پی سی پاریکھ کی جانب سے وزیر اعظم پر انگلی اٹھائے جانے کے بعد معاملہ مزید سنگین ہو گیا ہے جس میں سب سے دھماکہ خیز پیش رفت اس وقت ہوئی جب وزیر اعظم کے دفتر نے اس بات کوتسلیم کر لیا کہ کمار منگلم برلا کی کمپنیHindalco Coal Blockکے الاٹمنٹ کی منظوری خود وزیر اعظم نے ہی یکم اکتوبر 2005 میں مرحمت فرمائی تھی۔ تعجب خیز امر تو یہ ہے کہ ہنڈالکو کو الاٹ کول بلاک سی بی آئی زور دے کر غیر قانونی بتا رہی ہے اور اسی وجہ سے منگلم برلا کیخلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔وہیں دوسری طرف وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ہنڈالکو کو کول بلاک کے الاٹمنٹ میں کچھ بھی غلط نہیں ہوا جبکہ پیش کردہ حقائق کی بنیاد پر کوئلے کی الاٹمنٹ کی منظوری دی گئی تھی۔ لیکن پاریکھ نے یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں انہیں سازش تیار کرنے کا ملزم بنایا گیا ہے تو وزیر اعظم کو بھی ملزم بنایا جانا چاہئے کیونکہ انہوں نے ہی ترمیم فیصلے کو منظوری دی تھی۔ سی بی آئی نے پی سی پاریکھ پر درج ایف آئی آر میں ’کامپی ٹنٹ اتھارٹی ‘ کہا تھا۔ سی بی آئی کے مطابق اسی ’کمپی ٹنٹ اتھارٹی ‘ Competent Authority کی ایما پر اسکریننگ کمیٹی کی سفارشات بدلی گئیں۔ وزیر اعظم کا دفتر بھی اب اس حقیقت کو قبول کر رہا ہے کہ ’کمپی ٹنٹ اتھارٹی ‘وزیر اعظم ہی تھے۔
شور بہت‘ کارروائی صفر:
دھیان رہے کہ پاریکھ کو کوئلہ گھوٹالے کا انکشاف کرنے والے ادارہ کیگ CAG نے’ وسل بلوور‘ whistleblower کہا تھا۔ لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کئی سال پہلے کان کنی الاٹمنٹ ہونے کے باوجود بھی برلا کی کمپنی نے اب تک کوئلے کی نکاسی کیوں شروع نہیں کی ؟مزید یہ کہ پاریکھ نے انہیں کوئلے کی کان مختص کرنے کا فیصلہ کس طرح لے لیا، جبکہ وہ اس سے ایک بار انکار کر چکے تھے ؟ پاریکھ کا کہنا ہے کہ اگر ان کا یہ فیصلہ غلط تھا توکیا اس فیصلہ میں وزیر اعظم کی بھی رضامندی شامل تھی‘ لہذاان کیخلاف بھی مقدمہ درج ہونا چاہئے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم رہے گا کہ تفتیشی کمیٹی کی طرف سے الاٹمنٹ کی بجائے نیلامی کی سفارش کرنے والے پاریکھ نے اپنا فیصلہ کس طرح تبدیل کر دیا ؟گزشتہ سال کوئلہ گھوٹالہ کے انکشاف کے بعد نہ صرف پارلیمنٹ میں بلکہ پارلیمنٹ کے باہر نہ صرف برسر اقتدارپارٹی بلکہ اپوزیشن بھی اپنے اپنے انداز سے مسلسل شوروغوغامچارہے ہیں۔ کبھی وزیراعظم سے استعفی طلب کیا جاتا ہے تو کبھی کان کنی کے وزیر سے۔ لیکن استعفی دینے کی نوبت تو در کنار، اب تک الاٹمنٹ میں درپیش رکاوٹ کیخلاف بھی کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ مرکزی حکومت کو اس معاملے میں موقف کیا ہے، یہ وزیر تجارت آنند شرما کے اس بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس طرح کی کارروائی سے صنعت کاروں میں غلط پیغام جائے گا۔ یعنی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے اور ملک میں صنعتی ترقی چاہئے تو اس طرح کی کرپشن کو برداشت کرنا ہی ہوگا۔ یہ موقف کچھ اسی طرح کا ہے جیسے بجلی چاہئے تو ماحولیاتی آلودگی کا خطرہ تو مول لینا ہی پڑے گا۔
کس کس کے ہاتھ ہیں کالے؟
کوئلہ گھوٹالہ کے سلسلہ میں برسراقتدار پارٹی اور اپوزیشن میں سیاست تو خوب ہو رہی ہے ،لیکن کارروائی مفقودہے۔ وجہ صاف ہے اور وہ یہ کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ بی جے پی، کانگریس اور علاقائی پارٹیاں بھی۔ مثلا ، لوٹ کانشانہ تلاش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جھارکھنڈ اور اڑیسہ کے کوئلہ کے ذخائرپر ہاتھ صاف کیا گیا ہے ، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جھارکھنڈ کے اہم لیڈر ان،خواہ وہ شیبو سورین ہوں یا ارجن منڈا ،سب خاموش ہیں۔ وہیں اڑیسہ کے وزیر اعلی نوین پٹنائک کو برلا کی کمپنی’ ہنڈاڈالکو‘ Hindalco سے کوئی شکایت نہیں، جس کی بنیاد پریہ تازہ تنازع شروع ہوا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ علاقائی پارٹیوں کے لیڈر دہلی جا کر لٹیروں کے حق میں لابنگ کرتے رہے ہیں۔ ان کی بھی رائے مختصرطور پر یہی ہے کہ جو الاٹمنٹ ہوئی ہیں، اگر انہیں ردد کیا گیا تو ریاست کی ترقی رک جائے گی!یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کوئلہ اور فولاد کی صنعت کیلئے قائم مستقل کمیٹی نے حکومت کو جو اپنی رپورٹ سونپی ، اس کے مطابق 1993 سے 2008 کے درمیان حکومت نے کوئلے کے کل 195 ذخائر نجی کمپنیوں کو مختص کئے، جن میں سے 160 یوپی اے کے دور اقتدار میںیعنی 2004 سے 2008 کے دوران مختص ہوئے۔ اس وقفہ میں ریاست میں بی جے پی لیڈر ارجن منڈا ، 2005 کے اسمبلی انتخابات کے بعد ایک ہفتے کیلئے شیبو سورین، پھر ارجن منڈا جبکہ ارجن منڈا حکومت کے خاتمہ کے بعد یو پی اے کے کٹھ پتلی وزیر اعلی مدھو کوڑا کے ہاتھ میں جھارکھنڈ کی کمان رہی۔ ظاہر ہے، ان کی رضامندی سے ہی کوئلہ کے ذخائر کی بندربانٹ ہوئی۔ ایک آدھ کان کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر سبودھ کانت کے لواحقین بھی لپکنے میں کامیاب رہے۔یہ الاٹمنٹ کیسی کیسی کمپنیوں کو تقسیم کئے گئے، اس کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ160 میں سے صرف2کمپنیاں پروڈکشن کر رہی ہیں۔
موٹے منافع کی آس:
کمیٹی کی سفارش ہے کہ جو کمپنیاں پیداوار نہیں کر رہیں، ان کی الاٹنمٹ کو ردد کر دیا جانا چاہئے۔ لیکن سچ پوچھئے تواس سمت میں اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔آئند کبھی ہوگی بھی ، اس بارے میںیقینی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخریہ کمپنیاں پیداوار کیوں نہیں کر رہی ہیں؟کیا اس لئے کہ گھوٹالے کی پوری کہانی اسی بات میں پوشیدہ ہے۔دراصل، ان کمپنیوں نے یہ بتا کر کول بلاک حاصل کیا تھا کہ کوئلہ ان کے اپنے بجلی پلانٹ،ا سٹیل پلانٹ یا کسی دیگر فیکٹری میں استعمال ہوگا ، کیونکہ الاٹمنٹ کی واضح شرط یہی تھی کہ کوئلہ کے ذخائر ، کوئلہ نکال کر مارکیٹ میں فروخت کرنے کیلئے نہیں، بلکہ ان کی صنعت میں استعمال کیلئے مختص کئے جائیں گے۔ لیکن زیادہ تر کمپنیاں ایسی ہیں جن کے پاس نہ تو اپنا پاور پلانٹ ہے، نہ اسٹیل فیکٹری یا پھر ایسا کوئی دیگر صنعت ، جہاں کوئلے کی نکاسی کرکے وہ اس کا استعمال کر پاتیں۔ ہنڈالکوکے جس کوئلہ کے ذخائر پر موجودہ تنازع منظر عام پرآیا ہے ، وہ بھی کسی دوسرے کو ملا تھا ، جسے ہنڈالکونے 2000 میں قبضہ کرلیا۔ان نجی کمپنیوں نے کول ذخیرہ کو مال مفت سمجھ کرحاصل توکر لیا لیکن اس کا استعمال نہیں کر سکیں۔ انہیں لگتا رہا ہوگا کہ دیرسویر ہی سہی بہتری کے نام پر حکومت کمپنیوں کو کوئلہ نکالنے کر اسے فروخت کرنے کی رعایت نصیب کر دے گی اور وہ 8 سو سے8 ہزار فیصد تک منافع حاصل کر سکیں گی۔ یہ کسی کا ذاتی خیال نہیں ہے بلکہ اس کی وضاحت کیگ کی رپورٹ کے ذریعہ ہوتی ہے ، جس کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد یہ گھوٹالہ بحث کا موضوع بنا۔
اصلاحات کی آڑ میں:
اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ کوئلہ توانائی کا ایک بڑااور اہم ذریعہ ہے لیکن یہ ذریعہ بھی اسی طرح ختم ہو جانے والاہے، جیسے پٹرول یا کوئی بھی دیگر قدرتی دولت ‘ اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس کی لوٹ یا بربادی نہ ہو۔ خوش قسمتی سے ہندوستان میں دنیا کے کل کوئلے کے ذخائر کا پانچواں حصہ زمین کے اندر دباہوا پڑا ہے جبکہ کوئلہ مزدوروں کو استحصال سے بچانے اور کوئلہ کی صنعت کو صحیح طریقے سے چلانے کے مقصد کے تحت حکومت نے70 کی دہائی کے دوران کوئلے کی صنعت کو قومیایاnationalisedگیااور سرکاری شعبہ میں بی سی سی ایل Bharat Coking Coal Limited کا قیام ہوا۔بی سی سی ایل میں آج کی تاریخ میں بھی ڈیڑھ‘ دو لاکھ مستقل عملہ ہے لیکن بدعنوانی اور لال فیتہ شاہی کی وجہ سے یہاں کام کی ثقافت work culture کا فقدان ہے۔ ایک سازش کے تحت پیداوارکا ہدف کم رکھا جاتا ہے اور پھر شور مچایا جاتا ہے کہ ملک کی ضرورت کو پورا کرنے کے لائق نہیں ہے۔ حکومت کے اندر اور باہر بیٹھے ہوئے نجکاری کے پیروکار رہ رہ کراور وقفہ وقفہ سے’ اصلاحات‘ کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر دو دہائی قبل حکومت نے یہ فیصلہ لیا کہ کوئلے کی نکاسی پر اجارہ داری صرف بی سی سی ایل کا نہ رہے، بلکہ اینڈ یوزرس end user یعنی اس کا صنعتی استعمال کرنے والوں کو بھی کانیں مختص کی جائیں۔
نیتوں میں کھوٹ:
بس پھر کیا تھا ‘دیکھتے ہی دیکھتے کوئلے کے دلال ، وزراء کے متعلقین اوررشتہ دار کوئلے کے ذخائر اپنے نام مختص کروانے میں کامیاب رہے۔ لیکن انہوں نے کوئلے کی نکاسی نہیں کی ، کرتے بھی کیسے جبکہ وہ درحقیقت آخری صارف یااینڈ یوزر end user تھے ہی نہیں۔ انہیں تو انتظار تھا’ بہتر ‘ کے زمرہ میں آنے کا، تاکہ انہیں لوٹ کی چھوٹ مل سکے۔ لیکن سیاسی پارٹیوں کی باہمی چپقلش‘ مقابلہ بازی اور ٹوپی اچھالنے کی بدولت یہ معاملہ اجاگر ہو گیا۔ ہندوستان میں 280 ارب ٹن کوئلہ اور 4.1 کروڑ ٹن لگناٹ کا ذخیرہ ہے۔ یہ ذخائر کتنا بڑا ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے ہم لگا سکتے ہیں کہ پوری دنیا اس وقت سات ارب ٹن کوئلے کا استعمال سالانہ کر رہی ہے۔ سال 2013-14 میں ہندوستان کو 77 کروڑ ٹن کوئلے کی ضرورت ہوگی۔ تقریبا 60کروڑ ٹن کوئلے کی ضرورت کی تکمیل گھریلو پیداوار سے ہو جائے گی۔ تقریبا ساڑھے 16کروڑ ٹن کوئلے کی درآمد ہوگا۔اصلاح کی درخواست کرنے والے مانگ اور فراہمی Supply and Demand کے اس فرق کو دکھا کر ہی بار بار کوئلہ کی صنعت کی نجکاری کا شور مچاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے درخواست کی کہ آنے والے دنوں ملک کو میں 10 ہزار میگا واٹ اضافی بجلی کی ضرورت پڑے گی۔ بجلی کے متعدد پلانٹ نصب ہونے والے ہیں۔ ان کی ضرورت کے بقدر بی سی سی ایل کوئلے کی پیداوار نہیں کر سکے گی۔ حکومت نے نجی کمپنیوں کو20 ہزار میگا واٹ پیداوار کی صلاحیت پر مشتمل کوئلہ کانوں کی الاٹمنٹ کر دی۔ اب تک جو 194 کوئلے کے ذخائر مختص کئے گئے ہیں ، ان میں 40 ارب ٹن کوئلہ زمین کے نیچے دباہو ہے۔ لیکن نتیجہ صفر رہا۔ کیونکہ نجی کمپنیاں کوئلے کی کمی اور ممکنہ اخراجات کو موضوع بنا کر کوئلے کی صنعت کی نجکاری چاہتی ہیں۔ بہتری کے نام پر لوٹ کی چھوٹ چاہتی ہیں۔ کوئلہ پر مبنی صنعت نصب کرنے کی نہ ان میں قوت ہے نہ ان کی منشا ۔ وہ تومحض اتنا چاہتی ہیں کہ ان کو کوئلہ نکال کر فروخت کرنے کی چھوٹ مل جائے۔ بجلی پلانٹ،ا سٹیل پلانٹ کی تنصیب بھاری اخراجات اور وقت طلب کام ہے جو آنا فانا نہیں ہو سکتا‘ آسان ہے کوئلہ نکالیں اوراسے فروخت کرکے زبردست منافع کمائیں!
خاطرخواہ اقدام کی ضرورت:
حکومت چاہے تو کول انڈیا کو درست کر یا پھر عوامی شعبہ میں ہی کول انڈیا جیسی ایک نئی کمپنی قائم کرکے کوئلے کی نکاسی کے کام میں تیزی لا سکتی ہے اور ملک کی ضرورت کو پورا کر سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر نجکاری کا راستہ کیسے ہموار ہوگا ؟ لوٹ کی چھوٹ کیسے ملے گی ! کیونکہ ابھی تو کمپنیوں کو’ اینڈ یوزر‘ کے نام پر فی ٹن کوئلہ نکالنے پرمحض26 روپے کی آمدنی دینی پڑتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ جن کمپنیوں کو کوئلہ کے ذخائر مختص کئے گئے، انہوں نے ابھی کوئلہ نکالنے کا کام شروع نہیں کیا۔ لیکن تقسیم کروانے میں بدعنوان رہنماؤں کی خوب کمائی ہوئی۔ دلال قسم کے یہ لیڈر ہر پارٹی میں ہیں۔ اس کوئلہ گھوٹالہ کا بھانڈا پھوٹنے کے باوجود کارروائی کم اور سیاست زیادہ ہو رہی ہے۔غور طلب یہ ہے کہ بدعنوانی کی دیمک تو ہر طرح کی الاٹمنٹ پالیسی میں لگ سکتی ہے۔ نیلامی کی مخالفت اس وجہ سے ہو رہی تھی کہ کوئلہ قومی املاک اور توانائی کا ایک اہم ذریعہ ہے ، جوبالآخر ختم ہو جانے والا ہے۔ اسے مختلف محکموں کے وزراء کی چھان بین کمیٹی حسب ضابطہ مختص کرے گی۔ لیکن ’ضابطہ‘ کو بدعنوانی ختم کرچکی ہے‘ اب تو نیلامی کی بات ہو رہی ہے۔خدشہ یہ ہے کہ کارپوریٹ کی دنیا پر مشتمل گروپ بنا کر اونے پونے داموں میں کوئلہ کے ذخائر مختص کروالئے جائیں۔ اس لئے کم سے کم اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ کوئلہ اسی کمپنی کو مختص ہو جو اس کا استعمال کرے۔آخر اس سے کون انکار کرے گا کہ کوئلہ کی خریدو فروخت اندھے منافع کی چیز نہیں ہے!
جواب دیں