خواجہ صاحب کے در سے روحانی فیوض حاصل کرنے والے اولیاء ،صوفیہ اور علماء

خواجہ قطب الدین بختیار کاکی 
خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، کی قبر دلی کے مہرولی علاقے میں ہے، جہاں اکثر زائرین کی بھیڑ رہتی ہے۔ آپ خواجہ صاحب کے بے حد قریب رہے اور مرید وخلیفہ ہوئے۔آپ کو خواجہ صاحب کے ملفوظات جمع کرنے کا موقع ملا اور ایک مدت تک ان کی زندگی میں ان سے فیضیاب ہوتے رہے۔ خواجہ قطب کا تعلق خاندان غلامان کے سلطان شمس الدین التتمش سے انتہائی گہرا تھا اور بادشاہ آپ سے مرید بھی تھا۔ خواجہ غریب نواز کے انتقال سے بیس روز قبل آپ اجمیر سے رخصت ہوکر دلی آئے تھے۔حالانکہ خواجہ صاحب کے بعد آپ بھی زیادن دن باحیات نہیں رہے۔ 
بابا فرید گنج شکر
بابا فرید گنج شکر نے دہلی میں خواجہ غریب نواز سے ملاقات کی تھی۔ آپ کی ملاقات اپنے مرشد خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی مدد سے ہوئی تھی تب خواجہ صاحب نے آپ کو دعاؤں سے نواز اتھااور آپ کے اچھے مستقبل کی پیشین گوئی کی تھی۔ تب بابا فرید اپنے مرشد کی نگرانی میں منازل سلوک طے کر رہے تھے۔ خواجہ غریب نواز کے انتقال کے بعد بھی آپ مسلسل ان کی قبر پر حاضری دیتے رہے اور روحانی فیوض حاصل کرتے رہے۔ 
صوفی حمیدالدین ناگوری
خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے بعد جس شخص کو سب سے زیادہ خواجہ معین الدین چشتی سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا وہ صوفی حمیدالدین ناگوری تھے۔ آپ برسوں خواجہ صاحب کی خدمت میں رہے اور روحانی فیض اٹھاتے رہے۔ آپ نے ایک لمبی مدت تک ریاضت ومجاہدے کئے اور اس کے بعد خواجہ صاحب نے خرقہ خلافت عطا کیا۔ اپنے مرشد کے حکم سے ناگور گئے جہاں بندگان خدا کی خدمت میں مصروف رہے۔ آپ روحانیت میں اس قدر غرق تھے اور دنیا کے معاملات سے اس قدر بیزار تھے کہ خواجہ صاحب نے آپ کو سلطان التارکین اور صوفی کے ا لقاب عنایت فرمائے۔ آپ کے خاندان کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہوئی کہ خواجہ صاحب کی اولاد کا رشتہ ایک عرصے تک صوفی صاحب کے خاندان میں ہوتا رہا۔ 
مولانا فخرالدین زراوی
محبوب الٰہی شیخ نظام الدین اولیاء کے نامور خلفاء میں ایک بزرگ تھے مولانا فخرالدین زراوی جو متبحر عالم تھے اور سماع کا بے حد شوق رکھتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ محبوب الٰہی کی سماع کی محفلوں میں ان کی اکثر وبیشتر حاضری رہتی تھی۔ آپ کو خواجہ معین الدین چشتی سے خاص لگاؤ تھا جس کے سبب بار بار ان کے آستانے پر حاضری کے لئے جایا کرتے تھے۔ ۷۴۰ھ میں حرمین شریفین کی زیارت کے بعد سمندری راستے سے واپس آرہے تھے کہ جہاز دوب گیااور آپ دوسرے مسافروں کے ساتھ ہی غریق رحمت ہوگئے۔ 
بوعلی شاہ قلندر
شیخ شرف الدین بوعلی شاہ قلندر کی قبر ہریانہ کے پانی پت علاقے میں ہے۔ آپ کا شمار مجذوب بزرگوں میں ہوتا ہے۔ آپ شمس الدین ترک کے خلیفہ اور علاء الدین صابر کلیری کے ہم عصر تھے۔آپ روحانی فیض حاصل کرنے کی غرض سے خواجہ معین الدین چشتی کی قبر پر آئے اور یہاں ایک مدت تک مقیم رہے۔ آپ جس زمانے میں یہاں آئے خواجہ صاحب کا مقبرہ ابھی تعمیر نہیں ہوا تھا۔ شاہ صاحب کا انتقال ۷۱۴ھ میں ہوا۔
شیخ سلیم چشتی
خواجہ معین الدین چشتی کے آستانے پر حاضری دینے والوں میں ایک اہم نام شیخ سلیم چشتی کا بھی ہے جو مغل عہد کے ایک نامور صوفی ہیں۔ شیر شاہ سوری اور جلال الدین محمد اکبر آپ کے زبردست معتقد تھے۔ اکبر کا خیال تھا کہ شہزادہ سلیم کی پیدائش آپ ہی کی دعاؤں کے نتیجے میں ہوئی تھی۔شیخ سلیم چشتی کو خواجہ صاحب سے والہانہ عقیدت تھی۔ آپ اجمیر آئے اور درگاہ کے قریب رہ کر چلہ کشی کرتے رہے۔ ۹۷۹ھ کو آپ کا انتقال ہوا اور فتح پور سیکری میں اکبر کے تعمیر کردہ مقبرے میں دفن ہوئے۔ یہاں آج بھی زائرین کا ازدہام رہتا ہے۔ 
شیخ رفیع الدین
حضرت شیخ رفیع الدین کی شہرت اترپردیش میں شاہ مدار کے نام سے ہے۔ آپ جب ہندوستان آئے تو پہلے اجمیر میں مقیم ہوئے اور کچھ دن تک چلہ کشی کرتے رہے۔ جب باطنی اشارہ پایا تو یہاں سے آگے بڑھے اور کالپی گئے۔ شاہ مدار کا شمار مشہور صوفیہ میں ہوتا ہے۔ آپ کی قبر کانپور کے قریب مکن پور میں ہے۔ ۸۴۰ھ میں انتقال ہوا۔ 
شیخ مجدد الف ثانی
مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کا شمار ہندوستان کے معروف بزرگوں میں ہوتا ہے۔ آپ روحانیت اور طریقت کے ساتھ ساتھ دینی وشرعی معاملات میں بھی اعلیٰ مقام کے حامل ہیں۔ یہ خیال عام ہے کہ آپ شرعی ضابطوں کے معاملے میں بے حد سخت گیر تھے اور کسی نرمی کے قائل نہ تھے۔ آپ نے اکبر کے دین الٰہی کی مخالفت کی تھی ،جس کے سبب بہت سی اذیتیں اٹھانی پڑیں۔ مجددصاحب کو کئی سلاسل کی اجازت وخلافت تھی مگر عام طور پرسلسلہ نقشبندیہ میں ہی بیعت کرتے تھے۔ مجدد صاحب نے بھی خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری دی تھی اور فیوض وبرکات سے مالا مال ہوئے۔ ۱۰۳۵ھ میں آپ نے انتقال کیا اور پنجاب کے سرہند میں دفن ہوئے۔ 
امیر ابوالعلا نقشبندی
سلسلہ ابوالعلائیہ کے بانی حضرت ابوالعلاء نقشبندی بھی خواجہ خواجگان کے مزار مبارک پر حاضر ہونے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے مریدین کی کثرت تھی اور جس وقت یہاں آئے ، آپ کے مریدین بھی ساتھ تھے۔ ۱۰۶۱ھ میں انتقال کیا اور آگرہ میں مدفون ہوئے۔ 
مولانا فخرالدین دہلوی
مولانا فخرالدین دہلوی سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے معروف بزرگ ہیں۔ آپ حیدرآباد سے آستانہ عالیہ غریب نواز پر حاضری کی غرض سے آئے۔ یہاں سے دلی گئے اور دلی میں ہی انتقال ہوا۔ ۱۱۹۹ھ میں انتقال کیا اور مہرولی میں خواجہ بختیار کاکی، کی درگاہ کے احاطے میں دفن کئے گئے۔
حاجی وارث علی شاہ 
سلسلہ وارثیہ کے بانی حضرت حاجی وارث علی شاہ (دیوہ شریف۔بارہ بنکی)خواجہ صاحب کے بڑے ہی عقیدت مند تھے۔ جب آپ اجمیر شریف آئے تو شہر میں داخل ہوتے ہی پاؤں سے جوتے اتار دیئے اور اس کے بعد تازندگی کبھی جوتے نہیں پہنے۔ آپ کے مریدوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور جب یہاں آئے تو ساتھ میں مریدین بھی تھے۔ 
خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضر ہوکر اکتساب فیض کرنے والے صوفیہ، علماء اور بزرگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ انھیں شمار میں نہیں لایا جاسکتا۔ ان میں چند نام اس طرح ہیں، سید امام ابدال، میر قربان علی، سید مظفر علی شاہ جعفری، خواجہ نیاز احمد تونسوی، سید عزیز میاں چشتی، مولانا احمد رضا خاں بریلوی، خواجہ حسن نظامی، مولانا یعقوب نانوتوی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا صبغۃ اللہ فرنگی محلی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی وغیرہ۔

«
»

سرکا بدلی مگر حالات نہیں بدلے!!

یمن کے ’’حوثی‘‘کون ہیں؟؟؟!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے