اگر عدالتی ہدایت کے مطابق قانون بناکر حکومتیں اس پر سختی سے عمل درآمد کرتی ہیں تو کچھ نہ کچھ مثبت نتائج حاصل ہوسکتے ہیں کیونکہ کم از کم عوام کے ایک طبقہ یعنی ملازموں میں یہ خوف پیدا ہوگا کہ وہ جہیز کے نام پر لین دین میں احتیاط برتیں، خاص طور پر ملنے والے جہیز کو خرد برد نہ کریں، لیکن جہیز کی لعنت نے آج معاشرہ میں جو اثر ونفوذ پالیا ہے اس کے خاتمہ کے لئے کوئی ایک قدم کافی نہ ہوگا بلکہ وہ تما م اقدامات کرنے پڑیں گے جن کو آج تک اہمیت نہیں دی گئی۔ اسی لئے سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلہ میں مزید کہا کہ حکومتیں بھی جہیز کے خلاف عوام میں بیداری مہم چلائیں اور جہیز انسداد قانون ۱۹۶۱ء پر موثر طریقے سے عمل درآمد کیلئے ایماندار اور مجاز مشنری تیار کریں۔
یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اب تک نہ تو حکومت کی سطح پر اور نہ سماجی تنظیموں کی طرف سے ایسے اصلاحی قدم نہیں اٹھائے گئے جو موثر ثابت ہوتے، اسی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میں آج بھی رحمِ مادر میں لڑکیوں کا قتل، اطفال کی شادیاں، بیواؤں کو ظلم وزیادتی کا شکار بنانااور عصمت دری کی وارداتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں کیا کوئی معاشرہ اپنی نصف آبادی کو محروم، نظر انداز اور غیر محفوظ رکھ کر طاقتور وخود کفیل بن سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر گہرے غور وفکر کی ضرورت ہے، بلاشبہ ملک میں اشاعت تعلیم کی وجہ سے مرد اور عورتوں میں خواندگی کی شرح بڑھ رہی ہے لیکن عورتوں کی تعلیم کی شرح پھر بھی کم ہے، اعلیٰ سرکاری عہدوں کو اگر نظر انداز کردیاجائے تو نچلی سطح کے روزگار تک میں عورتوں کا حصہ نہایت محدود ہے، گلوبلائزیشن کے آندھی میں خواتین کی ترقی کیلئے سیمینار، سیاسی جلسے اور سرکاری تقریبات میں بڑھ چڑھ کر دعوے ضرور کئے جاتے ہیں لیکن انہیں عملی جامہ پہنانے کیلئے قدم نہیں اٹھائے جاتے، عورتوں کو استعمال کی شئی کی حیثیت سے پیش کرنے کا رواج تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
اس سے قبل بھی سپریم کورٹ اپنے ایک فیصلہ میں کہہ چکا ہے کہ انسداد جہیز قانون ۱۹۶۱ء کے تحت شادی بیاہ کیلئے رشتہ کی بات چیت کرتے وقت جہیز کا مطالبہ کرنا بھی جرم ہے جس پر جہیز انسداد قانون کے تحت چھ ماہ کی سزا اور جرمانہ ہوسکتا ہے، لیکن اس فیصلے کے بعد بھی جہیز کا کاروبار کرنے والوں کے چہرے کی رونق میں کمی نہیں آئی، نہ جہیز کیلئے بہوؤں کو ظلم وزیادتی کا شکار بنانے اور انہیں خود کشی پرمجبور کرنے کی وارداتیں بند ہوسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہیز کی آتش کدہ کی آگ بڑھتی جارہی ہے کیونکہ جہیز کا لینا اور دینا بیماری نہیں اس کی ایک علامت ہے جس پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی اور ہمارا سماج اس پر محض اس خوف سے بحث نہیں کرتا کہ اس طرح وہ خود ننگا ہوجائے گا ، خاص طور پر وہ عناصر جو آج عورتوں پر نام نہاد ظلم وزیادتی کیلئے مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کل وہ خود جوابدہی کی حالت میں آجائیں گے اس لئے کبھی قانون بناکر تو کبھی عدالتی فیصلوں کے ذریعہ اصلاح کی جارہی ہے لیکن اس کی تہہ میں کون سے عوامل کارفرماہیں ان کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیا جاتا، نہ عوامی تربیت کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔مسلم معاشرہ میں جہیز کا لین دین نہیں ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے، لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں بیویوں کو مظالم کا شکار بناکر موت کے گھاٹ اتار دینے یا خود کشی پر مجبور کردینے کے واقعات کا تناسب مسلمانوں میں کافی کم ہے، جس کی وجہ ان کا عقیدۂ آخرت اور اسلام کے وہ عائلی قوانین ہیں جن کو مسلم پرسنل لا کہاجاتا ہے، حالانکہ طلاق وخلع کی جو سہولت اسلامی شریعت میں دی گئی ہے آج اس کو کھل کر مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن انصاف پسند حلقے یہ تسلیم کرینگے کہ موجودہ زمانے کے بیشتر مسائل کا حل اسی میں مضمر ہے اور اسلام نے عورت کو جس عزت، محبت اور حفاظت سے نوازا ہے ، اسی کا نتیجہ ہے کہ عورت اسلامی معاشرہ میں ہی محفوظ نظر آتی ہے۔ بہر حال انسداد جہیز قانون ہو یا عدالتی فیصلے ان کا مقصد بھی عورت کا تحفظ کرنا ہے جس کے لئے پہلے ذہنی تربیت اور سماجی ڈھانچہ میں پائی جانے والی خرابیوں کو
دور کرنا چاہئے۔
جواب دیں