جلوۂ طُور تو موجود ہے، موسیٰ ہی نہیں

(پنجاب اور جموں کے مختلف علاقوں میں چار روزہ دورے کے بعد ایک احساس)

عبداللہ غازیؔ ندوی

(مدیر ماہ نامہ پھول بھٹکل)

 

جب بھی ادارہ ادب اطفال بھٹکل کے اراکین کے ساتھ ملک کے عرض وطول کا دورہ ہوتا ہے اس وقت ہمیں شدت کے ساتھ اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ملت میں ایسے کئی امور ہیں جن سے ہم بہت پیچھے ہیں بلکہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ہم بہت سے اہم ترین پہلوؤں سے ناواقف ہیں۔

پنجاب کی سرسبز و شاداب سرزمین اور جموں کے زرخیز علاقوں کے دعوتی و ثقافتی دورے کے بعد ذہن و دماغ پر کچھ ایسے نقوش ثبت ہوئے جن پر اگر معاشرے کے افراد سنجیدگی سے غور کریں تو شاید کچھ بات بنے!

آج ہم اپنے خاص موضوع سے ہٹ کر ملت کے ایک سلگتے پہلو پر گفتگو کریں گے۔

 

زمین اب نرم ہوچکی ہے

 

گزشتہ شب ہمارے ایک کرم فرما ہمیں پنجاب کے امرتسر کی بہت سی شاہراہیں طے کرکے اور گلی محلوں سے ہوکر ایک گھر میں لے گئے،ہمارے آنے پر پورا گھرانہ استقبال کے لیے پہنچا،ان کے استقبال سے اندازہ ہوا کہ گھر کے سارے لوگ نگاہیں فرش راہ کیے ہوئے تھےگویا ہمارے لیے

نگاہ شوق بچھائی تھی دل جلایا تھا

گھر والوں نے خوب خاطر تواضع کی،گھر کی عورتیں دروازوں کی اوٹ سے جھانکنےلگیں اور پھر سب اپنے مسائل کو سلجھانے لگے، دیکھتے ہی دیکھتے پورا کمرہ  عقیدت مندوں سے بھرگیا۔

ہر کوئی محبتوں کے پھول برسانے لگا اور بے لوث اپنائیت کا اظہار کرنے لگا۔

 

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا

بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

 

بوڑھے والدین بھی ہمارے دوست کو دیکھ کر کمرے میں داخل ہوئے،آنکھوں میں جذبات و احساسات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن تھا،اپنے بچوں،پوتی پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے گرد بیٹھے بوڑھے ماں باپ نے لڑکھڑاتی زبان سے ہمارے دوست کا شکریہ ادا کیا،گویا وہ زبان حال سے کہہ رہے تھے کہ:ایک وقت وہ تھا جب میرے بچے اوباش اور پرلے درجے کے بدمعاش تھے،شراب میں دھت رہتے تھے اور بنک پی کر عزتوں سے کھلواڑ کرتے تھے لیکن آج دین داری کا یہ عالم ہے کہ شاید فرشتوں کو بھی رشک آئے!

اب ذرا اطمینان کا سانس لیں، دھڑکنوں کو قابو میں رکھیں اور چشم دل سے سنیں پھر اپنی کوتاہ بینی اور کاہلی پر ماتم بھی کریں۔دراصل وہ سکھوں کا گھرانہ تھا اور اہل خانہ میں بہت سے ایسے تھے جن کے دلوں میں ایمان کی چنگاریاں روشن ہوچکی تھیں،کچھ ایسے تھے جو اس نعمت عظمیٰ اور دولت گراں مایہ سے سرشار ہونے والے تھے اور کچھ ایسے تھے جو بعض  مسلمانوں کے اخلاق و کردار کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔

جنھوں نے پنجاب کی خونیں داستان کو پڑھا ہے اور اس کے نتیجے میں تقریباً پانچ دہائیوں تک نفرتوں کے سرخ شعلوں کی تپش کو محسوس کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ سکھوں کے یہاں مسلمانوں کے لیے کتنی گنجائش تھی لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ بڑے بڑے گردواروں کے ذمہ دارمسلمانوں کے لیے دل و جاں نچھاور کر رہے ہیں۔ دو روز تک ہم نے سرہند ،امرتسر اور لدھیانہ کے گردواروں کا دورہ کیا،وہاں توحید و رسالت کی باتیں ہوئیں، رفیق سفر زفیف ندوی نے نعت نبی سے دلوں کے تاروں کو چھیڑا اور کچھ ایسا ماحول بنایا کہ دل سے دل کو راہ ہوئی اور گلشن دل کی ہر کلی بے قرار ہوئی۔گولڈن ٹیمپل سے فتح گڑھ اور لدھیانہ کے گردواروں تک ہم نے اپنائیت کا جو ماحول دیکھا وہ ناقابل بیان ہے۔

ایک وقت وہ تھا جب ہم غیر مسلموں کے ہمارے ساتھ حسن سلوک کے مظاہرے کے بعد اپنے مضمون کی سرخی اقبال کے اس شعر سے لگاتے تھے کہ

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

مگر آج جب ہم ان کے پاس بیٹھتے ہیں،ان کے گردواروں میں جاکر دین کے صاف ستھرے پیغام کو سناتے ہیں اور پھر  ان کے جذبات کو محسوس کرتے ہیں تو ہمارا دل پکار پکار کر اعلان کرتا ہے کہ

اب مٹی زرخیز ہوچکی ہے،بزرگان دین اور داعیان اسلام  کی محنتوں  کے صدقے وہاں کی کشت ویراں لہلہانے کو تیار ہے اور ہماری ذرا سی کوشش سے شمع اسلام پر قربان ہونے کے لیے ہزاروں پروانے بے تاب ہیں۔

لیکن افسوس اس پر کہ کون اس اہم ترین فریضے کو انجام دے! کون اپنے گاؤں کی ٹھنڈی چھاؤں کو چھوڑے!کون محلے اور گلی کی گندی سیاستوں کے چونچلوں سے باہر آئے! اور کون برادریوں اور خاندانوں سے نکل کر اس محاذ کو سنبھالے!

 

تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں

جلوۂ طُور تو موجود ہے، موسیٰ ہی نہیں

 

سرزمین پنجاب میں ہزاروں افراد ایسے ہیں جو دین خالص کی پیروی کے لیے مستعد ہیں لیکن ان کی رہنمائی کے لیے میرے محبوب کی اس امت میں افراد کی کمی ہے جو امت بروز حشر سب سے زیادہ ہونے پر تمام امتوں پر فخر کرے گی۔

خدا کی ذات ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

 

 اس سے بڑھ کر ڈوب مرنے کی بات اور کیا ہوگی کہ کسی وقت پنجاب میں عیسائیوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی لیکن ان کی مشنریز نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ آج پنجاب میں عیسائیوں کی تعداد پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے علاقے کو پوری دنیا کا درجہ دے دیا ہے،گھر،محلہ،مسجد اور اپنے اداروں کی چہار دیواری کے کاموں میں اس قدر منہمک کہ دنیا و مافیہا کے احوال و کوائف سے بے خبر۔جب کہ ہزاروں لوگ ہمارے اطراف اور بیرونی ریاستوں میں اسلام سے خارج ہونے کے باوجود ہمیں احساس کی توفیق بھی نہیں ملتی۔

کیا ایسا بھی کوئی جینا ہے!جس میں صرف تن آسانی اور عیش پسندی ہو! بلند بالا کوٹھیوں اور عالی شان عمارتوں میں رہ کر ہم اپنے فریضے کو انجام دے رہے ہیں؟ کیا نرم و نازک بستروں پر دراز ہوکر ہم اس درد اور کڑھن کو محسوس کرسکتے ہیں جس کے لیے محبوب کبریا کا سکون غارت ہوا تھا اور جس مشن کی تکمیل کے لیے آپ عمر بھر بےچین رہے۔

 

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

 

 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)

«
»

رحمت،مغفرت اورآگ سے نجات کا مہینہ رمضان

قرآن میں ذوالقرنین کی داستان……کیا کہتی ہے ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے