جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
محمد ارفع ندوی
جہاں ایک طرف لاک ڈاؤن کی وجہ سے دنیا اذیت کا شکار ہے تو وہیں دوسری طرف غریب و مفلوک الحال اپنی بھوک کی وجہ سے مرے جا رہے ہیں گویا کائنات کا نظام تھم سا گیا ہے، جملہ انسانوں کو اپنے ہی گھر میں قید کر دیا گیا ہے، نہ کہیں جاسکتا ہے نہ کہیں آ سکتا ہے، نہ کسی عزیز کے جنازے پر عقیدت کے پھول نچھاور کرنے کا موقع، اور نہ ہی غم و اندوہ کے دو آنسو، ذہن و دماغ بری طرح ماؤف ہو چکے ہیں ، سنا ہے کہ مصیبت میں اللہ کو یاد کیا جاتا ہے، یہاں تو میرا اللہ ہی مجھ سے روٹھا ہوا ہے، مسجدوں پر پہرا ہے، نہ رمضان کا لطف رہا نہ اس کی برکتوں کو سمیٹ سکے ، نماز بھی ہے تو آپسی فاصلے پر، نہ جمعہ ہے نہ مسجدوں کا سکون، نہ ذکر کی حلاوت، نہ بزرگوں کا دیدار، نہ کعبے کا طواف، جب اپنے گھر سے خدا کے گھر جانا ہوتا ہے تو ڈر ڈر کر کہ کہیں کوئی دیکھ نہیں رہا ، یہی کیا غم کم تھا؟ جو ایک اور غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ایک انتہائی محبوب انتہائی مشفق ومخلص اور ایک روحانی باپ کا سایہ اٹھ گیا، ایک بار پھر یتیمی کا احساس شدت سے ہو رہا ہے۔
جب میں نے واٹساپ میں دیکھا کہ مولانا نذرالحفیظ صاحب ندوی کا انتقال ہوگیا ہے تو پہلے میں نے سوچا کہ کسی غلطی کی وجہ سے آیا ہوا ہے پھر جب دیگر گروپ میں دیکھا تو دل یہ ماننے کے لئے مجبور ہوگیا اور جہاں تھا وہیں رہ گیا ، اس دوران مولانا کی ایک ایک ادا، اور انکی چال چلن ، رفتار و گفتار، عادات و اطوار، اور افعال و اقوال، ان کی یادیں و باتیں اس طرح سامنے آ گئی گویا اسکرین پر رقص کر رہی ہوں، یقین نہیں ہو رہا ہے کہ کس طرح خاموشی سے یہ عظیم انسان اس دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گیا۔
جہاں اس عظیم سانحہ سے امت مسلمہ کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے وہیں اس بندہ ناچیز کے لئے ایک بڑا خسارہ بھی ہے، جب جامعہ سے میری تکمیل ہوئی تو اعلی تعلیم کے حصول کے لئے میں عظیم درسگاہ دارالعلوم ندوۃالعلماء چلا گیا ، وہیں مولانا سے میرا والہانہ تعلق ہوگیا ، مولانا میرے لئے ایک مشفق والد کی طرح سے تھے، فضیلت اول میں تو مولانا سے ملاقات ذرا کم رہی، جب میں آخری سال میں تھا تو مولانا سے عجیب عقیدت ہونے لگی جب بھی مولانا کے گھنٹے میں دیر سے پہنچتا تو مولانا خصوصی طور پر مجھے یاد فرماتے اور اکثر مجھے ہی درس کی ابتدا کرنے کے لئے کہتے۔ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی کی مشہور کتاب " اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش" اور مولانا مرحوم کی تصنیف شدہ کتاب "مغربی میڈیا" مجھے مولانا سے پڑھنے کا شرف حاصل رہا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں کمر کے درد سے تین دن تک کمرے میں ہی تھا جسکی وجہ سے درس میں نہیں جا سکا تھا ، تو
مولانا ہر بار کسی نہ کسی طالب علم سے مجھے سلام کہلواتے اور حال معلوم کرتے، جب بھی مجھے حالات حاضرہ سے واقفیت حاصل کرنی ہوتی تو میں دو شخصیتوں کا انتخاب کرتا 1) مولانا مرحوم 2) حضرت مولانا مرحوم سید محمد واضح رشید ندوی ۔ دونوں میری اس سلسلہ میں بھر پور رہنمائی فرماتے اور جب میری تعلیم تکمیل کو پہنچی اور سالانہ چھٹیوں کا اعلان ہوا تو مولانا نے مجھے اپنے پاس بلا کر بہت ساری نصیحتیں کیں اور مستقبل کے عزائم کے متعلق پوچھنے لگے، جب میں کسی عزم کے بارے میں کہتا جسکو مولانا میرے لئے درست نہیں سمجھتے تھے تو کہتے کہ بیٹا اسمیں کوئی فائدہ نہیں آپ فلاں کام کرو وہ بہتر ہے اسی طرح قدم قدم پر میری رہنمائی کرتے، جب میں اپنی تعلیم مکمل کرکے واپس اپنے وطن لوٹا تو کچھ عرصہ بعد میں نے مولانا سے فون پر رابطہ شروع کیا جب بھی میں سلام کے بعد اپنا نام بتاتا تو مولانا بہت ہی زیادہ خوش ہوتے اور کہتے 'حبيبي حبيبي' اور کہتے کہ آج ہمیں کیوں یاد کیا ؟ ہر بار سلام کے بعد حبیبی کہتے، جب میں نے اپنے حفظ کے داخلے کے متعلق کہا تو مولانا نے بہت زیادہ خوشی کا اظہار فرمایا اور ایک ہی سانس میں ڈھیر ساری دعائیں دی گویا اگر میں یہ بات انکے روبرو ہوکر کہتا تو وہ میری پیشانی پر یقینا بوسہ دے دیتے، مولانا وقتا فوقتاً میرے حفظ کا حال معلوم کرتے، جب میں نے حفظ شروع کیا تو ایسے حالات آئے کہ جس سے مجھے ایسا لگا کہ میں قرآن پاک کو حفظ نہیں کر پاؤنگا اسی دوران جب میری مولانا سے بات ہوئی اور عادتا جب انھوں نے حفظ کے متعلق پوچھا تو میں نے بتایا کہ "جی نہیں لگ رہا" تو مولانا کو یہ بات اچھی نہیں لگی اور مولانا نے ناراضگی کا اظہار کیا پھر خود ہی نصیحتیں کرنے لگے اور کہا کہ اللہ ہر کسی کو اسکے لئے منتخب نہیں کرتا پھر دعائیں دی۔
گزشتہ مہینہ ہی مولانا سے میری بات ہوئی تھی اب اس عید کے بعد فون کرنے ہی والا تھا مگر نہ کرسکا اور دیکھتے ہی دیکھتے جمعہ کی دوپہر ہی کو مولانا اللہ کو پیارے ہوگئے یہ میری کاہلی تھی کہ میں نے تاخیر کردی اور یہی میری سب سے بڑی بھول تھی جو ایک عظیم صدمہ بن کر میرے سامنے آئی۔
جب میں ان واقعات کو سوچتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے، جسم پر کپکپی طاری ہوتی ہے، کہ اتنی بڑی انسان خاموشی کے ساتھ چلا گیا، وہ انسان چلا گیا جسکی ایک آواز میں پوری دنیا خاموش ہوتی تھی ، یہ وہ تھے جنہوں نے قوم و ملت کی صحیح رہنمائی کی اور باطل طاقتوں کو دندان شکن جواب دیا۔ آپ جرأت اور ہمت کے پہاڑ تھے، حق گوئی اور بے باکی میں اپنی مثال آپ تھے، شریعت کے معاملہ میں کبھی مصلحت کو پسند نہیں کرتے تھے ۔
مولانا صاحب رائے، منکسر المزاج ، مفکرقوم و ملت ، ہر دلعزیز ، اور باوفا شخصیت کے مالک تھے، زندگی کا بیشتر حصہ دار العلوم ندوۃ العلماء کی علمی و روحانی ماحول میں گزارا تھا۔
موصوف ایک بلند پایا عالم ، صاحب طرز ادیب، اور فکر ارجمند اور ذہن اخاد کے مالک تھے، آپ علم و ادب ، آدم گری و مردم سازی کا روئے زمین پر ایک نایاب کارخانہ جہاں سے علم کے ہیرے و موتی ماہرین فن، رجال کار، دعوت و ارشاد اور تزکیہ قلوب کے شیوخ اور مزکی پیدا ہوے۔
دے کے ہمکو داغ فرقت رب کے مہماں چل دئیے
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں