کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے؟

 

            
                                                 قدسیہ صباحت ،جامعۃالبنات
                                                            حیدرآباد۔
  
           اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں جن نعمتوں سے نوازا ہے اُن میں سے ایک مال و دولت بھی ہے۔اور دیگر نعمتوں کی طرح مال و دولت جیسی نعمت پر بھی اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنا ضروری ہے۔اس نعمت پر شکر ادا کرنے کی صورت یہی ہے کہ اسے اُسی طرح خرچ کیا جائے جس طرح خرچ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :"ائے ایمان والو!جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے وہ دن آنے سے پہلے(اللہ کے راستے میں) خرچ کرلو جس دن نہ کوئی سودا ہوگا نہ کوئی دوستی کام آئے گی ،اور نہ کوئی سفارش ہوسکے گی۔"(سورہ البقرہ:254 ) 
  اللہ تعالیٰ نے کتنے اچھے انداز میں اپنے بندوں کو مال خرچ کرنے پر اُبھارا ہے کہ اس نے جو مال انھیں عطا کیا ہے اسے نیک کاموں میں خرچ کرلیں تاکہ قیامت کے دن رسوائی سے بچ سکیں۔
سورۃ الحدید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: من ذا الذی یقرض اللہ قرضاً حسناً فیضٰعفہُ لہ و لہُ اجر کریم۔ 
 کون ہے جواللہ کو قرض دے اچھا قرض ، تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے اور اس کے لیے بہترین اجر ہے۔" 
      اس آیت میں قرض حسن 'یعنی اللہ کو اچھے طریقے سے قرض دینے سے مراد اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا ہے۔اس کو قرض اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ جیسے قرض کی ادائیگی اور واپسی ضروری ہوتی ہے اسی طرح اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کااجروثواب اور بدلہ ضرور ملتا ہے۔اچھے طریقے سے ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کو راضی کرنے کے لیے دیا جائے ،دکھاوا یا واپسی کی امید رکھنا مقصود نہ ہو۔اور اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہو ئے اس  بات سے نہیں ڈرنا چاہیے کہ مال میں کمی ہوجائےگی اور ہم تنگی یا محتاجی میں مبتلا ہوجائیں گے۔تنگی یا وسعت پیدا کرنا تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔بخاری شریف کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ  فرماتے ہیں : "  تم دوسروں  پر خرچ کرتے رہو میں تم پر خرچ کرتا رہوں گا۔" 
                      واقعی کتنا نفع بخش سودا ہے،کہ اگر انسان اللہ کی رضا کے لیے اس کی دی گئی نعمت کو خلق خدا پر خوشی خوشی لٹاتا رہے اور بدلے میں مخلوق کی  بجائے اپنے خالق سے ہی اجر کی امید رکھے  تو اس کو اجر تو ملے گا ہی ساتھ ہی اس کے مال و دولت میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا ۔
 عہد نبوی میںصحابہ کرام رضی  اللہ عنہم دل کھول کر اللہ کی  راہ میں خرچ کیا کرتے تھے۔اورانھیں نہ مال میں کمی کا ڈر ہوتا تھا نہ آئندہ کے گذارے کی فکر ہوتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ جب سورہ الحدید کی مذکورہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابو الدحداح انصاری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ، کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ،ہاں۔وہ کہنے لگے کہ اپنا مبارک ہاتھ مجھے پکڑا دیجیے (تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر ایک وعدہ کروں )نبی اکرم ﷺ نے اپناہاتھ بڑھادیا انہوں نے عہد کے طور پر آپﷺ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا :یا رسول اللہﷺ میں نے اپنا باغ اپنے اللہ کو قرض دے دیا۔ان کے باغوں میں کھجوروں کے چھ سو درخت تھے ،اور اسی باغ میں ان کے بیوی بچے رہا کرتے تھے ۔ پھر وہاں سے اُٹھ کر اپنے باغ میں گئے اور اپنی بیوی کو آواز دی کہ چلو اس باغ سے نکل چلو میں نے یہ باغ اپنے پروردگار کو قرض دے دیا ہے۔(سبحان اللہ )
      کیسا پختہ یقین اور ایمانِ کامل موجود تھا ہمارے صحابہ اکرام کے دلوں میں کہ آیت کا مفہوم سنتے ہی اپنی قیمتی متاع اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے فوراَ تیار ہوگئے۔اور صرف صحابی ہی نہیں ان کی بیوی بھی اس نیکی میں ان کے ساتھ بآسانی شریک ہوگئیں،نہ تو شکوہ کیا نہ ہی اس بات کی فکر کہ اب ہمارا کیا ہوگا؟
            ہم دیکھتے ہیں کہ جہاد کے مختلف موقعوں پر بھی جس طرح صحابہ کرام نے جانوں کے ساتھ ساتھ مالوں کی قربانیاں پیش کیں  وہ ہم مسلمانوں کے لیے ایک درس عظیم ہے۔
        اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے مال و دولت کی فراوانی ہوناضروری نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کو اپنا مال اچھے کاموں میں خرچ کرتے رہنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ کو ہمارے مال و دولت کی کوئی ضرورت نہیں وہ تو ہمارے اخلاص اور نیت کو دیکھتا ہے کہ ہم کتنی خالص نیت کے ساتھ اس کے حکم پر عمل کر رہے ہیں؟
          اللہ رب العزت نے اپنے بندوں سے اس بات کا تقاضہ کیا ہے کہ وہ اپنی جان سے بھی زیادہ قیمتی چیز اس کی راہ میں صدقہ کر کے مجبور ،یتیم ،بے سہارا مسلمانوں کی مدد کریں، اس نیت کے ساتھ کہ اس کا اجر  ہمیں اللہ دینے والا ہے ،لیکن اپنے پروردگار کے اس تقاضے کو ،اس اعلان کو ہم مسلمان ابھی تک سمجھ ہی نہیں پائے ہیں،سمجھتے بھی کیسے ۔۔۔۔ابھی نہ تو ہماری مال و دولت سے ر غبت کم ہوئی ہے ،نہ ہی بینک بیلنس ہماری خواہشات  کے مطابق پُر ہوئے ہیں،اور نہ دنیا کی لذتوں سےہم پوری طرح لطف اٹھا سکے ہیں۔ پھر اگر ایسے میں اپنےمال ودولت کا تھوڑا سا حصہ قرض حسن کے طور پر دے دیا جائے تو پتہ نہیں اس کی بھر پائی  کے لیے کتنے دن اپنی خواہشات کو دبانا پڑے۔
                آج امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ انفاق فی سبیل اللہ  کے فرض سے غافل ہے ۔ بعض حضرات ضرورت مندوں کی مدد کے لیے تیار تو رہتے ہیں لیکن ساتھ ہی انھیں اپنی نمائش بھی مقصود ہوتی ہے۔اگر کسی حاجت مند کی تھوڑی سی مالی مدد کردی تو اس موقع پر تصاویر کھنچوانا اور اسے اخبارات کی زینت بنانا بھی یہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کو ایسی نمائش کرنے والوں سے کوئی غرض نہیں۔وہ تو چاہتا ہے کہ اگر ہم دائیں ہاتھ سے کچھ دیں تو  بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوسکے۔یقیناً انسان کو خلوص دل سے معمو لی سا صدقہ کرنے پر جو خوشی حاصل ہوسکتی ہے ،وہ سب کو دکھاکر نہیں ہوسکتی۔
                 روزانہ ہمارا سابقہ ایسے کئی افراد سے ہوتا ہے جو ہماری ایک توجہ کے مستحق ہوتے ہیں،چاہے وہ ہمارے گھروں میں کام کرنے والی ملازمہ ہو ،سبزی فروش ہو،ٹھیلوں پر ضرورت کا چھوٹا موٹا سامان بیچنے والے افرادہو ں یا گلیوں میں صدائیں لگانے والے فقیر ہوں۔ان تمام کی بھی وہی ضرورتیں ہوتی ہیں جو ہماری ہوتی ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس ضرورتوں کو پورا کرنے کے وسائل ہوتے ہیں اور انھیں وہ میسر نہیں ہوپاتے۔اگر ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کو مدنظر رکھ کر اِن جیسے کسی ایک مستحق کے لیے قرض حسن کے طور پر اپنے مال و دولت کا کچھ حصہ صرف کردیں تو اس سےہمارے مال میں کوئی کمی واقع نہیں ہونے والی بلکہ اللہ رب العزت اِس میں اضافہ ہی فرمائے گا۔تو کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے؟   

«
»

میکدۂ علم وعشق: دارالعلوم وقف دیوبند

گھر گھر دلت مسلم اتحاد پارٹی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے