اسلامی عقیدے کے مطابق یہ وہ دھرتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اتارا، حضرت آدم جنت سے رات کی تاریکی میں سراندیپ (سری لنکا) میں اترے۔ سری لنکا اس وقت بھارت کا حصہ تھا۔ یہیں سے سے جاکر سرزمین عرب پر اللہ کے گھر کی تعمیر کی تھی جس کو کتاب ابدی کعبۃ اللہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہیں سے جاکر حضرت آدمؑ نے چالیس حج کئے تھے۔ یہ روایت آج بھی برقرار ہے۔ ہر سال لاکھوں عازمین حج جاتے ہیں۔ چونکہ حضرت آدم علیہ السلام پیغمبر بھی تھے اس لیے اس مبارک دھرتی پر پہلی وحی کا نزول ہوا جس کو وید کے نام سے مذاہب عالم کی تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے۔ وید علم عرفانی و نورانی کا سرچشمہ ہیں۔ نور محمدی سب سے پہلے بھارت کی دھرتی پر چمکا تھا۔ اسلامی عقیدے کے مطابق حضرت آدمؑ کی پیشانی پر نور محمدیؐ منور تھا۔ یہ نور محمدی برابر انبیاء علیھم السلام کی پیشانی پر منور تھا۔ یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جاری و ساری رہا۔ اس کے بعد 670ء میں یہ نور محمدی مجسم و مشکل ہوکر روشن ہوا جس کی ضیابار کرنوں سے پوری دنیا روشن ہوگئی۔ بھارت وہ دھرتی ہے جہاں سے امیر عربیؐ کو علم کی خوشبو کا احساس ہوا تھا۔ یہ ہے ہمارے دیش بھارت ورش کی عظمت و تکریم۔
اس تمہید وتوصیف کے بعد آئیے ہم تلاش و جستجو کرتے ہیں کہ ہمارے دیش یا ملک کا نام کیا تھا اور کیا ہے؟ یہاں بسنے والوں کو کس نام سے یاد کیا جاتا رہا ہے اور آج کس نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایک روایت یہ ہے کہ سنسکرت کے عظیم شاعر، ڈرامہ نگار اور ادیب کالی داس کے ڈرامہ ابھگیان شکنتلم کے کردار راجہ دشینت اور رانی شکنتلا کے بیٹے بھرت کے نام پر اس دیش کا نام بھارت ورش ہے۔ روایت اس طرح ہے کہ تاریخ سے ماقبل ہنستناپور میں ایک عظیم راجہ راج کرتے تھے جن کا نام دشینت تھا۔ ایک بار وہ شکار کرنے کے لیے گئے تھے۔ شکار کی تلاش و جستجو میں وہ کنور رشی کے آشرم پہنچ گئے، وہاں رشی کنیا شکنتلا سے ان کی ملاقات ہوئی اور گندھرپ رسم کے مطابق شادی کرلی۔ کنور رشی آشرم میں موجود نہیں تھے اس لیے رخصتی نہیں ہوئی۔ راجہ نے چلتے وقت شکنتلا کو نشانی کے طور پر اپنی انگوٹھی دے دی۔ دن گزرے راتیں بیتیں ایک دن شکنتلا راجہ کی یاد میں کھوئی ہوئی تھی اسی درمیان درباسا رشی آشرم میں آئے اور شکنتلا کو آواز دی۔ شکنتلا محبوب کی یاد میں اتنا محو تھی کہ رشی کی آواز سنائی نہیں پڑی۔ رشی غصے میں آگئے اور شراپ دے دیا کہ جا تو جس کی یاد میں کھوئی ہوئی ہے وہ تجھے بھول جائے گا۔ جب شکنتلا کی سہیلیوں کو معلوم ہوا کہ درباسا رشی نے شکنتلا کو شراپ (بددعا) دے دی ہے تو وہ دوڑ کر آئیں اور رشی سے منت سماجت کرنے لگیں کہ مہاراج شکنتلا نے جان بوجھ کر نہیں کیا یہ انجانے میں ہوا ہے، معاف کردیں۔ رشی نے کہا کہ میرا دیا ہوا شراپ تو ختم نہیں ہوسکتا ہاں نشانی دکھانے پر راجہ کو یاد آجائے گا۔ جب شکنتلا ہستناپور سے جا رہی تھی تو راستہ میں گنگا ندی کو پار کرتے وقت شیخی رشی کو ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا اس وقت راجہ کی دی ہوئی انگوٹھی پانی میں گرگئی۔ شکنتلا کو معلوم نہیں ہوا کہ انگوٹھی پانی میں گرگئی۔ جب راجہ کے دربار میں پہنچی تو راجہ نے پہچاننے سے انکار کردیا۔ شکنتلا نے کہا کہ راجن آپ کی دی ہوئی انگوٹھی ہمارے پاس ہے۔ راجہ نے کہا پیش کرو۔ جب شکنتلا نے ہاتھ پیش کیا تو ہاتھ خالی تھا، انگوٹھی غائب تھی۔ اس کے بعد راجہ نے شکنتلا کو دربار سے نکال دیا۔ کنیا رشی بہت پریشان ہوئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ آکاش وانی ہوئی بیٹی پریشان نہ ہو میں آرہی ہوں۔ آن واحد میں دیولوک کی خوبصورت ترین اپسرا مینکا جو شکنتلا کی سگی ماں تھی حاضر ہوئی اور اپنی بیٹی شکنتلا کو ماریچ پتر کشیپ جی کے آشرم ہیم کوٹ لے گئی۔ وہاں رشی کی پرورش میں دے کر دیولوک واپس چلی گئی۔ شکنتلا نے وہاں ایک سندر بالک کو جنم دیا جس کا نام سرودمن یا بھرت رکھا گیا۔ شکنتلا اپنے بیٹے کے ساتھ ماریچ کے آشرم میں زندگی گزارنے لگی۔ دوسری طرف راجہ کو وہ انگوٹھی مل گئی جو شکنتلا کے ہاتھ سے گنگا میں گرگئی تھی۔ انگوٹھی دیکھتے ہی راجہ کو سب کچھ یاد آگیا۔ راجہ نے بہت تلاش و جستجو کی پر شکنتلا کا پتہ نہ چلا۔ ایک بار راجہ دشینت دیوراج راجہ اندر کی مدد کے لیے دیو لوک گئے تھے وہاں سے واپس آتے وقت آکاش سے ایک بہت خوبصورت شاداب پہاڑ نظر آیا۔ راجہ نے رتھ بان سے کہا کہ یہ بہت خوبصورت جگہ ہے وہاں چلو۔ جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ ہیم کوٹ پہاڑ ہے اور یہ آشرم ماریچ کا ہے۔ جب راجہ دشینت رتھ سے اترے تو دیکھا کہ ایک خوبصورت بچہ شیر کے بچوں سے کھیل رہا ہے۔ راجہ اس کے قریب گئے۔ اسی درمیان بچے کی بانہہ پر بندھا ہوا گنڈہ گرگیا۔ راجہ جھک کر گنڈہ اٹھانے لگے تو رشی کنیائیں چلائیں یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ راجہ نہیں مانے اور گنڈہ اٹھاکر بچہ کی بانہہ پر باندھ دیا۔ رشی کنیاؤں کو بہت تعجب ہوا کہ آخر یہ گنڈہ سانپ کیوں نہیں بنا۔ رشی کنیاؤں نے راجہ سے پوچھا کہ یہ گنڈہ سانپ نہیں بنا راجہ نے کہا نہیں، ایسی کیا بات ہے۔ رشی کنیاؤں نے راجہ کو بتایا کہ جب رشی ماریچ نے سرودمن کی بانہہ پر یہ گنڈہ باندھا تھا تو کہا تھا کہ آپراجتا (ناقابل تسخیر) گنڈہ ہے جب کبھی زمین پر یہ گرجائے گا تو اس کے ماں باپ کے علاوہ کوئی بھی اٹھائے گا تو یہ سانپ بن کر کاٹ لے گا۔ کہیں آپ اس کے پتا جی تو نہیں ہیں۔ اب راجہ کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ ساری داستان یاد آگئی۔ راجہ دشینت رانی شکنتلا سے ملے اور ماریچ رشی سے اجازت لے کر اپنے راج کے لیے روانہ ہوئے۔ چلتے وقت مہہ رشی ماریچ نے دعا دی کہ جاؤ یہ تمھارا بیٹا چکرورتی راجہ بنے گا۔ رشی کی دعا قبول ہوئی اور آگے یہ بچہ چکرورتی راجہ بنا اور بھرت راجہ کے نام پر ہمارے پیارے دیش کا نام بھارت ورش پڑا جو آج بھی ہے۔
اس ملک کو آریہ ورت کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ دبستان لکھنؤ کے مایہ ناز شاعر دوارکا پرشاد افقؔ لکھنوی کا مشہور زمانہ ’’آریہ ورت کی تاریخی عظمت‘‘ کے نام سے مسدس ہے جس میں ملک کی عظمت رفتہ کو اجاگر کیا گیا ہے۔ وہ رقم طراز ہیں:
آریہ ورت سا ملک اور زمانے میں نہیں
کسی قصے میں روایت میں فسانے میں نہیں
خلد کے جانے میں بیکنٹھ کے بانے میں نہیں
دست قدرت کے کمالات دکھانے میں نہیں
جاگتی جوت جو دیکھے کوئی جوالا جی کی
دل ناقائلِ قدرت کی مئے تاریکی
اس طویل مسدس میں آوریہ ورت کا تصور ایک عظیم ملک کے طور پر پیش کیا ہے اور آریہ ورت کو پوری دنیا پر فائق بتایا گیا ہے۔ آوریہ کے معنی ہوتے ہیں بلند، اعلیٰ، ارفع۔ بھارت کے بعض محققین و دانشوران کو اس بات پر اصرار ہے کہ آریہ اپنے آپ کو سب سے اعلیٰ، ارفع اور اپنی تہذیب و ثقافت کو دنیا کی تہذیب و ثقافت سے اچھا، بہتر گردانتے ہیں۔ آریہ سماج کے بانی اور ستیارتھ پرش کتاب کے مصنف سوامی دیانند سرسوتی فرماتے ہیں ہم ہندو نہیں ہیں، ہم آریہ ہیں، ہمارے دھرم کا نام ہندو دھرم نہیں ہے، بلکہ سناتن دھرم ہے۔ یاد رہے کہ دیانند سرسوتی مورتی پوجا کے سخت خلاف ہیں۔ وہ ایک خدا کی عبادت کے قائل ہیں۔
جب یونان کے لوگ بھارت کی دھرتی پر علم و حکمت کی تلاش میں آئے تو انھوں نے بھارت کو انڈو کہا۔ بعض تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے راجاؤں کی رشتہ داری یونان کے راجاؤں کے یہاں تھیں۔ بعض یونانی فاتحین نے بھارت کے کچھ حصوں پر حکمرانی بھی کی تھی۔ یونانیوں نے علاج و معالجہ کا علم بھارت کے آیوروید سے حاصل کیا تھا جس کو مسلمانوں نے بام ثریا پر گامزن کرکے طب یونانی کا نام دے دیا۔ یہ مسلمانوں کی اعلیٰ دیانتداری اور ایمانداری کا ثبوت ہے کہ طب کے میدان میں بے مثال خدمات کے بعد بھی طب یونانی کے نام سے برقرار رکھا۔ طب یونانی کی بنیاد پر ہی ایلوپیتھی کا عظیم الشان محل کھڑا ہے۔ یونانیوں کی قدیم کتب میں بھارت کو انڈیا کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
صاحب لغات کشوری رقمطراز ہیں ’’ہندو۔ف۔ منسوب طرف ہند کے جو نام ملک کا مشہور ہے، اس میں لفظ واؤ واسطے نسبت کے ہے اور نسبت خاص انسانوں کے ساتھ ہے اور محاورہ فارسی میں لفظ ہندو بمعنی چور اور ڈاکو اور راہزن اور غلام کے آتا ہے۔ص:821، 822۔ صاحب فرہنگ عامرہ رقمطراز ہیں: ہندو۔ ہندو مرد، ہندو مذہب کا ہیرو جمع ہنود، ہنادکہ، چور، ڈاکو، غلام، کالا آدمی، سیاہ قلب، ہرکوئی سیاہ چیز، چہرے کا تل، خال، مسّا، زلف، کاکل، مرد کے چہرے کا خط۔
خط بڑھا، کاکل بڑھے، زلفیں بڑھیں گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے
(ذوق)
ہندو، ہندی، ہندوی، الھند، ہندوستان یہ الفاظ عربی فارسی سے مستعار ہیں۔ اسلام کے آنے سے بہت پہلے عرب۔ ہند اور فارس ۔ہند تعلقات تھے۔ فارسی اور سنسکرت کو مولانا حسین آزاد نے سگی بہنیں قرار دیا ہے اور بہت سے الفاظ کی مماثلت ثابت ہے۔ ہند کا لفظ اصل میں عربی ہے جس کے اصل معنی سیاہ، کالے اور سانولے کے ہیں۔ اہل عرب سانولے کو ہند کہتے ہیں۔ وہاں ہند نام بھی ہوتے ہیں۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کا کلیجہ چبانے والی خاتون کا نام بھی ہندہ تھا جس نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرلیا تھا۔ عرب زمانہ قدیم میں جنوبی بھارت میں آیا کرتے تھے۔ ا نھوں نے وہاں کے لوگوں کو دیکھ کر ہند کہنا شروع کیا ہوگا۔ وہ یہاں کی بنی ہوئی تلواروں کو سیف مُھَنّدہ کہتے تھے۔ اسی لفظ میں اھل فارس نے استھان کا لفظ جوڑ کر ہندوستان کردیا۔ مثال کے طور پر گل سے گلستان، بو سے بوستان، چمن سے چمنستان، یہ تراکیب سنسکرت و فارسی دونوں زبانوں میں پائی جاتی ہیں۔ اہل فارس ہندوستان ملک کو کہتے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کو ہندوستانی کہہ کر پکاتے ہیں۔ جب یہان مسلمان حکمراں تھے تو سرکاری دستاویزات میں ملک کا نام ہندوستان لکھا جاتا تھا اور یہاں کے باشندوں کو ہندستانی کہا جاتا تھا۔ ابتدائی دور میں اردو زبان کو بھی ہندی، ہندوی کہا جاتا تھا۔ بعد میں اردو کا لفظ استعمال ہونے لگا جو تاحال قائم ہے۔ آہستہ آہستہ لفظ ہندو ایک خاص دھرم کے ماننے والوں کے لیے مختص ہوگیا۔ اب سناتن دھرم کو ہندو مذہب کہا جاتا ہے۔ اس لفظ میں دوسرے مذاہب اور دوسرے مذاہب کے عقیدت مند شامل نہیں ہیں۔ اب ہندوستان نام کا کوئی ملک دنیا کے نقشے میں نہیں ہے۔ دنیا اب ہندوستان کو بھارت یا انڈیا کے نام سے جانتی ہے۔ ہمارے پاسپورٹ پر ’’بھارت گن راجیہ‘‘ یا ’’ریپبلک آف انڈیا‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ ہاں ابھی اردو والوں اور اردو اخبارات نے لکھنا بند نہیں کیا ہے۔ اردو اخبارات میں تو کہیں سے بھارت لکھا ہوا آجاتا ہے تو کاٹ کر ہندوستان لکھ دیا جاتا ہے۔
اس بحث سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ بھارت کے سبھی باشندوں کو ہندو نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ لفظ صرف سناتن دھرم کے عیقدت مندوں کے لیے کہا اور بولا جاتا ہے۔ اس میں سکھ، بدھ مت، جین مت، پارسی، عیسائی، مسلمان شامل نہیں ہے۔ اگر کوئی سوچ اس طرح کی ہے تو وہ حقائق سے پرے ہے۔
یہاں ایک بات اور قابل یاددہانی ہے کہ ہندو لفظ سے پیار کرنے والے اور پورے بھارت کے باشندوں کو ہند بتانے والے کہتے ہیں ہندو اصل میں سندھو تھا چونکہ عرب اور فارس سے آنے والے جب سندھو لفظ کا تلفظ ادا نہیں کر پائے تو انھوں نے ہندوکہنا شروع کیا جو عام ہوگیا۔ اب یہاں دو سوال اٹھتے ہیں ایک یہ ہے کہ عربوں، ایرانیوں کے ذریعہ سندھو جیسے خوبصورت لفظ کا ہندو تلفظ جو غلط ہے کیونکر برقرار رکھا جائے۔ آخر اہل عرب اور اہل فارس کے اس غلط تلفظ سے پیار کیوں ہے۔ کیوں نہ اس غلطی میں اصلاح کرکے ہندو کو سندھو جیسے خوبصورت لفظ میں ہی رہنے دیا جائے پھر سارے بھارت کے لوگو کو سندھو کہا جائے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی قوم کو دوسرے لوگوں کے مذہب کا نام رکھنے کا حق حاصل ہے۔ جیسا ہندو لفظ کے حامی تسلیم کر رہے ہیں کہ اہل عرب و اہل فارس نے سندھو کو ہندو کہہ دیا اور سناتن دھرم کا نام ہندو دھرم ہوگیا اور سناتن دھرم کے عقیدت مندوں کو ہندو کہا جانے لگا۔ اس طرح تو مسلمان بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کے معنی ہیں خدا کو تسلیم کرنا، اطاعت کرنا، اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردینا، دینا کے سارے انسان کسی نہ کسی روپ میں خدا کو تسلیم کرتے ہیں، ذات باری کی عبادت کرتے ہیں لہذا ساری دنیا کے لوگ مسلمان ہیں۔ پر نہیں! کسی بھی مذہب میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے اس کے لوازمات کو تسلیم کرنا اور اس مذہب کے رسم و رواج اور طریقہ عبادت کو اپنانا اور اس کے مطابق عبادت و ریاضت کرنا۔ ظاہر ہے کہ پوری دنیا کے لوگ اسلام کے طریقۂ عبادت پر عبادت نہیں کرتے۔ راقم الحروف کا مشورہ ہے کہ سناتن دھرم کے لوگ اپنے دھرم کا نام سندھو رکھ لیں جو صحیح لفظ ہے اور اپنے کو ہندو نہ کہیں بلکہ سندھو کہیں یہی انصاف کا تقاضا ہے۔
جواب دیں