اس کی بنیاد باہمی اور علاقائی تعاون تھا ۔لیکن یہود نے اپنی ریشہ دوانیوں سے اس سمجھوتہ اور اس کے فوائد سے اپنے آپ کو محروم کرلیا ۔اس کے بعد جب اسلام پورے خطہ عرب پر چھاگیا اور اس نے اطراف کی سلطنتوں کو زیر کرنا شروع کیا تو وہاں بھی اسلام نے سمجھوتوں اور باہمی تعاون کو ہی اہمیت دیا ۔لیکن اطراف کی بادشاہتوں نے اسلام کو اپنے استحصالی نظام کے لئے خطرہ محسوس کرلیا تھا چنانچہ سمجھوتوں اور باہمی تعاون کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کی کوشش سے انجام کار جنگیں ہوئیں اور اسلام غالب ہوتا چلا گیا۔اس کے ساڑھے چار سو سال بعد صلیبی دنیا نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا آغاز کیا لیکن ان کی متحدہ قوت کو مسلمانوں کے ایک جوانمردصلاح الدین ایوبی نے تنہا اپنے فہم و تدبر سے حطین کے مقام پر ایسی شکست دی کے اس کے بعد اب سے ستر اسی سال پہلے تک انہیں بیت المقدس پر قبضہ کرنے سے روکے رکھا۔
بہرحال دنیا کی تاریخ میں جنگ و جدل اور پھر اس کے مضر اثرات سے جانبر ہونے کے لئے سمجھوتے ہوتے رہے کمیٹیاں اور انجمنیں بنتی رہیں ۔یہ انسانی ضرورت بھی ہے اور اس کی فطرت بھی ۔دنیا نے معلوم تاریخی دور میں دو بھیانک اور تباہ کن جنگوں کا سامنا کیا ۔دونوں ہی جنگوں میں فاصلہ تقریبا پندرہ سال کا رہا ۔اعتماد شکن اور برباد معیشت کی فضا میں دنیا نے ایک اور انجمن کی داغ بیل ڈالی جسے ہم آج کل اقوام متحدہ کہتے ہیں ۔کہنے کو تو یہ اقوام متحدہ ہے اور اس کی تعریف میں یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا کو جنگ وجدل سے نکال کر ترقی اور خوشحالی کی راہوں پر لے جانے کے لئے اسے وجودمیں لایا گیا ہے۔لیکن اس کے قیام سے لے کر آج تک اس کی معنویت اور اس کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگتے رہے ہیں ۔اس انجمن کے ذریعہ کئے جانے والے فیصلے یا پیش کی جانے والی تجاویز کو نافذ کرنے یا اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دینے کی ذمہ داری دنیا کی پانچ مضبوط معیشتوں کے پاس ہی ہے یعنی یہ ادارہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی بقا کے لئے کام کرنے والا ادارہ بن کر رہ گیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ دنیامیں کچھ اور علاقائی تنظیمیں بنیں اور سمجھوتے ہوئے ۔اسی میں سے ایک سارک بھی ہے جسے راجیو گاندھی کی پیش قدمی پر وجود میں آنے کا موقع ملا ۔اس جنوبی ایشیائی ممالک کی انجمن کا پہلا اجلاس دسمبر ۱۹۸۵ڈھاکہ میں ہوا تھا۔اب اٹھارہواں اجلاس کاٹھمنڈو میں نومبر کے آخر میں اختتام پذیر ہو چکا ہے۔ جنوبی ایشیاء کی انجمن میں شامل ممالک میں زیادہ تعداد پسماندہ ممالک کا ہے ۔ہندوستان اور پاکستان دو ایسے ہیں جنہیں ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے ۔ لیکن ان ممالک کی ترقی پذیری کا عمل کب تک جاری رہے گا کہنا مشکل ہے ۔ویسے ملک عزیز ہندوستان کی حکومتوں کو یہ زعم ہے کہ وہ بہت جلد ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے ۔بلکہ اس سے بھی دو قدم آگے چل کر دنیا میں سوپر پاور کی دوڑ میں ہم بھی شامل ہیں ۔لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم آج بھی تغذیہ کی کمی سے ہونے والی اموات پر قابو نہیں پاسکے ہیں ۔پانچ سال تک کی عمر کے نوخیز بچے ہر روز پانچ ہزار سے زیادہ کی تعداد میں تغذیہ اور ضروری ادویہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں ۔ تیس فیصد خواتیں غذائی کمیت کا شکار ہیں۔جب ملک کے مستقبل کا جن کاندھوں پر انحصار ہونے والا ہے وہ ہی غیر صحت مند ہوں تو ملک کیسے سوپر پاور اور ترقی یافتہ بنے گا سوچا جاسکتا ہے۔
حالیہ اٹھارہواں سارک سربراہی اجلاس بھی سابقہ اجلاس کی طرح ہی آئے بات کی اور چلے گئے کے مصداق ہی رہا ۔ویسے خلاف معمول قومی میڈیا نے وہ جوش و خروش نہیں دکھایا جو اس نے مودی کے میانمار،آسٹریلیا،فجی اورامریکی دوروں کے درمیان وزیر اعظم کو عالمی قائد بنانے کی سعی لاحاصل کی تھی ۔ہم اس کے مخالف تو ہو ہی نہیں سکتے کہ ملک عزیز کا کوئی رہنما عالمی قائد کی حیثیت سے جانا جائے کیوں کہ اس سے یہاں کے ہر شہری کا وقار بلند ہوگا لیکن اس کے کوئی بنیاد تو ہو ۔ موٹے طور پر جو باتیں سمجھ میں آتی ہیں وہ یہ ہو سکتی ہیں کہ مودی نے اس اجلاس میں کوئی پر جوش بات نہیں کی اس سے ممکن ہے میڈیا کا جوش سوڈا وٹر کی ابال کی طرح فوراً ہی ٹھنڈا ہو گیا ۔ویسے اب انجمنوں کے اجلاس خانہ پری بن کر ہی رہ گئے ہیں ۔ یہی معاملہ سارک کے ساتھ بھی ہے ۔سارک کے دو اہم ممالک ہندوستان اور پاکستان پینسٹھ سال میں کبھی اچھے پڑوسی کی حیثیت سے سامنے نہیں آئے روبرو جنگوں کے علاوہ زبانی جنگ بھی پورے زور شور سے جاری رہتا ہے ۔اس سلسلے میں جہاں دونوں طرف کی کچھ تنظیموں کو الزام دیا جا سکتا ہے وہیں یرقانی میڈیا نے بھی ہندوستان و پاکستان کے تعلقات کو بگاڑنے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔کسی معمولی واقعہ کوبھی میڈیا اس قدر شدت کے ساتھ اٹھاتا ہے اور ایسی ایسی دانشورانہ دلائل دیتا ہے کہ دونوں پڑوسیوں کے درمیان بد اعتمادی کی فضا پہلے سے بھی زیادہ گہری ہو جاتی ہیاور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں کبھی دوست نہیں بن پاتے ۔کشمیر کا تنازعہ بھی دونوں کے درمیان تلخی کی ایک بنیادی وجہ ہے ۔پرویز مشرف اور واجپائی کی گفتگو کی ناکامی میں جن قوتوں کا ہاتھ تھا اس پر پرویز مشرف ایک بات بہت اچھی لگی تھی کہ ’’ہم اپنی حویلی کو خرید کر یہیں رہنا شروع کردیتے ہیں ‘‘ واضح ہو کہ پرویز مشرف کا آبائی مکان نئی دلی کے دریا گنج علاقے میں ہے جو جامع مسجد سے قریب ہے۔کچھ ایسی مجبوری یہاں کی حکومت کے ساتھ بھی ہے ۔کچھ تاریخی حقائق بھی ہیں جن کا سامنا سیاست داں کرنا نہیں چاہتے ۔لیکن کشمیر کے ایشو کو سامنے رہتے ہوئے بھی ہم بہت سارے معاملات میں ایک دوسرے کے تعاون سے ترقی کے نئے راستے دریافت کر سکتے ہیں ۔پچھلے کسی اجلاس میں جنوبی ایشیائی ممالک کی مشترکہ کرنسی کی بات اٹھی تھی لیکن اس پر پھر کوئی گفتگو ہوئی اس کی خبر باہر نہیں آئی۔ویزہ پالیسی میں معمولی نرمی تو ہوتی ہے لیکن اس میں بھی خاص کام نہیں ہو پاتا۔اصل میں جنوبی ایشیائی ممالک کا اصل اور بنیادی مسئلہ غربت اور جہالت ہی ہے لیکن سیاسی مجبوریاں ہمیں اس پر بات کرنے پر تو اکساتی ہیں لیکن عمل سے ددور رکھتی ہیں ۔اس سلسلے میں نواز شریف کی خواہش قابل غور ہی نہیں بلکہ قابل عمل بھی ہے کہ ’’جنوبی ایشیاء خطہ کو تنازعات سے پاک دیکھنے کی خواہش ہے جہاں غربت ،جہالت ،بیماری اور بے روزگاری جیسے مسائل کے حل کے لئے مشترکہ کوشش کی جائیں ‘‘۔مجھے نہیں لگتا کہ کسی کو بھی نواز شریف کی اس خواہش سے کچھ اعتراض ہوگا لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ ایسی خواہشات کے باوجود بھی مشترکہ عوامی مسائل پر گفتگو کم یا نہیں کے برابر ہوتی ہے اور فرضی اور تخیلاتی مسائل کو پہاڑ بنا کر لڑنے کو یہ دونوں پڑوسی تیار رہتے ہیں ۔جس سے ڈیفینس بجٹ میں اضافہ اور عدم اعتماد کی فضا بنی رہتی ہے ۔حالیہ اجلاس سے واپسی پر صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے دوران پرواز نواز کی یہ بات بھی کچھ پیغام دیتی ہے کہ ’’پاکستان اور بھارت کے درمیان سکریٹری سطح کے مذاکرات منسوخ ہوئے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ سلام دعا سے بھی گئے ‘ ‘۔ یہاں پر ہمیں ایک شعر یاد آرہا ہے کہ
دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجئے رشتہ ۔ دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے
ہم امید کرتے ہیں کہ ہاتھ ملانے کا یہ عمل اگر جاری رہے گا تو کبھی نہ کبھی تو دل مل ہی جائیں گے ۔بقول اٹل بہاری واجپائی ’’پڑوسی نہیں بدلے جاسکتے‘‘ ۔
جواب دیں