یہ دونوں واقعات اس ریاست (قدیم)میں وقوع پذیر ہوئے ہیں جو ملک کی دیگر ریاستوں کے بالمقابل انصاف اور قانون کی پاسداری کا زیادہ دعویدار ہے اورجس نے ۱۸؍مئی۲۰۰۷کو مکہ مسجد دھماکہ کے بے قصور ملزمین کو معاوضہ دے کر قانون اور انصاف کے حکمرانی کی ایک مثال قائم کی تھی۔ لیکن یہاں یہ بحث نہیں ہے کہ یہ واقعات کن ریاستوں میں اور کن پارٹیوں کی حکمرانی میں وقوع پذیر ہوئے، سوال یہ ہے کہ یہ واقعات کیوں رنما ہوئے اور کن کے اشاروں پر ہوئے؟ کیوں تلنگانہ پولیس نے سات ایسے ملزمین کو موت کے گھاٹ اتار دیا جو اپنی عدالتی کارروائی کے بالکل آخری مرحلے میں تھے اور کیوں آندھراپردیش پولیس نے صندل اسمگل کرنے کے الزام میں۲۰لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا۔
ہم بات کریں گے پہلے تلنگانہ کی۔ ۶؍اپریل ۲۰۱۵ کو ریاست کے نلگنڈہ میں پولیس نے ایک انکاؤنٹر میں دو لوگوں کو ہلاک کیا اور دنوں کی شناخت ممنوعہ تنظیم سیمی کے ارکان کے طور پر ہوئی۔ یہ شناخت کرنے والا سیمی کا کوئی سابق رکن نہیں بلکہ مدھیہ پردیش کی وہ پولیس تھی جسے ہر مسلم نوجوان سیمی کا رکن نظر آتا ہے اور سیمی پر پابندی لگنے کے بعد سے آج تک وہاں سیمی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری جاری ہے۔ابھی اس انکاؤنٹر کے فرضی ہونے کی آوازیں اٹھ ہی رہی تھیں کہ دوسرے روز اسی تلنگانہ پولیس نے ایک اور کارنامہ انجام دیتے ہوئے پانچ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان لوگوں کو بھی سیمی کا ممبر بتایا گیا۔ ان کے بارے میں پولیس کے حوالے سے میڈیا میں جو خبریں آئیں ان کے مطابق ان لوگوں کوورنگل کی جیل سے حیدرآباد سماعت کے لئے لایا جارہا تھا کہ حیدرآباد سے ۸۰ کلومیٹر کے فاصلے پر الیر اور جناگاؤں کے درمیان ملزمین نے پولیس سے ان کی ہتھیار چھین کر فرار ہونے کی کوشش کی جس کے بعد پولیس نے انہیں مارگرایا۔ پولیس کے ذریعے اسے ایک حقیقی انکاؤنٹرثابت کرنے کی کوشش میں کچھ فوٹوگراف میڈیا ہاؤس کو فراہم کئے گئے ، مگر اس کا کیا جائے کہ جھوٹ ہمیشہ اپنا رنگ ظاہر کرہی دیتا ہے۔
پولیس نے ان انکاؤنٹرس کی جو کہانی بیان کی ہے ، وہی اس کے فرضی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت بن گئی ہے۔ یہاں یہ حقیقت پیشِ نظر رہے کہ اس فرضی انکاؤنٹرس میں صرف وہی پولیس والے ملوث نہیں ہیں جنہوں نے گولیاں چلائیں اور جو واردات کے وقت وہاں موجود تھے، بلکہ اس معاملے میں ریاست کے اعلیٰ پولیس حکام کے ساتھ راست طور پر مرکزی خفیہ وتفتیشی ایجنسیاں بھی ملوث ہیں۔ کیونکہ پولیس کسی بھی ریاست کی ہو، وہ بذاتِ خود اپنے اندر اتنا دم خم نہیں رکھتی کہ بغیر کسی بالائی حکم کے اپنے طور پر کوئی ایسی کارروائی کرسکے جس پر بعدبازپرس کا امکان ہو ، الّا یہ کہ سات لوگوں کو انکاؤنٹرس میں اپنے طور پرہلاک کردے۔ اس لئے یہ بات بلا مبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ اس فرضی انکاؤنٹرس میں جن سات مسلم نوجوانوں کو قتل کیا گیا ہے ، ان کے قتل میں دہلی سے لے کر حیدرآباد تک ملوث ہے ۔
پولیس کا کہنا ہے کہ پانچوں مسلم نوجوان پولیس سے ہتھیار چھین کر فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے اور انہیں روکنے کے لئے فائرنگ کی گئی جس میں پانچوں ہلاک ہوگئے۔ اگر پولیس کی اس کہانی کوتھوڑی دیر کے لئے بھی سچ مان لیا جائے تو سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پانچ افراد پچاس سے زائد پولیس والوں کی گرفت اور نگرانی میں ہوں، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنے ہوئے چاروں طرف سے بند گاڑی میں ٹھسے ہوئے ہوں اور اچانک پولیس اہلکاورں سے ان کے ہتھیار چھین کر فرار ہونے کی کوشش کرنے لگیں؟اس کے علاوہ اس انکاؤنٹرس کی جوتصویریں میڈیا میںآئی ہیں انہیں دیکھ کر کوئی مفلوج العقل بھی اسے حقیقی انکاؤنٹر نہیں کہہ سکتا ، کیونکہ قتل کے بعد بھی مقتولین کے ہاتھوں کی ہتھکڑیاں سیٹ کی آرمنگ ہینڈل سے بندھی ہوئی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں رائفل پکڑا دی گئی تھیں ۔ پولیس نے شاید جلد بازی میں ان کی ہتھکڑیاں تک نہیں کھو ل سکی۔ اب بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی ہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا شخص اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے پولیس کا اسلحہ بھی چھین لے اور فرار ہونے کی بھی کوشش کرڈالے؟اس کے علاوہ مقتول وقار الدین احمد کے والد محمد احمد اور مقتول سید امجد علی کے بھائی سید امتیاز علی کا۸؍اپریل کو حیدرآباد میں ایک پریس کانفرنس میں یہ بیان اس انکاؤنٹر کو صریح طور پر قتل ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ ملزمین نے کئی مرتبہ عدالت کے سامنے پولیس کی جانب سے اپنی جان کو خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھااورعدالت سے جیل تبدیل کرنے کی باقاعدہ درخواست کی تھی۔
اب بات ۲۰صندل اسمگلروں کے انکاؤنٹر کی۔ یہ کارہائے نمایاں آندھرا پردیش پولیس نے ریاست کے چتور ضلع کے شیشا چلم کے جنگلوں میں انجام دیا ہے۔ پولیس کے مطابق ۱۵۰؍صندل اسمگلروں نے پولیس نے پر حملہ کیا تھا جس کے بعدپولیس کے ساتھ ان کا تصادم ہوا اور جس میں ۲۰صندل اسمگلر ہلاک ہوگئے ۔لطف کی بات یہ ہے کہ اس پورے تصادم میں ایک بھی پولیس اہلکار کو معمولی سی کھرونچ بھی نہیں آئی۔ صندل اسمگلروں کی جانب سے سے پولیس پر حملے کی بات اس لئے بھی بعید ازقیاس ہے کیونکہ یہ کاروبار پولیس کی ایماء پر منحصر ہے اور اسمگلر کسی صورت پولیس کے خلاف نہیں جاسکتے۔ لیکن اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ ہلک شدگان صندل اسمگلر تھے اور انہوں نے پولیس پارٹی پر حملہ کیا تھا تو کیا پولیس یا آندھراپردیش حکومت کے پاس اس بات کا کوئی جواز ہے کہ انہیں ہلاک کردیا جائے؟
ہندوستان میں قانون سب کے لئے یکساں ہے۔ چاہے وہ کوئی صندل اسمگلر ہو یا کوئی بڑا بیوروکریٹ یا کارپوریٹ دنیا کا کوئی ساہوکار۔ قانون کی دفعات سب پر یکساں طور پر لاگو ہوتی ہیں ۔ اب گر کوئی صندل اسمگلر صندل کی لکڑیاں چوری کرکے حکومت کو مالی طور پر نقصان پہونچاتا ہے تو کیا اس کے جرم کی وہی نوعیت نہیں ہوگی جو کسی یوروکریٹ یا کارپوریٹ سیکٹر کے کوئی ساہو کار کے ذریعے ٹیکس چوری کرکے ملک کی معیشت کو نقصان پہونچانے کی ہوگی؟کیا محض اس لئے کہ صندل اسمگلر جنگلوں میں رہ کر قانون کی خلاف ورزی کررہے ہیں، ان کو قتل کردیا جائے اور جو سفید پوش ہماری سوسائٹی میں رہ کر حکومت کو اربوں روپئے کا چونا لگارہے ہوں ان کی جانب سے آنکھ موند لی جائے؟ اگر یہی انصاف ہے تو ایسے انصاف پر لعنت ہے۔ اگر یہ اسمگلر صندل کی لکڑیاں چوری کرنے کی پاداش میں مجرم قرار پاتے ہیں تو ان کو بھی کسی طور نہیں بخشا جاسکتا جن کی مرضی اس کاروبار میں شامل ہوتی ہے اور جنہیں اس کالی کمائی کا ایک بھرپور حصہ پہونچتا رہتا ہے۔
سوال یہ پید ہوتا ہے کہ جب ملک میں انصاف اور عدلیہ کا ایک سسٹم موجودہے، اور جس کی بالادستی حکومتی احکامات سے بھی بلند تصور کی جاتی ہے تو پھر اس کی کیا ضرورت آن پڑتی ہے کہ کسی ملزم کو عدالتی مرحلوں سے گزارے بغیر قتل کردیا جائے ؟ تو اس کا جواب بالکل صاف ہے۔ ہمارے ملک کا اوسط طبقہ جس کی نظر بس حکومت وانتظامیہ کی جانب سے پروسے جانے والے ’صداقت ‘ تک محدود ہوتی ہے ، وہ ملزمین کے اس انجام کو بہتر سمجھتا ہے کہ برسہا برس عدالتی مرحلوں میں صرف کرنے کے بجائے ملزمین کو فوری طور پر انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا جائے۔ ابتداء میں انکاؤنٹر کا یہ تصور انڈرولڈ کے لوگوں کے ساتھ مخصوص تھا، مگر گجرات کی مودی حکومت نے اسے مزید وسعت دیتے ہوئے اس کا دائرہ مسلمانوں اور اپنے مخالفین تک پھیلا دیا تھا ۔ اب یہ ملک کی روایت بن چکا ہے ۔ اس روایت کے بننے میں سب سے اہم کردار عدلیہ نے ادا کیا ہے جو ملز مین کی حقانیت سے واقف ہونے کے باوجود برسہابرس یہ فیصلہ کرنے میں صرف کردیتی ہے کہ آیا ملزم محض ملزم ہے یا مجرم۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ہمارے ملک کی عدالتی نظام کی ناکامی بھی ہے ۔
سیمی کے الزام میں گرفتار سات مسلم نوجوانوں اور صندل اسمگلنگ کے الزام میں ۲۰لوگوں کا قتل ہماری پولیس اور انتظامیہ کی اس ذہنیت کو اجاگر کرتا ہے کہ قانون اور انصاف کی ایسی تیسی ،ہم جو چاہیں گے کریں گے ، ہم سے کوئی سوال بھی نہیں کرسکتا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو باقاعدہ بسوں میں بٹھا کر ، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا کر سینوں اور پٹیوں میں نہایت قریب سے گولی مارکر اسے انکاؤنٹر کانام نہیں دیا جاتااورجنگل میں لوگوں کی لاشیں بچھاکر اسے پولیس تصادم کا نام نہیں دیا جاتا۔ یہ قانو ن اور انصاف کی اجتماعی عصمت دری ہے ۔ یہ صاف اور صریح طور پر قتل ہے ۔ اگر پولیس والوں کے اندر قانون کا ذرا بھی پاس ولحاظ ہوتا تو یہ ہولناک واردات کسی طور رونما نہیں ہوتے۔ مرکز میں فسطائی حکومت کے قیام کے بعد سے پورے ملک کی انتظامیہ فسطائیت کی شکار ہورہی ہے، اگر وقت رہتے اس پر روک نہیں لگائی گئی تو یہ فسطائی طاقتیں قانون وانصاف کو اپنے گھر کی لونڈی بنالیں گی۔
جواب دیں