حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا اور اس نے اس کی زکوٰہ نہیں ادا کی تو قیامت کے دن اس کا مال ایک گنجے سانپ کی شکل بن کر جس کی آنکھوں پر دوکالے نقطے ہونگے اس کے گلے کا طوق بن جائے گا، پرھ اس کی دونوں مونڈھیں پکڑ کر کہے گا میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں (صحیح بخاری)
اسلام کی بنیاد پانچ امور پر قائم ہے اگر کوئی شخص کسی ایک بنیاد کو تسلیم کرنے سے انکار کرے تو وہ کافر گرداناجائیگا جبکہ اس کا تارک گنہگار تصور کیاجائے گا ۔ زکوٰۃ ان ارکان میں سے ایک ہے جو صاحب نصاب پر سال میں ایک مرتبہ فرض ہے جیساکہ قرآن پاک میں فرمایا گیا ’’اے نبی ﷺ آپ ان کے (یعنی اہل ایمان) اموال میں سے زکوٰۃ لیں تاکہ انہیں (گناہوں سے) پاک کرے اور ان کے درجات بلند کرے (سورہ توبہ)
لفظ ’زکوٰۃ‘ کے لغوی معنی پاکیزگی اور اضافے کے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پہلے مفہوم کے مطابق اس عبادت کے ادا کرنے سے انسان کا مال حلال اور پاک ہوتا ہے اور نفس بھی تمام گناہوں اور برائیوں سے پاک ہوتا ہے جبکہ دوسرے مفہوم کے مطابق زکوٰۃ ادا کرنے سے نہ صرف مال ہی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اجر وثواب میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ فریضہ زکوٰۃ کی اہمیت ایک مقام پر یوں بیان ہوئی ’’ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں ، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، ان کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں (سورہ بقرہ)
’’زکوٰۃ‘‘ کی ادائیگی تکمیل اسلام کا ذریعہ ہے چنانچہ امام کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا زکوٰۃ ادا کرو تاکہ تمہارا اسلام مکمل ہوجائے (مسند بزار)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی اور حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ مقرر ہوئے اور عرب کے بعض قبیلے کافر (مرتد) ہوگئے تو حضرت عمر فاروقؓ نے (ابوبکرؓ ) سے کہا آپ کیسے لوگوں سے لڑیں گے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ اللہ کی توحید کا اورمحمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اقرار کرلیں۔ جس نے یہ اقرار کرلیا اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو سوائے حق اسلام کے، مجھ سے محفوظ کرلیا، اور اس کا حساب اللہ کے سپرد ہے، ۔ تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور جہاد کروں گا جونماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کریں گے، اس لئے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے ۔ اللہ کی قسم اگر یہ وہ اونٹ باندھنے والی رسی بھی جو وہ رسول اللہ ﷺ کو ادا کیا کرتے تھے مجھ سے روکیں گے تو اس کے روکنے پر ان سے جہاد کروں گا ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اللہ کی قسم زیادہ دیر نہیں ہوئی، مگر مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کے لئے ابوبکرؓ کا سینہ کھول دیا ہے اور میں نے جان لیا کہ یہی (ابوبکرؓ کی رائے) حق ہے (بخاری، مسلم)
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے ’یہ تباہی ہے ان کے لئے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں (سورہ السجدہ)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے لوگ قحط سالی میں مبتلا کردیئے جاتے ہیں۔(طبرانی)
زکوٰۃ کی ادائیگی ایمان کا حصہ اور سچے مومن ہونے کی نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’وہ لوگ جونماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (اللہ کے راستے میں) وہی سچے مومن ہیں (سورہ انفال)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو (سورہ بقرہ) ’زکوٰۃ‘ کی فرضیت اکثر علماء کے بقول ۲ھ میں ہوئی۔ قرآن مجید میں ۲۶ مقامات پر زکوٰۃ کا تذکرہ نماز کے ساتھ کیا گیا ہے۔ گویا نماز اور زکوٰۃ دونوں ایسے امور ہیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی واضح نشاندہی کرتے ہیں۔ قرآن وحدیث میں زکوٰۃ کی بہت تاکید کی گئی ہے ، تاکہ اسلامی معاشرے میں طبقاتی ناہمواریاں نہ رہیں۔
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذؓ کو یمن کی طرف (حاکم بناکر )بھیجا، تو فرمایا انہیں (سب سے پہلے) اس بات کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں(محمدؐ) اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ یہ بات مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں پھر اگر وہ یہ بھی مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰہ فرض کی ہے جو ان کے مالدار وں سے وصول کرکے ان کے فقراء پر تقسیم کی جائے گی (بخاری، مسلم)
اگر مسلمان پوری زکوٰۃ صحیح ادائیگی کے ساتھ نکالنے لگے تو نہ ہمیں حکومت کی درپوزہ گری کرنے کی ضرورت ہوگی اور نہ تعلیمی اور حکومتی اداروں میں ریزرویشن کے مطالبے کی۔
ہمارے مسلم معاشرے کا کوئی بھی فرد بیروزگار نہیں رہے گا اور کوئی بھی مریض بغیر علاج کے نہیں رہے گا۔ حیرت ہوتی ہے کہ زکوٰۃ جیسا انعام ہونے کے باوجود نہ مسلمانوں کے پاس ممتاز تعلیمی ادارے ہیں اور نہ عظیم الشان فلاحی تنظیمیں۔ ہم ہر شعبے میں پسماندہ اور دوسروں کے دست نگر ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے ’جو زکوٰہ تم اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دیتے ہو اس سے دینے والے ہی اپنے مال میں اضافہ کرتے ہیں (سورہ روم)
یاد رکھئے زکوٰۃ کا صحیح مقصد اعلائے کلمۃ اللہ اور غربت کا خاتمہ ہے جب یہ صحیح اور اعلیٰ مقصد ہمارے پیش نظر رہے گا تبھی غربت کا خاتمہ ہوگا۔ اس کے لئے جتنے بھی طریقے ہوسکتے ہیں وہ سب کے سب زکوٰۃ کی رقم سے روبعمل لائے جاسکتے ہیں۔ اتنا منظم ومستحکم اور قابل رشک سسٹم ہونے کے باوجود اگر اب بھی اس کے صحیح مصرف کو نظر انداز کیا گیا توپھر یہ نوشتہ دیوار پڑھ لیجئے کہ آنے والا کل مسلمانوں کے لئے مزید خطرات وتباہیاں لیکر آرہا ہے۔ اس لئے خدارا ابھی سے فکر کیجئے۔ اگر آپ نے صرف اپنے اپنے اہل خانہ اور خاندان کی ذمہ داری لے لی ہے تو پھر معاشرہ اصلاح پذیر ہوجائے گا اور یہ نیک اقدام بڑھتے بڑھتے پوری ملت اسلامیہ کو ترقی کی نوید سنائے گا۔ (انشاء اللہ)۔(یو این این)
جواب دیں