی بندہ مومن کو اِفطار کے بعد خوب پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گا،اللہ تبارک اُسے میرے حوضِ کوثرسے پانی پلائے گا اور اَیسا سیراب فرمائے گا کہ اُس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے۔بعد ازیں آقا علیہ السلام نے اِرشاد فرمایا: یہ وہ ماہِ مبارک ہے کہ جس کے اوّل حصّہ میں رَحمت ہے، درمیانی حصّہ میں مغفرت ہے اور آخری حصّہ میں آگ سے آزادی ہے اور جو صاحبِ اِیمان اِس مہینہ میں خادم یا ملازم کے کام یا اوقاتِ کار اور اوقاتِ مزدوری میں تخفیف کرے گا۔ اللہ اُسے بخش دے گا اور اُسے دوزخ کی آگ سے آزادی عطا فرمائے گا۔“ (مشکوٰۃ المصابیح، صحیح ابن خزیمہ،الترغیب والترہیب، الجامع لشعب الایمان للبیہقی)
اِس حدیث شریف میں رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کی پیشگی اِطلاع بھی ہے اور اِس ماہ مقدس کی عظمت و فضیلت کا اِظہار بھی۔اس لیے ضرورت ہے کہ رمضان سے قبل ہی اس کی اچھی طرح تیاری کرلیں اور کوئی لمحہ بھی غفلت وسستی میں ضائع نہ ہونے دیں۔ذیل میں تیاری واستقبال کے حوالے سے چند اہم اور بنیادی نکات پیش کیے جارہے ہیں جنہیں پیش نظر رکھ کررمضان المبارک سے صحیح معنوں میں استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
توبہ واستغفار:
    رمضان کے استقبال کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے ماضی کا احتساب کریں اور جائزہ لیں کہ سال بھر میں ہم نے مجموعی اعتبار سے کتنے اچھے کام کیے اور کتنے برے؟پھر نیکیوں پر شکر بجا لاتے ہوئے گناہوں سے توبہ واستغفار کریں اور یاد رکھیں کہ جس طرح گناہ کی دوقسمیں ہیں اسی طرح ان سے توبہ کے بھی دو طریقے ہیں: امام نووی علیہ الرحمۃ ”ریاض الصالحین“ میں رقم طراز ہیں:علماء نے فرمایا ہے کہ ہر گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے، پس اگر گناہ اللہ اور بندے کے درمیان میں ہو اور اس کے ساتھ کسی بندے کا حق متعلق نہ ہو، تو ایسے گناہ سے توبہ کرنے کی تین شرطیں ہیں:
1:فی الفور اس گناہ کو ترک کر دے۔
2:اپنے کیے پر ندامت کے آنسو بہائے۔
3:اور پکا عزم کرے کہ دوبارہ کبھی بھی اس گناہ کی طرف قدم نہیں اٹھاؤں گا۔ (اور ساتھ ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ حقوق اللہ میں سے جس کی قضا ہو سکتی ہے نماز، روزہ، زکوٰۃ، تو اس کی قضا بھی کریں اور علماء سے اس کے بارے میں دریافت کرے۔) 
اور اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہوتو اس سے توبہ کی چار شرطیں ہیں، تین اوپر والی اور ایک یہ کہ حق والے کے حق سے اپنے ذمہ کو فارغ کر دے، پس اگر مال یا اس جیسی کوئی چیز ہو تو اس کو واپس کر دے، اگر اگر حدقذف یا کوئی او رحق ہو، تو اس کو اس کے لینے اورحاصل کرنے پر قدرت دے او راگر حق غیبت وغیرہ ہو، تو جاکر اس سے معافی مانگے، وغیرہ وغیرہ۔ اگر ان شرائط میں سے کوئی ایک بھی مفقود ہوگئی تو توبہ قبول نہ ہو گی۔ (باب التوبہ:18)
شکرِ نعمت:
    رمضان جیسے مبارک مہینہ کاایک بارپھر زندگی میں لوٹ کر آنا،حق تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے لہذا اس پر ہمیں اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہئے۔پھر اللہ رب العزت نے رمضان کوخصوصی رحمت، گناہوں سے مغفرت اور جہنم سے آزادی کا سبب بنایا ہے،اس لیے اس پر بھی ہمیں اس کا شکر بجا لاناچاہئے۔
ساتھ ہی ساتھ اس بات کا تصور بھی کرنا چاہیے کہ ایسے کتنے ہی مسلمان بھائی تھے جو سال گذشتہ رمضان المبارک میں ہمارے ساتھ موجود تھے اور عبادتوں میں شریک تھے؛ مگر اب مشیت ایزدی سے پیوند خاک ہوچکے ہیں اور اللہ نے ہمیں مہلت و موقع عنایت فرمایا ہے لہذا ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔
اب رہی بات کہ ہم رمضان کی اس نعمت کا شکر کیسے اداکریں؟تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے دل سے اللہ تعالی کی نعمتوں کا اعتراف کریں اور اس کی بے پایاں رحمت و مغفرت کا تصور دل ودماغ میں بٹھائیں،بعد ازاں زبان سے اقرار کریں اور اس کے لئے“الحمد للہ”یا ''اللھم لک الحمد ولک الشکر''وغیرہ کلمات پڑھیں -نیز عملی طور پر اس کی اطاعت وفرماں برداری کریں اور نافرمانی سے مکمل اجتناب کی کوشش کریں۔
تنظیم اوقات:
    ماہ رمضان کی قدر شناسی میں یہ بات بھی داخل ہے کہ یومیہ پروگرام کاپیشگی خاکہ بنایاجائے تاکہ ہمارا زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں صرف ہو،فرض کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی بکثرت اہتمام کریں،اس کے لیے ذہنی طورپرہی سہی کوئی نظام العمل ترتیب دیں جس میں درج ذیل باتوں کا خاص خیال رکھاجائے:
 (الف)فجرسے پہلے تہجدکا اہتمام: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یا وہ جومطیع وفرماں بردارہے رات کے پہرمیں سجدہ اور قیام کی حالت میں ہوتا ہے اوراپنے رب سے رحمت کی امید لگاتا ہے۔(الزمر:9) 
(ب) سحری کا اہتمام:نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: سحری کا اہتمام کیاکروکہ اس میں برکت ہے۔(متفق علیہ) 
فجرکی سنت کا اہتمام: نبیؐ نے فرمایا: فجرکی دورکعت دنیا اوراس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔(مسلم)
 (ج) دعا اوراذکارمیں اپنا وقت لگائیں خاص طورسے اذان اورنماز کے درمیانی اوقات میں؛ اس لیے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: اذان اور نماز کے درمیان کے وقت دعائیں ردنہیں کی جاتیں۔(متفق علیہ) 
(د)فجرکے بعد سے طلوع شمس تک ذکر واذکار کے لیے مسجدمیں قیام کو لازم پکڑلیں: نبی کریمؐ فجرکی نمازکے بعدطلوع شمس تک اپنے مصلے پر بیٹھے رہتے تھے۔(مسلم) ایک جگہ ارشادہے:فجرکی نماز کے بعدجوشخص طلوع شمس تک اللہ کا ذکرکرتارہا پھردورکعت نماز ادا کی اس کا اجرایک مکمل حج اورعمرے کے مانند ہے۔ (ترمذی) 
(ھ)جب بھی موقع ملے قرآن مجید کی تلاوت کا غیر معمولی اہتمام کریں؛اس لیے کہ قرآن کو رمضان سے اور رمضان کو قرآن سے ایک خاص نسبت حاصل ہے۔
(و)ظہرکی نماز کی تیاری کرے،فراغت کے بعد بدن کو تھوڑی راحت دے۔نبی کریم ؐ کا ارشاد ہے: سحری کھا کر روزے پر اور قیلولہ یعنی دوپہرکے وقت سونے  کے ذریعے رات کی نماز پر مددحاصل کرو۔(ابن ماجہ) 
(ز) اگرصاحب حیثیت ہیں اور خدانے مال ودولت سے نوازا ہے توغربأپر مال خرچ کریں،زکوۃ کے علاوہ نفل صدقات بھی خوب نکالیں۔
(ح)افطار میں تاخیر نہ کریں اور عشاء کی نماز کے بعد مکمل ماہ تراویح کا بھرپور اہتمام کریں۔
لہو لعب سے اجتناب:
    رمضان المبارک کے کماحقہ استقبال میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم کھیل کود اور دیگر لایعنی مصروفیات سے مکمل اجتناب کریں،غیر ضروری گفتگو سے پرہیز کریں۔امام ابن خزیمہ،ابن حبان،اورامام حاکم نے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کہ:نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں، بلکہ روزہ تو لغو اوربے ہودہ باتوں سے رکنے کانام ہے۔اسی طرح حضرت عمربن خطاب اورعلی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہما کاقول ہے:روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں؛بلکہ روزہ توجھوٹ، باطل اوربے ہودہ ولغو باتوں سے رکنے کا نام ہے۔
اور حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما کا قول ہے:جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کان، اورتمہاری آنکھیں، اورتمہاری زبان جھوٹ اورگناہ سے روزہ رکھے، اورملازم کو اذیت دینے سے باز رہو، اورروزے کی حالت میں تم پروقار وسکینت ہونی چاہیے، اورتم روزے والے دن اوربغیر روزے کے دن کو برابر نہ بناؤ!یعنی ہمارے اعمال و کردار سے معلوم ہو کہ ہم روزہ سے ہیں۔
خلاصہئ کلام:
ان سب کے ساتھ ساتھ بارگاہِ الٰہی میں دُعا ئیں بھی کرتے رہیں کہ حق تعالیٰ ہمیں اِس عظیم مہینہ کے برکات سے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا فرمائے اورآپﷺکے اس خطبہئ عظیمہ کے مطابق ماہِ مبارک گزارنے کا فہم نصیب فرمائے۔ آمین

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروی نہیں ہے 

01 مئی ۲۰۱۹(فکروخبر)

«
»

رمضان کے مہینے کا استقبال کیسے کریں؟

بابری مسجد کا انہدام۔ پرگیہ ٹھاکر کے فخریہ کلمات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے