خلافت اور اس کی شرعی حیثیت

لیکن اگر مسلم ملکوں کے انقلابات سے صرف ہاتھ کی تبدیلی ہوئی اور صرف حکمراں بدل گئے تو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ پہلے بھی حکمرانوں کے نام مسلمانوں کے ناموں کی طرح تھے۔ پہلے بھی مسجدیں موجود تھیں اور نماز پڑھنے پر کوئی پابندی نہ تھی نماز پڑھنے کی آزادی تولندن اور واشنگٹن میں بھی نہیں ہے۔ لیکن عرب ملکوں کے یہ حکمراں اسلام کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کا مطالبہ کرنے والوں کے کشتوں کے پشتے لگا رہے تھے۔ خود تو مطلق العنان تھے لیکن انہوں نے عوام کو آزادی سے محروم کررکھا تھا لکھنے اور بولنے تک کی آزادی مفقود تھی۔ کوئی اخبار تک آزادانہ طور پر نہیں نکال سکتا تھا۔ اصل اسلامی انقلاب وہی ہوگا جس میں حکمرانوں کی مطلق العنانی کا خاتمہ ہوگا اور خدائی قانون کا نفاذ ہوگا اور خلافت اسلامیہ کا قیام عمل میں آئیگا ۔ امریکہ اور اسرائیل کو اسی حقیقی انقلاب کا خوف ہے اور خلافت کا قیام انہیں کسی قیمت پر برداشت نہیں ہے ۔برداشت عرب ملکوں کو بھی نہیں ہے کیونکہ حادثہ سخت ہے اور جان عزیز۔ عرب ملکوں میں انقلاب کی حمایت اس امید پر کی گئی ہے کہ عرب قوم اس طوفان سے نئے ایمان ویقین اور نئے خون اور نئے جذبہ کے ساتھ تازہ دم ہوکر نکلے گی اور عزت اور سربلندی کی طرف اپنا سفر شروع کرے گی جب مصر وشام وعراق کے ظالم حکمرانوں نے عربوں کو اور مسلمانوں کو ذلت کے غار میں ڈال رکھا تھا ۔ عالم عرب کے لئے ابھی یہ عبوری مرحلہ ہے ۔ ابھی شام انقلاب کے مرحلہ سے گذررہا ہے جس کی منزل ابھی نہیں آئی ہے پھر اسلامی دستور کی تشکیل کا مرحلہ باقی ہے اس مرحلہ سے گذرنے کے بعد اہل اسلام اور دینی فکر کے لوگ قیادت اور امامت کے منصب پر فائز ہوسکتے ہیں۔ مصر پھر غلط راستہ پر مڑ گیا ہے جس کے خلاف ہر روز احتجاج جاری ہے ،احتجاج اور انقلاب کے مخالفوں کا یہ کہنا ہے کہ اصل چیز استحکام ہے اور انقلاب کی لہر استحکام کو ختم کرتی ہے یہ ایک بے معنی بات ہے۔ اس نام نہاد استحکام نے آخر عربوں اور مسلمانوں کو اب تک کیا دیا؟ اسرائیل کے مقابلہ میں مسلسل شکست، یروشلم کا زخم، فلسطینیوں پر مظالم،غزہ کی بربادی ، عراق کی پامالی، امریکہ اور مغربی ملکوں کے سامنے سربزیری اور غلامی، آزادی سے محرومی، شراب خانے اور قمار خانے، نائٹ کلب، فحاشی اور عریانی، یہی وہ تحفے ہیں جو عالم اسلام کو ان عرب حکمرانوں کے ہاتھ سے ملے ہیں۔ ان عرب ملکوں میں پوری زندگی صرف خوردونوش اور لذت چشم وگوش سے عبار ت ہے۔ فارغ البالی خوش حالی اور خوش جمالی معیار زندگی کی بلندی مغرب کی زلہ ربائی اور اس کے خوان نعمت کی ریزہ چینی بس زندگی کا مقصود اور سدرۃ المنتہی ہے، باہر سے سامان منگانا اور عیش کرنا ہی ان حکمرانوں نے سیکھا اور اپنے عوام کو سکھایا ہے،ہمیں اس کا اعتراف ہے کہ ان ملکوں نے خانہ برانداز چمن بن کر دوسرے ملکوں کے صحن میں بھی گل اور ثمرپھینکے اور وہاں بھی ہریالی آئی اور پٹرو ڈالر کی چاندنی پھیلی لیکن نتیجہ کے طور پر اور مجموعی طور یہی ہوا کہ صارفین کی قوم پیدا ہوئی ، جس طرح بچوں کے ہاتھ میں کھلونے دئے جاتے ہیں اسی طرح ساری دنیا کے کھلونوں سے وہ اپنا دل بہلاتے رہے اور عیش کرتے رہے ۔ صحیح دینی فہم بھی پیدا نہیں ہوا ان عرب ملکوں میں اگر کوئی خالص اسلامی تحریک ابھرتی ہے اور اقتدار تک پہونچ جاتی ہے تو سارے عرب حکمراں بڑی طاقتوں سے مل کرسازش کرتے ہیں اور اس تحریک کو کچل ڈالتے ہیں، اس کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں ۔ان عرب ملکوں میں تعلیمی ترقی بھی نہیں ہوسکی ، تعلیمی اور صنعتی اعتبار سے پسماندگی کی حد جاننا ہو تو ۲۰۰۲ء کی ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ چشم کشا ہونی چاہئے جس میں مذکور ہے کہ تمام عرب ملکوں کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) صر ف ایک یوروپی ملک اسپین کی مجموعی پیداوار کا آدھے سے بھی کم ہے۔ عرب ملکوں میں تعلیم پر ہونے والے اخراجات یوروپی ملکوں میں تعلیم کے اخراجات کے مقابلہ میں صرف دس فیصد ہیں۔ عرب ملکوں میں چھ کروڑ عوام ناخواندہ ہیں۔ کیا یہی وہ استحکام یا ترقی ہے جس کی دہائی بے توفیق عرب حکمراں دے رہے ہیں اور غیر مشروط اطاعت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عرب حکمرانوں نے عوام کی عزت نفس کو دبا رکھا تھا۔ ظلم وجور کے مقابلہ میں خود سپردگی اور خاموشی عرب عوام کی عادت وطبیعت ثانیہ بن گئی تھی۔ عرب حکمرانوں کی ساری کوششیں اپنے آقاؤں یعنی امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کو خوش کرنے میں لگی رہتی تھیں۔ لیکن اب زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں۔ ظلم اور چیرہ دستیوں کی سیاہ رات ختم ہورہی ہے۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ صبح صادق دیر سویر نمودار ہوگی۔اور اسلامی خلافت کا احیاء ہوگا۔
اسلام کاصحیح نظام خلافت ابھی نظروں سے بہت دور ہے لیکن اگر اسلام پسند آئندہ عرب ملکوں میں حکومت میںآجائیں تو اسلامی حکومتوں کا ایک وفاق قائم ہوسکتا ہے جو خلافت کے نظام کی طرف پہلا قدم ہوگا۔یہ خلافت ملک عبد اللہ بھی قائم کرسکتے ہیں بشرطیہ وہ ملوکیت اور موروثی نظام کو بدل دیں ۔ خلافت اسلام کے اجتماعی نظام کا وہ اہم شعبہ ہے جسے لوگ بھولتے جارہے ہیں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہے کہ اسلام کے اس اہم شعبہ کو یاد رکھا جائے اور لوگوں کو یاد دلایا جائے۔ اگر علماء کی جانب سے ان موضوعات پر اظہار خیال نہیں ہوگا تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ خاک کی آغوش میں تسبیح ومناجات کافی ہے اور دین بس مسجد میں نماز پڑھنے کا نام ہے۔
نا اہل حکمرانوں کے خلاف بغاوت اور انقلابات نے اسلامی نظام کے لئے خوابیدہ تمناؤں کو بیدار کیا ہے۔ اسلام کا عادلانہ نظام کیسا ہوتا ہے اور اسلامی خلافت کا چہرہ زیبا کس قدر دل کش ہوتا ہے اس کی تفصیل تو اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں صرف ایک جھلک دیکھنے کے لئے مولانا ابو الاعلی مودودی کی کتاب خلافت اور ملوکیت کا ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے۔
’’خلافت کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ اس میں تنقید اور اظہار رائے کی پوری آزادی تھی، اور خلفاء ہر وقت اپنی قوم کی دسترس میں تھے وہ خود اپنے اہل شوری کے درمیان بیٹھتے اور مباحثوں میں حصہ لیتے تھے آزادانہ فضاء میں ہر شریک مجلس اپنے ایمان وضمیر کے مطابق رائے دیتا تھا۔ فیصلے دلیل کی بنیاد پر ہوتے تھے۔ وہ بازاروں میں کسی محافظ دستہ اور ہٹو بچو کے اہتمام کے بغیر عوام کے درمیان چلتے پھرتے تھے‘‘۔
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اسلامی دنیا میں خلافت راشدہ کے بعد بادشاہت نے اور ڈکٹیٹرشپ نے جڑ پکڑلی ہے اور اسلام کا سیاسی نظام صرف کتابوں کی زینت بن کر رہ گیا ہے۔ مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی کی اہم کتاب’’ مثالی حکمراں‘‘ پڑھئے تو محسوس ہوگا کہ آج کے دور کے عرب مسلم حکمراں اپنے کردار اور طرز زندگی کے اعتبار سے مسلمانوں کے عہد اول کے مثالی حکمراں کے بالکل برعکس زندگی گزارتے ہیں موجودہ عرب حکمراں اسلام کے نظام حکمرانی کے مطابق عمل تو کیا کرتے انہیں مغرب کے انداز حکمرانی کی خوبیوں پر بھی عمل کرنے کی توفیق نہیں ہوتی ہے۔ ان میں کا ہر ایک حاکم ایک ڈکٹیٹر ہوتا ہے اور وہ ملک کے خزانہ کو اپنی ذاتی جاگیر بنالیتا ہے۔عرب ملکوں میں یا تو ملوکیت ہے یا آمرانہ نظام ہے ان دونوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔
اسلامی نظام حکمرانی میں خلیفہ کی اطاعت انہیں احکام میں ہوتی ہے جو کتاب وسنت کے مطابق ہوں، اور خلیفہ اس وقت قابل عزل ہوجاتا ہے جب وہ احکام شریعت کا نفاذ نہ کرے یا شریعت کا استحفاف کرے، اگر خلیفہ نادرست قدم اٹھائے یا اس کا انداز حکمرانی ’’علی منہاج السنۃ‘‘ نہ ہو تو اس پر تنقید بھی افضل الجہاد کے حکم میں داخل ہے کاش ان ملکوں کے علماء یہ کام انجام دیتے ۔ سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کو افضل الجہاد کہا گیا ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اطاعت امیر کے حدو دکیا ہیں اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ لیبیا، شام، مصر اورعراق وغیرہ کے موجودہ حکمراں نظام اسلامی کی مخالفت کی وجہ سے ان اولی الامر میں سے نہیں ہیں جن کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔اور اس لئے کہ ان کے خلاف بغاوت درست ہے۔
آج ساری دنیا میں جمہوریت کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقی جمہوریت آج سے چودہ سوسال پہلے خلافت راشدہ کے عہد میں قائم ہوچکی تھی اس وقت جب کہ دنیا جمہوریت کے نظام سے بالکل آشنا نہ تھی۔ علامہ شبلی نے حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے:
’’کوئی امر بغیر مشورہ اور کثرت رائے کے عمل میں نہیں آسکتا تھا۔ مجلس شوری کے انعقاد کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے ایک منادی اعلان کرتا تھا کہ ’’الصلوۃ جامعۃ‘‘ یعنی سب لوگ نماز کے لئے جمع ہوجائیں۔ جب لوگ جمع ہوجاتے تو خلیفہ مسجد نبوی میں جاکر دورکعت نماز پڑھتے تھے۔ نماز کے بعد منبر پر چڑھ کر خطبہ دیتے تھے اور پھر بحث طلب امر پیش کیا جاتا تھا۔ معمولی اور روز مرہ کے کاروباری مسائل میں اس مجلس کے فیصلے کافی سمجھے جاتے تھے۔ لیکن جب کوئی اہم امر پیش آتا تھا تو مہاجرین اور انصار کا اجلاس عام ہوتا تھا اور سب کے اتفاق سے وہ امر طے پاتا تھا… مجلس شوری کے ارکان کے علاوہ عام رعایا کو انتظامی امور میں مداخلت حاصل تھی۔ صوبجات اور اضلاع کے حاکم اکثر رعایاکی مرضی سے مقرر کئے جاتے تھے بلکہ بعض اوقات بالکل انتخاب کا طریقہ عمل میں آتا تھا‘‘ (الفاروق حصہ دوم صفحہ ۱۳۔۱۴۔۱۶)۔
اسلامی نظام کی خصوصیات کو سمجھنے کے لئے سیرت نبوی اور خلافت راشدہ کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ ضروری ہے۔ علامہ شبلی نے الفاروق میں یہ صراحت کی ہے کہ حضرت عمر فاروق اپنے تمام عمّال گورنروں سے یہ عہد لیتے تھے کہ وہ دروازے پر دربان نہیں رکھیں گے۔ اہل حاجت کے لئے دروازہ کھلا رکھیں گے، اپنا معیار زندگی بلند نہیں کریں گے،تقرری کے وقت عامل گورنر کے مال واسباب کی فہرست تیار کی جاتی تھی تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ عامل کے منصب پر فائز ہونے کے بعد اس کی دولت میں اضافہ تو نہیں ہوا ہے۔ اگر ہوتا تھا تو اس سے مواخذہ کیا جاتا تھا۔ اس کو تاکید کی جاتی تھی کہ رعیت میں کسی فرد کی حق تلفی نہ ہو اس پر ظلم نہ ہو۔ ایسا معاشرہ تیار کیا جاتا تھا جس میں خدا کا خوف ہو اور اسلامی تعلیمات پر عمل ہو۔ عیش وعشرت نہ ہو، سادگی اور جفاکشی ہو۔
اسلامی نظام خلافت میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق بھی محفوظ رہتے ہیں ، جزیہ کے نام سے ایک بہت چھوٹی سے رقم وصول کی جاتی ہے اور یہ فوجی خدمت سے استثناء کا اور حفاظت کا ٹیکس ہے کیونکہ اسلامی نظام کی حفاظت کیلئے غیر مسلموں سے زبردستی فوجی خدمت نہیں لی جاسکتی ہے ، لیکن جو غیر مسلم برضا ورغبت فوجی خدمت کے لئے تیار ہو اس سے جزیہ نہیں لیا جائے گا جو غیر مسلم ملک میں رہنے کے لئے تیار ہو اسے جزیہ دینا ہوگا یاملک چھوڑنا ہوگا اور جو غیر مسلم فوجی خدمت کے لئے تیار ہوجائے اس سے جزیہ نہیں لیا جائے گا ۔
ایسے منصفانہ اور روحانی اور مذہبی نظام کو بروئے کار لانے کے لئے فاسق وفاجر حکمرانوں کا تختہ اگر الٹا جاسکتا تھا تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہئے ، یہاں اسلامی نظام کے خدوخال کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنا مشکل ہے لیکن یہی وہ مناسب وقت ہے کہ مسلمانوں کے سامنے اسلام کے طرز حکمرانی کا خاکہ پیش کیا جائے اور اس بات پر بھی گفتگو ہو کہ اطاعت امیر کے حدود کیا ہیں اور نظام خلافت کی باز آفرینی کیسے ممکن ہے اور لوگوں کو یہ بھی بتایا جائے کہ ایک خلیفہ یا امیر المومنین ، ڈکٹیٹر اور بادشاہ میں اسلامی نقطہ نظر سے کیا فرق ہے، اس بات کو بھی معرض بحث میں لانے کی ضرورت ہے کہ اسلام کا شورائی نظام کیا ہے اور نصب امیر کے لئے رائے دہی کے طریقے کیا ہوسکتے ہیں، جدید عہد کے طریق انتخاب جنرل الیکشن کی بھی گنجائش نکل سکتی ہے یا نہیں مجلس تشریحی یا پارلیمنٹ کے رکن بننے کے لئے کن اوصاف کا ہونا لازمی ہے۔ امیر اور خلیفہ کا تقرر ایک مقررہ میعاد کے لئے ہونا چاہئے یا نہیں خلیفہ کے اختیارات کیا کیا ہیں اور اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں، اگر ایک شخص بزور طاقت فوجی قوت کے سہارے اقتدار پر قبضہ کرلیتا ہے تو اس کی اطاعت کا حکم کیا ہے، بیت المال کے مصارف کیا کیا ہوسکتے ہیں۔ علماء کو موجودہ حالات میں ان جزئیات پر غور کرنا چاہئے اور عوام کی رہنمائی کرنا چاہئے اور اسلام کے سیاسی نظام کو پیش کرنا چاہئے۔یہ بات ذہن نشیں کرنا چاہئے کہ امتوں کے اخلاق اور نفسیات پر طرز حکومت کا گہرا اثر پڑتا ہے، اس لئے یہ معاملہ ایسا نہیں ہے جسے نظر انداز کیا جائے اور اس سے بے توجہی برتی جائے۔ اسلامی تاریخ کے اس اہم موڑ پر علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی رہنمائی کریں اور اسلامی نظام خلافت کے خدو خال نمایاں کریں ۔اسلام دین رحمت ہے اور مکمل نظام ہے اس کے دائرے سے زندگی کا کوئی گوشہ اور کوئی پہلو بھی باہر نہیں اس وقت دنیا اسلام سے اس لئے بھی دور ہے کہ اس نے اسلام کا پورا جلوہ دیکھا ہی نہیں کیوں کہ اسلام ایک مکمل نظام کی حیثیت سے کہیں بھی روبہ عمل نہیں ہے۔اگر کسی شخص کے ذہن میں اسلامی نظام خلافت کی شرعی حیثیت کے بارے میں ذرا بھی شبہہ ہو تواسے معروف عالم اور مفکر مولانا ابو الحسن علی ندوی کی یہ تحریر ضرور پڑھ لینی چاہئے مولانا فرماتے ہیں:
’’ مسلمان خلافت اور امارت کا نظام قائم کرنے کے شرعی طور پر مکلف ہیں اور اس میں کوتاہی اور سہل انگاری ان کو گنہگار کرسکتی ہے حدیث اور فقہ کی کتابوں اور اسلام کی روح اور اس کے مقاصد کے صحیح فہم کا بھی یہی تقاضہ ہے اس موضوع پر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتاب ازالۃ الخفا اور مولانا اسماعیل شہید کی کتاب منصب امامت کا مطالعہ بہت مفید ہوگا ، پہلے کے مسلمان اس بات کے روادار نہیں تھے اور اس کو بہت بری بات سمجھتے تھے کہ ان کا کوئی مختصر وقفہ بغیر خلافت وامارت کے گذر جائے ، چنانچہ مسلمان مؤرخین جب کسی نئے سال کا آغاز کاذکر کرتے ہیں تواس طرح لکھتے ہیں کہ’’ نیا سال شروع ہوگیا اور مسلمان اب تک بلاخلیفہ کے ہیں ، ، اگر وہ اس زمانہ میں ہوتے اور اس طویل مدت کو دیکھتے جو بغیر خلافت اور امارت ہی کے نہیں بلکہ بغیر کسی احساس وشعور وفکر کے گذر رہی ہے تو ہمارے متعلق کیارائے قائم کرتے؟ ( مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ، ارکان اربعہ ص ۹۴)

«
»

ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف سازش

ہم کریں تو لو جہاد اور وہ کریں تو قومی یکجہتی۔۔۔۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے