ایسے لوگ دعا کی فلاسفی پر غور کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کر تے اس لئے ان پر دعا کی اہمیت افادیت واضح نہیں ہوسکتی کیونکہ ایسے لوگ دعا کے تجربے سے گزر ے بغیر دعا کے انکاری ہیں اور دعا کو لا حاصل سمجھ کر فقط تدبیر پر تکیہ کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کادعا کو ایک بہودہ و لغو امر سمجھنا ہی ان کے روحانی اندھا پن کا ثبوت ہے ۔ مادہ پرست روحانیت سے عاری وجود کوخدا کا وجود اس کی صفات اور اس کی قدرتیں جو دنیا میں کارفرما ہیں انکوکچھ بھی نظر نہیں آتا اور یہ طبقہ مذہب کا بھی انکاری ہے مذہب تو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والا راستہ ہے اور جو لوگ اس راستہ کو ترک کر کے مادہ پرست فلاسفر وں کا راستہ اختیا کر لیتے ہیں وہ سخت گمراہی میں مبتلا ہو کر اپنے مقصد حیات کو فراموش کردیتے ہیں اور مادہ پرست فلاسفر مذہب کو سائنس کی ضد سمجھ کراسے بیکار چیز سمجھتے ہیں اور وہ اپنے خیالات و تحریروں سے مذہب کو ایک بیکار چیز ثابت کرنے پر مصر ہیں ۔ اور ان کے پیرو کاروں کی نظر میں مذہب اور مذہب کی روح عبادت دعا یعنی روحانیت یہ سب بے مقصد چیزیں ہیں ۔او ر یہ طبقہ مذہب کو سائنسی ترقی کی ضد قرا دے کر انسان کو یہ باور کراتے ہیں کہ مذہب ہی انسان کی ترقی کے راستہ کی سب سے بڑی دیوار ہے۔حالانکہ مذہب ہمیں جو چیز سکھاتا ہے وہ ہمیں سائنس میں بھی زور شورسے نظر آتی ہے۔ یعنی مذہب اگر خدا کی تعلیم ہے تو سائنس( خداکے قانون قدرت کی کھوج تلاش ہے)خدا کا کام ہے۔ یعنی مذہب اگر خدا کا قول ہے تو قانون قدرت خداکا فعل ہے تو کسی باشعور انسان کو مذہب و سائنس میں کوئی تخالف نظر نہیں آسکتا ۔ مذہب خدا کے رستہ کانام ہے اور مذہب خدا کے روحانی قانون قدرت یعنی روحانی نظام کا پتہ دیتا ہے کیونکہ خدا پر ایمان اور دعا ہی ہم پر اس روحانی عالم کایقین پیدا کر سکتی ہے ۔ایمان اور دعا کی بدولت ہی ہم نے خدا سے قرب کی منزل کا سفر طہ کرنا ہے اور عباد ت و دعا کو اللہ تعالی ٰ نے ضروری اور اس کو انسان کی مقصد پیدائش قرار دیا کیونکہ اس کے بغیر خدا تعالیٰ کی معرفت اور اس کے قرب ( یعنی قریبی تعلق) کی منزل تک رسائی ممکن نہیں ۔ پس ا نسان اپنی زندگی میں عبادت و دعاکو ترک کرکے اپنے مقصد و مدعا کو پا ہی نہیں سکتا ۔تو ایک باشعور انسان دعا کو بے مقصد قرار دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ دعا تو انسانی فطرت کا خاصہ اور دعا ہی سے حضرت احدیت کی توجہ جوش مارتی ہے اور وہ مضطر بے بس بے کسوں کی دعا کو سُنتا ہے اور محتاج انسان کی داد رسی کرتا ہے اور دعا عبادت سے اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کو سکینت اور اطمینان اور حقیقی خوشحالی ملتی ہے۔ پس دعا ہی ہے جو اللہ تعالی کی ہستی کا زردست ثبوت ہے لیکن اس کے باوجود کسی کو زیب نہیں دیتا کہ اپنے فطرتی خاصہ دعا پر بے یقینی کی وجہ سے اسے بیکار چیز سمجھ کر اسے ترک کردے توظاہر ہے ایسا انسان محض تدبیر کا بندہ ہے نہ کہ خدا کا بندہ حالانکہ اللہ تعالیٰ انسانی پیدائش کا مقصد ہی اپنی عبادت کے ذر یعہ اپنا فرمانبردار بندہ بنانا کا مقصود ہے فرمایا۔ ہم نے جن و انس کو عبادت کے لئے پیدا کیا ۔ لیکن کیا اس کے باوجود عبادت و دعاکا انکاری محض تدبیرپر تکیہ کو کافی سمجھ کر مطمئن ہو سکتا ہے۔ایسا ہرگز ممکن نہیں ۔ اس کی مثال دنیا میں تدبیر کی ہے یعنی کوئی دوا ایسی نہیں کہ جس کے بارے میں معالج یا طبیب ایسا دعویٰ کر سکے کہ وہ قضاء قدر سے پوری طرح لڑ کر تمام قسم کی طبائع کو ضرور کسی مرض سے نجات دے سکتا ہے ۔اور اب تک طبیبوں کو کوئی ایسی دوا ( تدبیر) میسر نہیں آئی ا ور نہ آسکتی ہے کہ حکماََ ہر ایک طبیعت اور ہر عمر اور ہر ایک ملک کے آدمی کو مفید پڑے اور خطا نہ جائے لہذا باوجود تدبیر کے ’’ دعا کا خانہ خالی ہے‘‘۔اگرچہ اسباب( تدبیر) کی رعایت بھی ضروری ہے مگر حق بات یہ ہے کہ اسباب بھی تب ہی درست اور طبیب کو تب ہی سیدھی راہ ملتی ہے جبکہ خدا کا ارادہ ہواور انسان کو بجز دعا کے کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کے ارادہ کو انسان کی مرضی کے موافق کردے ۔ایک دعا ہی ہے جو کمال تک پہنچ جائے تو ایک روحانی مردہ کی طرح انسان دعا کے ذریعہ زندہ ہو سکتا ہے ۔پس خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ ایک عبادت گزار کی سچی توبہ کی دعا کو قبول کر کے اس کی گناہوں اور خطا ؤں کامواخذہ نہ کرے ا ور اپنے فضل سے اس کی خطاؤں اور گناہوں کو معاف کر کے اسے اپنے بندوں میں شامل کرلے ۔ دعا نہایت ہی عمدہ چیزہے یہی کیمیا ہے۔ پس انسان کی شریعت باطنی ( یعنی اس کی فطرت ) کا بھی یہی فتوی ٰہے کہ انسان دعا کو اسباب اور تدابیر سے الگ نہ کریں بلکہ دعا کے ذریعہ ہی سے تدبیر کو تلاش کریں۔غرض دعا اور تدبیر انسا نی طبیعت کے دو طبعی تقاضے ہیں جو قدیم سے جب سے انسان پیدا ہوا ہے دو حقیقی بھائیوں کی طرح انسانی فطرت کے خا دم ہیں ۔پس اگر انسان تدبیر پر تکیہ کر کے دعا کو ترک کرتا ہے تو ایسا تدبیر پر تکیہ کرنے والا خدا کا بندہ نہیں بلکہ تدبیر کا بندہ اپنے آپ کو ثابت کرتا ہے ۔ اور فقط تدبیر کا بندہ بن کر انسان اپنے مقصد حیات سے دور ہو کر دنیا میں خدا کے غضب کے نیچے آجاتا ہے اور ایسے انسان کے لئے اللہ تعالیٰ نے آخرت میں بھی جہنم مقدر کردی ہے ۔پس ہر ایک دعا خداتعالیٰ کے اسماء ( یعنی اس کی صفات) کے ساتھ خاص تعلق رکھتی ہے اور جب کوئی انسان دعا مانگنے لگے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی حاجت اور ضرورت کو دیکھے اور پھر اسکے مطابق اس کے نام کو تلاش کرے اور اس کا نام یعنی اس کی صفت کا نام لے کر خداتعالیٰ کو پکارے تو بہت جلد دعا قبول ہو جاتی ہے اگر کسی کو مشکل مصیبت آفت کے وقت اس کی کوئی صفت یاد نہ آئے تو اسے چاہیے کہ اللہ کا نام لے کر اسے پکارکر اپنی دعاکرے مضطر جو انتہائی اضطراب بے بسی بے کسی کی کیفیت میں اپنے اللہ کو پورے زور سے پکارے تو مضطر کے لئے کوئی شرط نہیں ہے کہ وہ مومن ہو یا دنیا دارکافر ہو یا کسی قسم کا مضطر یعنی بے بس بے کس ہو ۔خواہ بھوکا ہو ‘ ننگا ہو‘ پیاسا ہو ‘ بوجھ اُٹھانے والا ہوبوجھ اُٹھائے جا رہا ہو یعنی ایسے مضطر بے بس بے کس ( جس کے سارے سہارے جواب دے جائیں اور اب خدا کی پناہ کے علاوہ کوئی پناہ نہ ہو )تواللہ تعالیٰ ہر ایسے مضطر کی دعا کو قبولیت بخشتا ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا رب کہتا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا سنو گا جو لوگ ہمار ی عبادت کے معاملہ میں تکبر سے کام لیتے ہیں وہ یقیناََ جہنم میں رسوا ہو کر داخل ہونگے ۔( المومن ۶۱) اسی طرح فرمایا۔’’ تم اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے بھی پکارو۔یقیناََ وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔( الا عراف ۵۶) لیکن دور حاضر میں بظاہر مذہب سے وابستہ ایک طبقہ جن کی جدیدعلم سے آراستہ عقل نے ان کو خدا سے راہنمائی اور دعا کو ترک کرنے کی ترغیب دی ہے تو انہوں نے فقط تدبیر پر تکیہ کیا ہوا ۔اور ان کی جدید علوم سے آراستہ ذہنی ترقی کے زعم میںیہ سمجھتے ہیں کہ ان کی عقل ہی ان کی رانمائی کیلئے کافی ہے۔ ان کے لئے مزید کسی آسمانی راہنمائی کی خواہش تلاش بے معنی سی چیز بن کے رہ گئی ہے۔پھر یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ انسانی ذہن اتنا صیقل ہو چکا ہے اور ذہن نے اتنی ترقی حا صل کرلی ہے کہ وہ زمین سے بلند ہو کر دور چاند کی وسعتوں تک پہنچ چکا ہے بلکہ اس سے بھی پرے دیگر ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔یعنی اس نے علم وفہم سے دنیا کو مسخر کر رکھا ہے تو کیا اس ترقی یافتہ حالات میں بھی وہ خدا کا محتاج یاکسی آسمانی تعلیم ہدایت یا دعا کا محتاج ہے۔گو جملہ مذاہب کے لوگوں کی عقل جدید علوم سے آراستہ ہو جانے کے باوجود اور اس قدر ذہنی ترقی کرلینے کے باوجود کیا ان کی عقل انہیں اخلاقی بدیوں برائیوں اور شرک سے باز ر کھ سکی ہے ؟دراصل الہام آسمانی روشنی سے بے نصیب عقل اندھی ہے کیونکہ انکے مادی عقل کے اندھے پن نے مادہ پر ست جدید علوم سے آراستہ عقل نے انسان کو عقل سلیم و قلب سلیم کی نعمت عظمہ سے محروم رکھا ہوا ہے ۔ پس دور حاضر کے شرک یا دہریت پر مبنی خیالا ت مبداء فیض سے تعلق توڑنے کا باعث یعنی انسان کی توجہ خدا کی ربوبیت سے ہٹ کر غیر اللہ کی طرف منتقل ہو جاتی ہے ۔۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ذرہ ذرہ کا رب ہوں گا اور ہر ذرہ میری تسبیح کرے گا ۔مگر عبودیت کا مقام میرے عبادت گزار بندے کے سوا کسی کو حاصل نہ ہوگا۔سورۃ فاتحہ جو نماز کا حصہ بطور نماز دعا کے اس پر غور کریں تو اس کی صفات کے حوالے سے آگے ایاک نعبدو و ایک نستعین میں یعنی ہم تیری ہی کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے سوا ( جو ہمارا حقیقی معبود ہے ) کسی سے استعانت مدد طلب نہیں کرتے ۔ پس سورۃ فاتحہ میں مسلمانوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ دعا میں مشغول رہیں۔ لیکن مرور زمانہ کے ساتھ اسلام کے متبعین نے بھی دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی طرح سچ کے ساتھ جھوٹ کی کھوٹ کو ملادیاچنانچہ اس وقت مسلمانوں میں ایک طرف تو بعض لوگ قبر پرستی اور پیر پرستی اور توہم پرستی میں گرفتار ہیں تو دوسری طرف بعض لوگ حق تعالیٰ سے محبت کے ہی منکر ہیں ۔ شرک سے اس لئے روکا گیا کہ مشرک سے زیادہ گم گشتہ منزل اور کوئی ہے ہی نہیں ۔ظاہر ہے کہ جسے سچے اور حقیقی خدا کا علم ہی نہیں وہ اس کا قرب کیوں کر حاصل کر سکے گا‘اور مسلما نوں میں سے بہت سے علوم جدیدہ کی عقل سے آراستہ ایسے لوگ ہیں جو یہ تو کہتے ہیں کہ خدا رب العالمین ہے لیکن وہ اس کی صفت پر غور نہیں کرتے کہ وہ کس طرح اس کی ربو بیت کائنات کی ہر چیز حتیٰ کہ ذرہ ذرہ کی ربوبیت کر رہی ہے اور اہل ہنود کا بھی یہ حال ہے جو خدا تعالیٰ کو رب العالمین مانتے ہیں پھر پتھر کے بتوں کے سامنے سر جھکاتے ہیں ‘ پھر مشرک سے زیادہ خود اپنی توہین کرنے والا کوئی نہیں کیونکہ جن اشیاء پر انسان کوحکمرانی کے لئے پیدا کیا گیا اسی کے سامنے وہ سر جھکاتے ہیں ‘ جدید علوم سے آراستہ عقل ان کو بتو ں کے آگے سر جھکانے سے باز رکھنے سے بے بس نظر آتی ہے ؟ مسلمان رب العالمین خدا پر جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور پتھر کے بتوں کی جگہ قبروں مزارو ں پر جا کر اپنی حاجت روائی کی دعائیں کرتے ۔لیکن علوم جدیدہ سے آراستہ عقل ایک ظاہری ایمان کے دعویٰ کرنے والے مسلمان کو فقط عقل نہ سچی معرفت عطا کر سکی نہ شرک کے گناہ کی آلودگی سے اسے بچا سکی ۔ظاہری بدیوں میں اگر شرک کو لیا جائے تو مسلمان جو قبروں کے سامنے سر جھکاتے ہیں اور باطنی شرک یہ ہے کہ اپنے نفس کی ہر بے جا خواہشات کی پیروی کی جائے یہ بھی تو نفس کی غلامی یعنی نفس کی پرستش کی جائے اور بدیوں برائیو ں کو اختیار کیا جائے ۔ لیکن ا یمان کا دعویٰ کرنے والے زیادہ تر مسلمانوں نے الہام اور آسمانی ہدایت کی راہنمائی اور دعا کے دروازے اپنے اوپر بند کئے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ مسلمان ظاہری و باطنی دونوں قسم کے شرک کے گناہوں میں ملوث ہیں ۔ باطنی بدیوں میں سے کبر،ریاء خود پسندی اور کسل ہے ۔ بجز نفس امارہ ( یعنی بدیوں کی ترغیب دینے والا نفس ) کے خلاف یعنی جہاد بالنفس کے ذریعہ دل کی پاکیزگی اختیا ر کی جاسکتی ہے جہاد بالنفس کے بغیر نفس کی بدیوں سے نجات ممکن نہیں ۔لیکن آسمانی ہدائت کی روشنی اور دعااور سچی جستجو کوشش (یعنی جہاد بالنفس سچی توبہ سے ) نفس کی بدیو ں کے بُت توڑے جا سکتے ہیں ۔
جواب دیں