جب انھوں نے یونیورسٹی کو خیرباد کہا اور دہلی کی مسلم اکثریتی کالونی جامعہ نگر میں رہائش اختیار کی ہوگی تو اس وقت ان کو یہ اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ وہ نہ صرف اس علاقے کے بلکہ تمام مثبت اور تعمیری سوچ رکھنے والے طبقات کے چہیتے اور عزیز بن جائیں گے۔ جب انھوں نے ’’ہجوم‘‘ نام کا ہفت روزہ اردو اخبار شروع کیا ہوگا تو اس وقت ان کو یہ خیال نہیں رہا ہوگا کہ وہ میدان صحافت میں اپنی تحریروں سے ان مٹ نقوش چھوڑ جائیں گے۔ لیکن یہ سب کچھ ہونا ان کے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا اس لیے وہ ان تمام مدارج سے ہمکنار ہوئے اور ملکی وملی سیاست کے سمندر کو طوفان سے ہم آغوش کر کے خاموشی سے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
جاوید حبیب ایک طوفان بردوش اور انقلابی شخصیت تھے۔ اگر چہ انھوں نے کچھ بہت زیادہ عمر نہیں پائی لیکن جتنی بھی پائی اس کو اگر یہ کہا جائے کہ بھرپور انداز میں استعمال کیا تو غلط نہیں ہوگا۔ اگر ہم دنیاوی نقطہ نظر سے دیکھیں تو وہ اپنی زندگی میں ناکام رہے لیکن معنوی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کامیاب رہے۔ ہاں انھوں نے کوئی دولت نہیں کمائی، کوئی جائیداد نہیں بنائی، کوئی جاگیر نہیں کھڑی کی، کوئی بینک بیلنس نہیں بنایا، کوئی گاڑی نہیں خریدی اور شان و شوکت اور کروفر نہیں اپنایا۔ لیکن انھوں نے اپنے ضمیر سے سودا نہیں کیا، اپنے اصولوں کو مفادات کی قربان گاہ پر قربان نہیں کیا، ملت کی عزت و ناموس کو سکوں کے عوض فروخت نہیں کیا۔ اگر چہ ان پر بابری مسجد انہدام کے تعلق سے کچھ الزامات لگے لیکن یہ الزامات ان لوگوں نے عائد کیے جو یا تو ان کی ایثار پسندی او رملت نوازی سے کما حقہ واقف نہیں تھے یا پھر جو ان سے بغض او رکینہ رکھتے تھے۔ اگر بابری مسجد کا سودا ہی کرنا ہوتا تو وہ یوں زندگی نہیں گزارتے۔ وہ بھی شان و شوکت سے رہتے اور دنیاوی عیش و عشرت کو گلے لگا کر دنیاوی اعتبار سے سماج او رمعاشرے میں سرخرو ہوتے۔
انھوں نے مسلم یوتھ کنونشن بنایا۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی بنائی، بابری مسجد کی تحریک چلائی اور اس کے لیے پورے ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں بیداری پیدا کی۔ لیکن ان پر بابری مسجد انہدام کا الزام عائد کرنا ان کے ساتھ سراسر زیادتی اور نا انصافی ہے۔ وہ دنیا پرست آدمی نہیں تھے۔ اگر ہوتے تو ملک کے تین تین وزرائے اعظم سے دوستانہ مراسم کے باوجود اپنی اہلیہ کے مکان میں نہیں رہتے۔ وہ ذاکر نگر کی تنگ و تاریک گلیوں میں زندگی نہیں گزارتے۔ وہ آٹو اور ٹیکسی پر نہیں چلتے۔ ان کے پاس بھی اپنی گاڑی ہوتی، اپنی کوٹھی ہوتی اور کسی پوش کالونی میں ان کی رہائش ہوتی۔ انھوں نے جب مسلم یوتھ کنونشن بنایا، یا جب وہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ترجمان رہے یا جب انھوں بھارتی مجلس بنائی، کبھی بھی اپنے فرض سے غداری نہیں کی، کبھی بھی ملت کو دھوکہ نہیں دیا اور کبھی بھی اپنی خودداری و غیرت مندی سے سودا نہیں کیا۔
جاوید حبیب1948 میں راجستھان کے مردم خیز شہر ٹونک میں پیدا ہوئے تھے او ران کا انتقال 11 اکتوبر 2012 کو دہلی میں ہوا۔ان کے والد حبیب الدین مرحوم، ٹونک کے ایک ممتاز قانون داں اور شہر کے ایک باوقار شخص تھے۔جاوید حبیب نے ابتدائی تعلیم ٹونک ہی میں پائی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ مسلم یونیورسٹی کے ایک ممتاز طالب علم کے طور پر اسی وقت سے معروف ہو چکے تھے۔ وہ مسلم یونیورسٹی کے طلبا کی تنظیم کی ایک اہم کڑی ثابت ہوئے اور بعد میں اسٹوڈنٹ یونین کے صدر بھی منتخب ہوئے۔مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کے لیے بھی ان کی مساعی ناقابل فراموش ہیں۔
انھوں نے دہلی کے مسلم علاقہ ذاکر نگر سے 80کے عشرے میں ایک بہت معیاری ہفت روزہ اخبار ’’ہجوم‘‘ کے نام سے نکالا تھا جس نے اردو صحافت کو ایک نیا رنگ و آہنگ دیا۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ وہ اخبار زیادہ دنوں تک نہیں چل سکا۔ جہاں وہ خود منفرد سوچ کے حامل تھے وہیں انھوں نے ملک و ملت کے تعلق سے انفرادی مگر مثبت فکر رکھنے والوں کی ایک ایسی ٹیم تیار کی تھی، حق گوئی جس کا شعار تھا اور ظلم کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں ڈٹ جانا جس کا شیوہ تھا۔ وہ خود حق گو انسان تھے اور ظلم و نا انصافی کے آگے جھکنے کو اپنے لیے موت تصور کرتے تھے۔ ان کے اندر حق پر ستی اور امت مسلمہ کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ ملک و ملت میں پائی جانے والی برائیوں کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہے۔ جاوید حبیب کی ذہنی تربیت مفتی عتیق الرحمن عثمانی، ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی، مولانا محمد تقی امینی ، مولانا افتخار فریدی جیسے بزرگوں اور مولانا محمد مسلم اور جمیل مہدی جیسے صحافیوں نے کی تھی۔ وہ سب سے زیادہ انہی ا کابرین سے متاثر تھے۔ وہ جید صحافی محفوظ الرحمن سے بھی متاثر تھے اور ان سے قریبی تعلق رکھتے تھے جس کی بنیاد محبت اور صرف محبت پر تھی۔
انھوں نے صرف صحافت ہی نہیں کی بلکہ سیاست بھی کی۔ لیکن منفرد انداز کی سیاست۔ ایسی سیاست جس میں جھوٹ او رمکر و فریب کے لیے کوئی جگھ نہیں تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ سیاست ایک مقدس اور پاکیزہ پیشہ بنے نہ کہ غنڈہ گردی اور بد معاشی کا ذریعہ۔ وہ ٹاڈا قیدیوں کے لیے بھی بہت فکر مند رہا کرتے تھے۔ ان کی تحریک چلاتے رہے او ران کی رہائی کی کوششیں کرتے رہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے راقم الحروف کے ذمہ بھی ایک کام سونپا تھا۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ کسی سے مفت کام نہیں لیتے۔ وہ اس حدیث کے قائل تھے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی اس کو مزدوری ادا کر دی جائے۔ اس حدیث پر ان کا عمل اتنا پختہ تھا کہ وہ مزدوری کے دوران ہی مزدوری ادا کر دیا کرتے تھے۔ یعنی اگر کسی سے کوئی کام لیتے تو اگر ان کے پاس پیسہ ہے تو کام کے پہلے ہی پیشگی معاوضہ ادا کر دیتے ورنہ کام کے دوران ہی انتظام کر کے دے دیتے۔ وہ اس کا انتظار نہیں کرتے کہ جب کام ہو جائے گا جب معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ انھوں نے ذاکر نگر کی طوبہ کالونی کے لیے بھی تحریک چلائی تھی اور وہاں آباد غریب مسلمانوں کو اجڑنے سے بچایا تھا۔
جاوید حبیب بے باک ، بے خوف، صاف گو صحافی تو تھے ہی ساتھ ہی نڈر اور بے باک مقرر بھی تھے۔ انھیں تقریر اور خطابت کا ملکہ حاصل تھا۔ جب وہ بولتے تو دل چاہتا کہ وہ بولتے رہیں او رہم ان کو سنتے رہیں۔ ان کے اندر حق پر ستی اور امت مسلمہ کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ جب وہ حالات ، سیاسی ارباب کی مسلم دشمنی ، منافقت، جھوٹ اور فریب کا جائزہ لیتے تو ان کے اندر کا بے لوث، بے خوف امت مسلمہ کا درد رکھنے والا فرد جاگ جاتا اور وہ بے چین ہوجاتے۔ غالباً اسی حق گوئی ، بے باکی اور بے خوفی کی ہی دین تھی کہ انہوں نے امت مسلمہ کے غموں کے مد اوا کے لئے اور ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی اور کسمپرسی کو دیکھتے ہوئے اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن ایک اخبار کو کامیاب بنانے کے لیے جن خوبیوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان کے پاس نہیں تھی۔ وہ خوشامد کے فن سے بھی عاری تھے اور مکر و فریب سے بھی نا آشنا تھے۔ وہ اپنے ضمیر اور ملت کے ساتھ غداری کرنا نہیں جانتے تھے۔ اگر وہ ان اوصاف کے حامل ہوتے تو ان کا اخبار کبھی بند نہیں ہوتا۔
جاوید حبیب کے ناقدین ان پر بابری مسجد تنازعے کے سلسلے میں بعض ایسے الزامات عائد کرتے ہیں ، جن کی کبھی کوئی تصدیق نہیں ہوسکی۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ اس پیچیدہ مسئلے کا ایک باوقار حل تلاش کرنے کی جستجو میں دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ جاوید حبیب نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد 20سال کا طویل عرصہ جس اذیت، تنہائی، بے کسی اور بیماری میں گزارا ہے اس کو بیان کرنے کیلئے پورا دفتر چاہئے۔ بابری مسجد کی شہادت کا ان کی زندگی پر بہت گہرا اثر پڑا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ان کی باغ و بہار شخصیت جوں کی توں برقرار رہی۔ در اصل وہ قہقہوں کے سمندر میں اپنے اندرونی غم و الم کو غرق کر دینا چاہتے تھے۔
راقم الحروف اکثر و بیشتر ان کے گھر جا کر ان سے ملاقات کرتا اور ہر ملاقات میں ان کے بارے میں ایک نیا تاثر لے کر اٹھتا۔ وہ اپنی گفتگو میں ملت کی زبوں حالی پر اشک فشانی تو کرتے لیکن ملت کے نام نہاد مسیحاؤں اور ٹھیکیداروں کو آڑے ہاتھوں بھی لیتے۔ ان کے انتقال سے غالباً پندرہ روز قبل جب ان سے ملاقات ہوئی تھی جو آخری ثابت ہوئی تو اس ملاقات میں بھی انھوں نے ملت کے لیے دعائیں کیں اور ہم لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ بھی اللہ سے یہ دعا کریں کہ وہ ملت کے ٹھیکیداروں کو عقل سلیم عطا کرے۔ وہ مسلمانوں کے مسائل پر کھل کر گفتگو کرتے۔ لیکن ایسے مواقع پر ان کا اندرونی کرب لاکھ چھپانے کے باوجود ظاہر ہو جاتا۔ وہ دوسروں کی خامیاں تلاش کرنے میں نہیں بلکہ اپنے عیوب دیکھنے میں یقین رکھتے تھے۔ان کے اندر خود احتسابی کی مشکل عادت موجود تھی۔ وہ گفتگو کے دوران یہ بات ضرور کہتے کہ ہمیں اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر سوچنا چاہیے او رملت کے مسائل کو حل کرنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔
وہ ایک خوددار انسان تھے۔ سابق وزرائے اعظم وی پی سنگھ رہے ہوں یا نرسمہا راؤ یا پھر اٹل بہاری واجپئی، انھوں نے کسی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے وقت میں جبکہ ملت اسلامیہ مصائب میں گرفتار ہے میں دنیاوی عیش و عشرت میں کیسے رہ سکتا ہوں۔ اگر وہ چاہتے تو مذکورہ شخصیات سے بہت زیادہ فائدہ اٹھاتے اور پر تعیش زندگی گزارتے۔ لیکن ان کی خودداری اور غیرت مندی نے انھیں اس کی اجازت نہیں دی۔ آج جب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں اور میں ذاکر نگر کی گلی نمبر اٹھارہ سے گزرتا ہوں تو ان کی یادیں پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ وہ دور تک میرے ساتھ ساتھ چلتی ہیں اور بڑی منت و سماجت کے بعد واپس لوٹتی ہیں۔ ایسے مخلص، خوددار او رملی درد سے مغلوب دل رکھنے والے کہاں ہیں۔ شائد قدرت نے اپنے کارخانے میں اب ایسا انسان بنانا بند کر دیا ہے۔
جواب دیں