مڑگاں تو کھول…………………………سلمان عبدالصمد
الیکشن ہارجیت سے عبارت توہے، مگر کبھی کبھی ہارجیت کے معنی سے اوپر اٹھ کر عوامی حقوق اور حکومت کے درمیان کا ایک معرکہ بن جاتا ہے۔جھارکھنڈ کا موجودہ فیصلہ فقط ہارجیت کا معاملہ نہیں بلکہ جس موسم میں ہندوستانی جمہوریت کو مدد کے گھونٹ کی ضرورت تھی،اس وقت جمہوریت کو سرخروئی نصیب ہوئی۔ کیوں کہ ملک کا سواد ِاعظم این آر سی اور سی اے اے کے خلاف سڑکوں پر ہے اور مرکز میں برسر اقتدار جماعت جھوٹ کی کھیتی میں مصروف۔خود اپنے آئین کا مزاق اڑانے میں لگی ہے اور عالمی سطح پر ملک کی شبیہ مجروح ہورہی تھی۔اس کشیدگی کے ماحول میں بی جے پی اگر جھارکھنڈ میں کامیاب ہوتی تو ہندوستانی جمہوریت کی سسکیاں مزید تیز ہوجاتیں اور عالمی سطح پر یہ پیغام جاتا کہ جہاں ہندوستانی حکومت جمہوریت کو کچلنے میں لگی ہے،وہیں عوام بھی جمہوریت کو بے موت مارنے پر تلی ہے۔مگر ریاستِ جھارکھنڈ کے عوام نے ایسے نازک موقع پرجمہوریت کا وقار بلند کیا جب جمہوریت کو اس کی اشد ضرورت تھی۔اگر بی جے پی کامیاب ہوتی تو اس کے ترجمان سینہ ٹھوک ٹھوک کر کہتے کہ ہم اگر کچھ غلط کررہے ہوتے تو جھارکھنڈ کے عوام ہمیں ضرور سبق دیتے، مگر وہاں سے ملنے والی کامیابی ہمارے لیے بہ مانندِ سند ہے کہ ہم اچھا کام کررہے ہیں۔ اس لیے آئین مخالف قانون سی اے اے پر بی جے پی جری ہوجاتی اور مستقبل قریب میں مزید گھناؤ نی حرکتیں کرتیں مگر جھارکھنڈ کے عوام کو سلام کہ انھوں نے جمہوریت کو مضبوطی فراہم کی۔کیوں کہ وزیر اعظم مودی اور ان کے ساتھیوں نے جھارکھنڈ کی ریلیوں میں لوگوں کو بہت گمراہ کیا کہ سی اے اے، قانون مخالف نہیں بلکہ ہزارفیصد صحیح ہے۔ ان کے ”ہزار فیصدی سچ“کے خلاف کڑوروں عوام اور طلبا اب بھی سڑکوں پر ہیں۔سڑک پر اترنے والے ان جیالوں کی محنت اور جھارکھنڈ کے عوام کی سمجھ داری نے مودی کے ”سچ“ کو الٹا کر دکھا دیا اور جمہوریت کا رخ مزید روشن ہونے لگا۔
جھارکھنڈ الیکشن میں جے ایم ایم، کانگریس اور آرجے ڈی اتحاد کواسمبلی کی کل81سیٹوں میں سے46سیٹیں ملیں اور بی جے پی کو فقط 25 نشستیں، یعنی کانگریس اتحاد کو واضح اکثریت مل گئی۔ کہا یہ بھی جارہا تھا اگراس اتحاد کو ایک دو سیٹیں کم ملتی تو آل جھارکھنڈ اسٹوڈینٹ یونین اور جھارکھنڈ وکاس مورچہ کا اہم کردار ہوسکتا تھا،مگر مؤخرالذکر پارٹی کے رجحان سے ایسا نہیں لگتا کہ وہ بی جے پی کو حمایت دے،حالانکہ بابولال مرانڈی این ڈی اے (1998-2000)میں یونین اسٹیٹ منسٹر رہ چکے ہیں۔ فی الحال بی جے پی سے کوئی قربت نہیں۔اس لیے بی جے پی کی طرف ان کا آنا کچھ مشکل ہے(مگر سیاسی گلیاروں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے، کچھ کہنا بعید از قیاس ہوتا ہے)رہی بات آل جھارکھنڈ اسٹو ڈینٹ یونین کی تو اس کے متعلق واضح انداز میں رائے زنی نہیں کی گئی۔کیوں کہ 2014میں بی جے پی کی 37 سیٹوں کے ساتھ مل کر اس پارٹی نے ہی اپنی 5 نشستوں کی مدد سے حکومت بنائی تھی مگر موجودہ 2019الیکشن میں بی جے پی سے الگ ہے۔ ایل جے پی اور جے ڈی یو کے کھاتے میں کوئی سیٹ آتی تو بی جے پی کا کچھ فائدہ ضرور ہوسکتا تھا،مگر وہ دونوں جھارکھنڈ میں بس سیاست کی تماشائی رہی۔ اس لیے واضح ہے کہ جھارکھنڈ میں گانگریس اتحاد کی حکومت بنے گی۔اس اتحاد نے فی الحال ٹکٹ کی تقسیم میں جس سمجھداری کامظاہرہ کیا،اسی سمجھ داری کی ضرورت بہار الیکشن میں بھی ہے۔جھارکھنڈ الیکشن کا ملکی سطح پر کیا اثر ہوگا،کچھ کہہ پانا جلدبازی ہے مگر بہاراور بنگال میں آئندہ ہونے والے الیکشن میں جھارکھنڈ کا واضح اثر دیکھا جائے گا۔
جھارکھنڈ الیکشن کا یہ پہلو بھی دل چسپ ہے کہ آدھی سے زیادہ سیٹوں پر لڑنے کے باوجود رام ولاس پاسوان بری طرح ناکام ہوئے۔ ایسا نہیں کہ 2019 کے الیکشن سے پہلے وہاں ان کی ساکھ بہت اچھی تھی۔ دراصل یہاں مقصود یہ ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ ہوتے تو وہاں اس کا کچھ نہ کچھ فائدہ ہوتا، مگر جہاں رام ولاس الگ ہوئے وہیں آل جھارکھنڈ اسٹوڈینٹ یونین بھی الگ ہوگئی، جس سے ایک طرف جھارکھنڈ میں بی جے پی کا نقصان ہواہی، دوسری طرف ملکی سطح پر خود رام ولاس کمزور ہوئے اور ان کی ساکھ خود بی جے پی میں مزید مسخ ہوگی۔اس لیے شاید رام ولاس پاسوان بہار الیکشن میں مہاگٹھ بندھن کادامن تھامنے کی کوشش کریں گے۔ دامن تھامنے کی وجہ سیکولر اتحاد کو مضبوط کرنا نہیں ہوگا،بلکہ بوکھلاہٹ اور مسخ ہوتی اپنی شبیہ کی بنیاد پر وہ ایسا فیصلہ لیں گے۔گویابی جے پی سے الگ ہو کر بھی کچھ کرشمہ نہ کرسکے، یعنی خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ اس لیے بہار انتخاب میں اگر رام ولاس ہاتھ بڑھاتے ہیں تو سیٹوں کی تقسیم کے معاملے میں عظیم اتحادکو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات تو جگ ظاہر ہے کہ مرکزی حکومت ترقی کی شاہراہوں پر مکمل طور پر ناکام ہے۔ عالمی سیاست، ذی شعور طبقے اور طلبا کے درمیان تعلیم مخالف پارٹی بن کر ابھر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آئین مخالف قانون بنانے میں بھی سرگرم ہے۔ گویا ہر محاذپر ورغلانے والی سیاست اور اس کے لیڈروں کی رعونت نے بی جے پی کو ڈبویا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جھارکھنڈ میں اس کے موجودہ سی ایم رگھوبر داس کی سیٹ سوالیہ نشان بن گئی۔ وزیر اعلی کی ناکامی فقط ایک فرد کی شکست نہیں ہوتی،بلکہ ان سے پارٹی کی شبیہ بھی جڑی ہوتی ہے۔پارٹی کی ساکھ بہت زیادہ کمزور ہوتی ہے۔ اس الیکشن کا یہ پہلو بھی انتہائی دل چسپ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے جن 9 حلقوں میں ریلیاں کیں،ان میں سے 7سیٹوں پر بی جے پی ہار گئی۔ وزیر اعظم کی اس محنت کے رائیگاں جانے کے بھی بہت سے معنی ہوسکتے ہیں۔اس تناظر میں پہلی بات یہ ہے کہ جھارکھنڈ کے لوگوں نے حکومت کے لبھاؤ نے فیصلوں اور نعروں کو یکسر مسترد کردیا ہے۔من جملہ یہ کہا جاسکتاہے کہ جھارکھنڈ میں بی جے پی کی ہار میں جہاں سی اے اے جیسے قانون کا کچھ کردار رہا، وہیں ترقیاتی کاموں میں ناکامی بھی بڑی وجہ رہی۔ اس ناکامی کو چھپانے کے لیے بی جے پی ترجمان شاہنواز حسین بار بار جھارکھنڈ کے ووٹ فیصد کا حوالہ دے رہے ہیں کہ ہم ووٹ کے لحاظ سے ناکام نہیں ہوئے۔ شاہنواز حسین کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آپ کی پارٹی سے بننے والی مرکزی حکومت نے عام انتخاب میں کتنے فیصد ووٹ حاصل کیا؟ کوئی 31-32فیصد ووٹ سے بننے والی حکومت کو زعم ہے کہ ملک کا ہر ایک فرد اس پارٹی کا حمایتی ہے، حالاں کہ ایسا قطعاً نہیں۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ بی جے پی کو جھارکھنڈ میں عوام نے بری طرح مسترد کردیا۔
جھارکھنڈ کی یہ کامیابی ان تمام لوگوں کو مبارک جو بلاتفریق مذہب وملت قانون بچانے کے لیے سڑکوں پر اتر رہے ہیں، کیوں کہ بی جے پی کی اس ہارسے جمہوریت مضبوط ہوئی۔اس مضبوطی میں سڑکوں پر اترنے والے تمام سیکولر افراد کی محنت شامل ہے۔ متعددریاستوں میں ملنے والی متواتر کامیابیوں کے بعد بی جے پی خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ وہ جیسے چاہے ملک بھر میں حکومت کرے، مگر ان”گجراتیوں“کو گجرات کی بڑی کامیابی کے بعد کسی بھی ریاست میں بڑی کامیابی نہیں ملی اور بشمول جھارکھنڈ آج 17ریاستوں میں غیر بی جے پی حکومت ہے اور بی جے پی نے 2017 کے بعد سے جھارکھنڈ، راجستھان، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ سمیت 7 ریاستوں میں حکومت گنوائی۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ہندوستان میں ہزار سسکیوں کے باوجود جمہوریت کبھی بھی کمزور نہیں ہوگی اور آئین کو کمزور کرنے والے خود کمزور ہوتے چلے جائیں گے۔
جواب دیں